باتیں بہت سی ہیں لکھنے کو۔ سیاسی اور سماجی ایشوز قطار در قطار کھڑے ہیں لیکن آج ایک ایسی خبر پر نظر پڑی جس نے خیال کی رو کو اپنی جانب کھینچ لیا۔’’ممتاز شاعر جون ایلیا کی یاد میں 8روپے کا یادگاری ٹکٹ جاری کر دیا گیا‘‘۔ اس ایک خبر نے مجبور کیا کہ اپنے عہد کے منفرد ویکتا، شاعر، جون ایلیا پر کچھ لکھا جائے۔ شاید آج کے نوجوان قاری، جون ایلیا سے واقف نہ ہوں۔ کیونکہ انہیں فیس بک،ٹوئٹر اور موبائل فون میسجنگ سے اتنی فرصت ہی کہاں کہ کتاب ہاتھ میں پکڑیں۔ جون ایلیا نے تو اپنی تمام عمر کتابوں میں کھپا دی۔ تاریخ،فلسفہ، شاعری ،مذاہب کا مطالعہ، اور جانے کیا کچھ ! فلسفے میں غرق وہ ایک ایسا شخص تھا، جو فطرتاً مثالیت پسند تھا۔ایک مکمل اور خالص آئیڈیلسٹ۔ اور ظاہر ہے کہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کے سامنے، مثالیت پسندی کے چراغوں کو بجھنا ہی ہوتا ہے۔ ذات کے اندر کی دنیا اور ذات سے باہر کی دنیا میں موجود، کرب ناک تضاد نے جون ایلیا کی شخصیت میں تلخیاں بھر دیں۔ وہ اپنے نظریات، اپنی مثالیت پسندی کا اس قدر اسیر تھا کہ زندگی کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکا۔ یوں دنیاوی طور پر نہ تو وہ ایک کامیاب شخص تھا‘ نہ کامیاب شوہر اور نہ ہی ایک کامیاب باپ!۔ ہاں ،ان تلخیوں ،دکھوں ،حسرتوں، اور ناکامیوں نے شاعر کے احساس کی بھٹی کو دہکائے رکھا اور اس بھٹی سے کندن جیسے خیال شعروں میں ڈھلتے رہے۔ جون ایلیا جو، اپنی ظاہری ہیئت میں بھی الگ رنگ ڈھنگ رکھتا تھا، اس کے انداز و اطوار بھی، عجیب و غریب تھے۔ پھر اس کا خیال کیسے عام ہو سکتا تھا۔ اسی لئے جو اشعار جون کے قلم سے نکلے وہ سینکڑوں شعروں میں بھی جدا دِکھتے اور اپنے خالق کا پتہ دیتے ہیں۔ جون کے کہے ہوئے اشعار پر اس کے عہد کے شعراء نے بھی غزلیں کہیں‘ یوں وہ شاعروں کے ہجوم میں منفرد اور ممتاز تھا۔ اس نے یہ پذیرائی اپنی آنکھوں سے دیکھی لیکن پھر بھی اس بات پر قائل نہ ہو سکا کہ زندگی میں ناکام انسان سہی مگر ایک کامیاب شاعر ضرور ہے۔ اس نے اپنی پہلی کتاب چھاپنے میں، کئی دہائیاں صرف کر دیں۔ وہ کبھی تیار ہی نہ ہوتا کہ اس کا بھی مجموعہ کلام آئے۔ پہلی کتاب بھی چند دوستوں کی محبت بھری زبردستی کے بعد ’’شاید‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی۔ ’’شاید‘‘ کے آغاز میں جون ایلیا نے کئی صفحات کا طویل دیباچہ نیاز مندانہ کے عنوان سے لکھا۔ اس کی شاعری کی طرح اس کی نثر بھی بے حد خوبصورت ہے۔ یہ دیپاچہ اچھی نثر پڑھنے والوں کے لئے خاصے کی چیز ہے۔ ابتدائی پیرا گراف میں ہی جون کہتا ہے کہ میرا مجموعۂ کلام دراصل میرا اعتراف شکست ہے۔ جو انتیس برس کی تاخیر سے شائع ہو رہا ہے یہ ناکام آدمی کی شاعری ہے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رائیگاں گیا۔ مجھے رائیگاں ہی جانا چاہئے تھا۔ جس بیٹے کو اس کے انتہائی خیال پسند باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ہو اور بس یہ تلقین کی ہو کہ علم سب سے بڑی فضیلت ہے اور کتابیں سب سے بڑی دولت تو وہ رائیگاں نہ جاتا تو اور کیا ہوتا۔ایسے احساس کے ساتھ زندگی رائیگاں کرنے والے خالص تخلیق کار جون ایلیا نے کیسے کیسے خوب صورت شعر کہے۔اسی خیال کو خوبصورت انداز میں بیان کرتی ’’رمز‘‘ کے عنوان سے نظم کی چند لائنیں ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن مژدہ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا اپنے وجود کی رائیگانی کا احساس: کس کو فرصت کہ مجھ سے بحث کرے اور ثابت کرے کہ مرا وجود زندگی کے لئے ضروری ہے اور پھر: کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے کیا ستم ہے کہ اب تری صورت غور کرنے پہ یاد آتی ہے جانے کیا واقعہ ہوا‘ کیوں لوگ اپنے اندر نہیں رہے آباد شہرِ دِل میں عجب محلے تھے ان میں اکثر نہیں رہے آباد یہ شعر بھی جون ایلیا ہی کہہ سکتا تھا: یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا خود کو جانا جْدا زمانے سے آ گیا تھا مرے گمان میں کیا جون ایلیا نے جہان داخلی احساس کے حوالے سے بے مثال شعر کہے، وہیں، اپنے اردگرد ،خارجی حالات پر بھی غورو فکر کیا۔ شہر آشوب کے نام سے ایک نظم آج بھی ہمارے ملکی حالات کے زوال آثار منظر پر صادق آتی ہے۔آخری بند ہے۔ گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں جو ردّ ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے وہ لوگ ہم پر مسلّط ہیں اس زمانے میں جون ایلیا نے ایک انوکھے انداز میں شعر کہے۔ انوکھے پن کے ساتھ زندگی گزاری۔ وہ جو خود کو رائیگاں سمجھتا تھا آج اس کی تصویر والے یادگاری ٹکٹ کا جاری ہونا یہ اعتراف ہے کہ اس نے خود احساس کے کرب میں زندگی ضرور گزاری مگر اس احساس سے پھوٹنے والے اشعار رائیگاں نہیں گئے۔!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved