پاکستان اور بھارت دونوں کے آئینی اور سیاسی نظام کی بنیاد 1935ء کا ایکٹ ہے جسے برطانوی پارلیمنٹ نے تشکیل دیا تھا لیکن اگر موجودہ شکل میں دونوں کے آئینوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو بھارت کے مقابلے میں پاکستان نہ صرف پارلیمانی جمہوریت بلکہ وفاقی ریاست کا کہیں زیادہ بہتر نمونہ پیش کرتا ہے۔ مثلاً ہمارے آئین (1973ء) کے مطابق وزیراعظم کو پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) منتخب کرتا ہے جبکہ بھارت کا آئین لوک سبھا کو یہ اختیار تفویض نہیں کرتا۔ بھارت میں صدر وزیراعظم کو منتخب کرتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کا تعلق پارلیمانی انتخابات میں لوک سبھا کی اکثریتی نشستیں جیتنے والی پارٹی سے ہو۔ اسی طرح اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت پاکستان میں وفاق کی اکائیوں (صوبوں) کو قانون سازی‘ انتظامی اور مالی شعبوں میں جو رعایات حاصل ہیں وہ بھارتی آئین کے تحت یونین میں شامل ریاستوں کو حاصل نہیں۔ بھارت میں مرکز کو وفاقی اکائیوں کے مقابلے میں قانون سازی‘ انتظامی اور مالی امور میں اتنے اختیارات حاصل ہیں کہ بھارت کو وفاقی کے بجائے نیم وحدانی ریاست کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں 18ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد بعض حلقے اور تبصرہ کار پاکستان کو ایک فیڈریشن کے بجائے کنفیڈریشن قرار دیتے ہیں۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں وفاق اور اکائیوں کے درمیان اختلافات اور تناؤ زیادہ ہے حالانکہ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کیلئے ایک سے زیادہ میکانزم اور ادارے قائم ہیں۔ملکی سیاسی تاریخ کے قریبی جائزے سے اس کی ایک بڑی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختلافات اور مسائل کو حل کرنے کیلئے ادارے موجود ہیں مگر مقتدر حلقوں کی طرف سے ان اداروں کو بائی پاس کرنے یا ان میں اپنی مرضی کی تقرریاں کرنے سے یہ ادارے غیر مؤثر ہو کر عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ سب سے زیادہ اہم اور مقتدر ادارہ ہوتا ہے لیکن پاکستان میں بار بار مارشل لاء کے نفاذ نے اس ادارے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ 1956ء کے آئین کو نافذ ہوئے ابھی تین سال بھی نہ ہوئے تھے کہ صدر نے آرمی چیف کے ساتھ مل کر آئین کو منسوخ اور قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلیوں کو بھی معطل کر دیا۔ ملک کے اس پہلے آمر حکمران نے اکتوبر 1958ء سے جون 1962ء تک ملک پر براہِ راست مارشل لاء کے ذریعے حکومت کی۔ اس عرصہ کے دوران نہ تو قومی اسمبلی اور نہ صوبائی اسمبلیوں کا کوئی وجود تھا بلکہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سیاہ و سفید کا مالک تھا اور اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ جون 1962ء میں اس حکمران نے جو آئین نافذ کیا اس کے تحت پاکستان کو ایک پارلیمانی جمہوریت کے بجائے صدارتی حکومت قرار دے دیا گیا۔ مارچ 1969ء میں اس نظام کی جگہ ایک دفعہ پھر جنرل یحییٰ خاں کی قیادت میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا جو 1972ء تک قائم رہا۔ اس طرح 14برس تک پاکستان مسلسل ایک ایسے نظام کے تحت رہا جہاں پارلیمنٹ کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا یا پھر ایک ایسی پارلیمنٹ تھی‘ جو نہ صرف بالواسطہ طور پر منتخب ہوئی تھی بلکہ اس کے اختیارات بھی بہت محدود تھے۔
1973ء کے آئین کے تحت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے تقریباً چار سال کے عرصے کو پاکستان کا جمہوری دور کہا جا سکتا ہے مگر اس دوران بھی بعض اہم اقدامات کرتے وقت پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ جولائی 1977ء میں جنرل ضیا الحق کا مارشل لاء اور اس کے بعد آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت سویلین دور جنرل پرویز مشرف کے ملٹری ٹیک اوور تک جاری رہا۔ مشرف نے آٹھویں آئینی ترمیم کی جگہ 17ویں آئینی متعارف کروا کر پارلیمنٹ کے اختیارات ایک دفعہ پھر صدر کے ہاتھ میں دے دیے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ 2008ء میں مشرف کے استعفے اور17ویں آئینی ترمیم کی تنسیخ اور 18ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد بھی پارلیمنٹ کو صحیح کردار ادا کرنے کا موقع نہ ملا کیونکہ مشرف کے بعد آنے والی تمام حکومتوں کے ادوار میں قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ کے بجائے صدارتی آرڈیننس پربہت زیادہ انحصار کیا جانے لگا ۔ ملک میں بار بار آئین منسوخ کرنے اور مارشل لا لگانے کو روکنے کیلئے 1973ء کے آئین میں دفعہ چھ شامل کی گئی جسکے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کے بعد پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا گیا ہے مگر چار سال بعد ہی انکی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کر دیا گیا کیونکہ اس جرم کی سزا سے بچنے کیلئے راستہ نکال لیا گیا تھا۔ اس میں عدلیہ نے جرم کے مرتکب افراد کی اعانت کی۔ 1973ء کا آئین جس سیاسی ماحول میں تشکیل دیا جا رہا تھا اس میں سب سے اہم مسئلہ صوبائی خود مختاری تھا اس لیے اس مطالبے کو پیش کرنے والوں کو مطمئن کرنے اور صوبوں کی طرف سے مرکز کے خلاف شکایات کو دور کرنے کیلئے آئین کے تحت مشترکہ مفادات کونسل قائم کی گئی جس میں سب صوبوں کو نمائندگی دی گئی اور ایسے مسائل اور شعبوں کی نشاندہی کی گئی جو اس ادارے میں فیصلے کیلئے زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔ صوبوں کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر سے بچانے کیلئے یہ طے کیا گیا کہ کونسل کے اجلاس کے درمیان 90 دن سے زیادہ وقفہ نہیں ہوگا لیکن 90 دن کے بجائے کئی سال بیت جاتے ہیں اور صوبائی حکومتوں کے مسلسل مطالبوں کے باوجود اس اہم ادارے کا اجلاس نہیں بلایا جاتا۔ اداروں کی موجودگی کے باوجود یکطرفہ فیصلوں سے اپنی مرضی ٹھونسنے کیلئے جو راستے اختیار کیے جاتے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آئینی اور قانونی تقاضوں کے باوجود ان کے اجلاس کے انعقاد میں لمبی تاخیر کر دی جائے۔
سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں دریائے سندھ سے چھ نہریں نکالنے کے مسئلے پر جو احتجاج جاری ہے اُسکی وجہ بھی اس مسئلے کے حل کیلئے متعلقہ ادارے سے یعنی مشترکہ مفادات کونسل کی طرف رجوع کرنے میں دانستہ تاخیر ہے۔ آئین اور آئین کے تحت قائم شدہ اداروں کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ فیصلے کرنے کی روایت پاکستان میں بہت پرانی ہے اور اس وجہ سے جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اسے فوری طور پر حل کر کے ملک کے نظام کو سکون کیساتھ چلنے دینے کا موقع فراہم کرنے کے بجائے ایک چھوٹے سے مسئلے کو بڑے بحران کی شکل اختیار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ 1991ء میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کو صوبوں میں منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کے تحت قائم کردہ بااختیار ادارے اِرسا کی اجازت کے بغیر کوئی نئی نہر دریائے سندھ سے نہیں نکالی جا سکتی مگر مشرف دور میں اِرسا کی اجازت کے بغیر واپڈا نے گریٹر تھر کینال کی کھدائی شروع کر دی۔ جب اس پر شور مچا تو عذر پیش کیا گیا کہ اس میں صرف سیلابی پانی چھوڑا جائے گا۔ آج یہ نہر ایک دوامی نہر بن چکی ہے اور اس میں اُس وقت بھی پانی چھوڑا جاتا ہے جب ملک سخت خشک سالی کا شکار ہو۔ نئی متنازع نہروں کے بارے میں مرکزی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ان کیلئے اِرسا نے اجازت دی ہے مگر یہ اجازت کس طرح حاصل کی گئی؟ اِرسا کے پانچ ممبران ہیں جن میں چار صوبوں اور ایک وفاق کا نمائندہ ہے مگر وفاق کے ممبر کیلئے لازمی شرط یہ ہے کہ اسکا ڈومیسائل سندھ کا ہو مگر سندھی ڈومیسائل کے بغیر ایک بیورو کریٹ کو وفاق کی طرف سے اِرسا کا ممبر مقرر کرکے اکثریت کی بنا پر یہ اجازت حاصل کر لی گئی‘ حالانکہ سندھ کے نمائندہ ممبر نے اسکی مخالفت کی تھی‘ جسکی وجہ سے مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل کے پاس جانا تھا مگر حکومت نے کونسل کے اجلاس میں تاخیر کر کے نہروں کے اس منصوبے کا اعلان کر دیا۔ اب بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں فیصلہ ہونے تک کوئی نہر نہیں بنے گی اور اس کیلئے 2 مئی کو کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved