کاشتکار کی حالیہ گندم کی فصل پر معاشی بربادی کوئی نئی چیز نہیں ہے‘ تاہم اس کی جو حالت اس بار ہوئی ہے اس نے ماضی کی ایسی ساری خستہ حالیوں کا ریکارڈ توڑ کر رکھ دیا ہے لیکن کاشتکار کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو ہو رہا ہے گو کہ اس کی بنیادی ذمہ دار حکومت ہے جس کی غلط یا بے وقت پالیسیوں یا سرے سے ہی بے اعتنائی نے کاشتکار کی معاشی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا ہے تاہم اس ساری خرابی میں اور بھی حصہ دار ہیں اور ان حصہ داروں میں خود کاشتکار بھی شامل ہیں۔
میرے کچھ دوستوں اور قارئین کا خیال ہے کہ کسان اپنے مالی نقصان کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور دو روپے کے نقصان کو دو سو کا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کا یہ خیال قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔ معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے اور یہی وہ خرابی ہے جو کاشتکار کیلئے کئی مسائل پیدا کرتی اور اس کیلئے مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ کاشتکار اپنے نقصان کو تو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرتا لیکن وہ اپنے نفع کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اللہ جانے اس میں کیا راز پوشیدہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کاشتکار نفع ہونے کی صورت میں اپنی فصل‘ اس میں ڈالے گئے زرعی مداخل اور پھر فصل اُترنے پر اس کی فی ایکڑ پیداوار اور بازار میں فروخت ہونے والی رقم کے بارے میں بڑے مبالغے سے کام لیتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو اس کیلئے مصیبت کا باعث بنتا ہے مگر وہ یہ حرکت دہرانے سے باز نہیں آتا اور اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارتا ہے۔
فصل میں غیر معمولی منافع اور فی ایکڑ پیداوار کے بارے میں اس کا مبالغہ آمیز بیان دوسرے کاشتکاروں کو اس فصل کی طرف راغب کرنے کا باعث بنتا ہے اور اسے مارکیٹ میں سپلائی اور ڈیمانڈ کے توازن کے باعث فصل کی جو اچھی قیمت ملی ہوتی ہے اگلے سیزن میں اس توازن کے بگڑ جانے کے باعث وہ الٹی پڑ جاتی ہے۔ اس کے بیان کردہ منافع کا سن کر بہت سے لوگوں کے منہ میں پانی آ جاتا ہے اور وہ اگلے سیزن پر اپنی گزشتہ کاشتہ فصل کے بجائے سنے سنائے غیر معمولی منافع کے لالچ میں اپنے ہمسایہ کاشتکار والی فصل کاشت کر لیتے ہیں اور وہ یہ کرنے والا اکیلے نہیں ہوتے‘ جس جس نے بھی اس حیران کن منافع کا سنا ہوتا ہے وہ اپنی فصل چھوڑ کر یہ 'منافع والی فصل‘ کاشت کر لیتا ہے۔ نئی فصل مارکیٹ میں آتی ہے تو ضرورت سے زائد ہونے کی وجہ سے نہ صرف کم قیمت پر فروخت ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات گاہک نہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے ہی خراب ہو جاتی ہے اور فروخت ہونے کی صورت میں لاگت بھی پوری نہیں کرتی۔
اس کی ایک مثال ہائبرڈ لہسن کی ہے۔ پروگریسو قسم کے کاشتکاروں نے اس فصل کی ابتدا کی اور شروع شروع میں اس سے واقعتاً بہت اچھا منافع کمایا مگر بیان کرتے ہوئے اپنا منافع‘ جو خاصا معقول تھا‘ مزید بڑھا چڑھا کر بتایا۔ دوسرے کاشتکاروں پر اپنی محنت‘ عقلمندی‘ مہارت اور برتری کا رعب ڈالنے کیلئے حقیقت سے کہیں زیادہ پیداوار اور آمدنی بیان کرکے خود کو اس سے بہتر کاشتکار ثابت کیا اور اپنی انا کی تسکین کیلئے اسے پژمردگی کا شکار بنا دیا۔
دو شکاری بیٹھے گزرے سیزن میں اپنی کارکردگی کا ذکر کر رہے تھے۔ ایک شکاری نے دوسرے سے پوچھا کہ تم نے اس سیزن میں کتنے تیتر شکار کیے؟ دوسرے نے کہا کہ اس نے تین سو تیتر مارے ہیں۔ پہلے نے پھر پوچھا کہ وزنی سے وزنی تیتر کتنا تھا؟دوسرے شکاری نے اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس نے آدھ کلو گرام کا تیتر مارا تھا۔ پھر اس نے پہلے شکاری سے پوچھا کہ اس نے سیزن میں کتنے تیتر شکار کیے؟ پہلے شکاری نے کہا کہ اس نے چار سو سے زیادہ تیتر مارے ہیں اور وزنی سے وزنی تیتر پون کلو گرام کا تھا۔ دوسرا شکاری طنزاً کہنے لگا کہ اگلی بار میں تم سے پہلے پوچھوں گا‘ پھر دیکھوں گا کہ تم مجھ سے زیادہ اور مجھ سے وزنی تیتر کس طرح شکار کرتے ہو۔
باغ کا مالک اپنا باغ پانچ لاکھ کے ٹھیکے پر دے گا اور آٹھ دس لاکھ بتائے گا۔ پوچھیں تو کہے گا اس طرح وہ کسی سے دھوکا تو نہیں کر رہا‘ اپنا پانچ لاکھ کا ٹھیکہ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے تو کسی کا کیا نقصان ہے۔ حالانکہ وہ مارکیٹ کا توازن اور دوسرے باغ مالک کا دماغ خراب کر رہا ہوتا ہے۔ کسی فصل کی پیداوار سو من فی ایکڑ ہوئی تو اس نے ڈیڑھ سو من بتائی۔ فی ایکڑ آمدنی دس لاکھ روپے ہوئی تو سب کو بیس لاکھ بتائی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے کاشتکار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسی فصل کے پیچھے پڑ گئے۔ کسی کو پیاز میں غیر معمولی نفع کماتے دیکھا تو اپنی ارادہ کردہ فصل کو چھوڑ کر پیاز کاشت کر دیا۔ ساتھ والے کاشتکار نے ٹماٹر سے چار پیسے کما لیے تو ان صاحب نے بھی اگلے سال ٹماٹر بیج دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ کاشتکار بھیڑ چال کا شکار ہے۔ ادھر یہ عالم ہے کہ درست مارکیٹ طلب کو جانچنے کا کوئی میکانزم یا پیمانہ ہمارے ہاں سرے سے موجود ہی نہیں۔ بس ایک چیز کے پیچھے پڑ گئے تو اس کا اور اپنا بیڑہ غرق کیے بغیر چین نہیں آتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک سال فصل سے کمائی کرنے کے بعد اگلے سال بھیڑ چال کے باعث مارکیٹ کی طلب سے کہیں زیادہ پیداوار کے نتیجے میں پوری مارکیٹ کریش کر جاتی ہے اور منافع تو کجا‘ لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔
اس سال یہ ہوا کہ گزشتہ سال گندم کے بحران کے نتیجے میں گندم کا کاشتہ رقبہ تقریباً پانچ چھ لاکھ ایکڑ کم ہو گیا۔ اب اس پر کیا کاشت کیا جائے؟ اس سوال کا جواب یہ نکالا گیا کہ گندم کے متبادل فصل کے طور پر اسی ٹائم فریم میں کاشت ہونے والی فصلیں لگائی جائیں۔ متبادل فصلوں کا انتخاب کرتے وقت گزشتہ سال بھاری نفع کمانے والی سبزیوں کا نام ذہن میں آیا اور سب نے پیاز‘ لہسن اور ٹماٹر کے علاوہ دیگر سبزیاں کاشت کر لیں۔ ایک دم سے لاکھوں ایکڑ میں سبزیوں کی کاشت نے مارکیٹ میں طلب اور رسد کا سارا توازن تہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ پیاز کا ریٹ گر کر زمین پر آ گیا۔ جس کی لہسن کی فصل اچھی ہوئی اس کو تو کچھ بچت ہو گئی وگرنہ وہ بھی رُل گیا۔ ٹماٹر کا یہ عالم ہوا کہ سندھ میں ٹھٹھہ‘ سکھر‘ میر پور‘ ساکڑو وغیرہ میں بہت سا ٹماٹر کھیتوں میں ہی گل سڑ گیا۔ اسے اتارنے اور منڈی تک پہنچانے کا خرچہ اس کی قیمتِ فروخت سے زیادہ تھا‘ لہٰذا کاشتکار نے مزید نقصان سے بچنے کیلئے فصل اتاری ہی نہیں۔ ٹماٹر کی فصل تیار ہو جائے تو پھر محض پندرہ بیس دن کے اندر اندر اسے اتار کر منڈی بھیجنا ضروری ہوتا ہے‘ یہ وقت گزر جائے تو پھر سب کچھ زیرو ہو جاتا ہے اور اس سال بہت سی جگہوں پر یہی کچھ ہوا ہے۔ نہ سرکار کی طرف سے کوئی حقیقی رہنمائی ملتی ہے اور نہ ہی کاشتکار کے پاس مارکیٹ ماپنے کا کوئی ذاتی پیمانہ یا بندوبست ہے۔ سب کچھ سنی سنائی پر چل رہا ہے اور اس سنی سنائی میں مبالغہ آمیز پیداوار اور آمدنی کے دعوے سن کر دوسرے کاشتکاروں کے منہ میں پانی بھر آتا ہے اور وہ بھیڑ چال کا مظاہرہ کرتے ہوئے ساری مارکیٹ کے ساتھ ساتھ خود کو بھی برباد کر لیتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ زراعت ہر فصل کی طلب اور رسد کے سلسلے میں علاقے کی فصلات بارے کاشتکار کو نہ صرف آگاہی دے بلکہ کسی فصل کی ضرورت سے زیادہ کاشت کی حوصلہ شکنی کرے اور کاشتکار کو حقیقی طلب سے آگاہ کرتے ہوئے اس کی رہنمائی کرے۔ لیکن یہ سب کچھ محنت طلب کام ہے اور فیلڈ میں سروے اور آگاہی سیمینار کے علاوہ کاشتکار سے براہِ راست رابطے کے طفیل ہی ممکن ہے اور ہمارے سرکاری افسر اور اہلکار ایک عرصے سے کام کرنے سے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ سرائیکی کہاوت ہے کہ ''کم جوان دی موت اے‘‘( کام جوان کیلئے موت کے مترادف ہے)۔ ایسے میں پھر یہی کچھ ہوگا جو ہو رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved