تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     27-04-2025

…اے ہندوستاں والو

وزیراعظم شہباز شریف نے ملٹری اکیڈمی کاکول کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے پُرجوش اور دو ٹوک خطاب کیا۔ ان کی تقریر ختم ہوئے گھنٹوں گزر چکے لیکن ان کے الفاظ میرے کانوں میں کیا پورے پاکستان میں گونج رہے ہیں۔ وہ انگریزی بول رہے تھے‘اگر اُردو کا انتخاب کرتے تو تاثر اور بھی گہرا ہو جاتا۔ انہوں نے پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کی اور اسے ولولہ ٔ تازہ بھی عطا کیا۔واضح کر دیا کہ پاکستان کے حصے کا پانی روکنے‘ کم کرنے یا اس کے بہائو میں خلل ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سندھ طاس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری قبول نہیں ہے۔ یہ ناقابلِ تنسیخ ہے اور ہم اپنے پانی کی حفاظت اپنے خون سے کریں گے۔ انہوں نے بآواز بلندکہا‘ پہلگام واقعہ کے بعد بے بنیاد اور بلاثبوت الزامات لگائے گئے‘ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناتے اس کی غیرجانبدارانہ عالمی تحقیقات کیلئے تیار ہے۔ یوں گیند بھارت کی کورٹ میں پھینک دی۔ بھارت پر لازم ہے کہ اس پیشکش کو قبول کرے تاکہ دودھ اور پانی الگ ہو سکیں۔ اگر بھارت اس پر تیار نہیں ہوتا تو پھر اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ اسے یہ تجویز قبول کرنے پر مجبور کریں۔ کاکول سے پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹس میں تیرہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے تھے اور ٹوٹے ہوئے رشتوں کی بحالی کی توثیق اپنے انداز میں کر رہے تھے۔ کنٹرول لائن سے سینکڑوں کلو میٹر دور پہلگام میں جب سے دہشت گردی نے متعدد سیاحوں کی جانیں لی ہیں اور متعدد کو زخمی کیا ہے‘ بھارتی میڈیا آگ اُگل رہا ہے‘ انتہا پسند مودی حکومت اس کے دباؤ میں ہے یا وہ مودی کے دباؤ میں ہے‘ اس سے قطع نظر کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی طرف سے اُٹھنے والے جنگ کے بادل پورے جنوبی ایشیا پر منڈلا رہے ہیں۔ اس جنون کے جواب میں پاکستان ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لے رہا ہے۔ کسی گھبراہٹ کے بغیر محدود اور مؤثر جوابی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پوری قوم پُرعزم ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں تو اینٹ سے بہرحال دیا جائے گا۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں‘ دہشت اور طاقت کا یہی توازن امن کی ضمانت ہے‘ جو اسے تاراج کرے گا‘ وہ خود تاراج ہو جائے گا۔
دو‘ تین روز پہلے لاہور کی الحمرا آرٹ کونسل کے وسیع ہال میں ہزاروں افراد علامہ اقبالؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے اکٹھے ہوئے تو وہاں بھی جوش و خروش دیدنی تھا۔ ہر شخص اپنے وطن کی حفاظت کیلئے سربکف تھا۔ سابق انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار چیمہ نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو پیغامِ اقبال عام کرنے کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ اسلام آباد کے مختلف اہلِ دانش کے ساتھ مل کر انہوں نے علامہ اقبالؒ کونسل کی بنیاد رکھی ہے اور ان کی کاوش سے بڑے بڑے اجتماعات مختلف شہروں میں منعقد کرا رہے ہیں۔ لاہور میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے پُرعزم وائس چانسلر ڈاکٹر عمر چودھری کے زیر صدارت اجتماع عام کا انعقاد ہوا‘ جس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس سرکاری افسروں‘ اخبار نویسوں‘ قلم کاروں‘ استادوں اور طلبہ و طالبات کی بھاری تعداد شریک تھی۔ شاہین صفت ذوالفقار چیمہ‘ علامہ اقبالؒ کے بے باک پوتے منیب اقبال اور مسلم لیگ(ن) کے بیدار مغز رہنما خواجہ سعد رفیق نے حالات کے تناظر میں اقبالؒ کا پیغام عام کیا :جو رہی خودی تو شاہی‘ نہ رہی تو روسیاہی۔ فارسی کی نامور استاد ڈاکٹر عظمیٰ زریں نے اچھوتے لہجے سے حاضرین کے دل چھو لیے۔ سابق طالب علم رہنما تنویر عباس تابش نے اپنی نظامت سے عقابی روح بیدار کر دی۔ حاضرین کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آ رہی تھی۔ غزہ سے لے کر مقبوضہ کشمیر تک ظلم اور بربریت کے خلاف جدوجہد ہر شخص کی آرزو تھی۔ یہ بڑا اجتماع ستمبر 1965ء کی جنگ سے پیدا ہونے والے جذبے کی یاد دلا رہا تھا‘ جب بڑی تعداد میں نہتے شہری واہگہ کی سرحد کی طرف دوڑ پڑے تھے کہ انہیں حملہ آور کا منہ توڑنا ہے۔
پہلگام میں دہشت گردی کی جو واردات ہوئی‘ پاکستان میں کسی نے اس کی تائید نہیں کی۔ نہتے اور پُرامن شہریوں کو نشانہ بنانے کی کسی کوشش کی تائید کوئی مسلمان کر ہی نہیں سکتا۔ قرآن کریم کی ہدایت سب پر واضح ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کو ناحق قتل کیا‘ اُس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا‘ اس کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہے۔ عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی تائید کی جا سکتی ہے‘ نہ پاکستانی عوام اور میڈیا نے کی ہے۔ یہ بھارتی میڈیا اور حکومت ہیں‘ جنہوں نے کسی ثبوت کے بغیر الزام پاکستان پر لگا کر اس کے خلاف اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ وقوعے کے دس منٹ بعد پولیس نے جو ایف آئی آر درج کی اس میں پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا دیا گیا۔ اس سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ فالس فلیگ آپریشن تھا‘ بھارتی حکومت نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے جس کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ پہلگام میں ڈرامہ رچایا گیا تو امریکہ کے نائب صدر جی ڈی وانس اپنی بھارت نژاد اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ بھارت کے دورے پر تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی امریکی اعلیٰ عہدیدار بھارت آیا‘ دورے کے دوران یا اس کے بعد دہشت گردی کی واردات ضرور ہوئی تاکہ پاکستان پر الزام لگایا جا سکے۔ 2000ء میں صدر کلنٹن بھارت آئے تھے‘ تو 35سکھوں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بھارت نے اس کا الزام کشمیری جہادیوں اور پاکستان پر لگا دیا لیکن بعد میں یہ بات کھل گئی کہ یہ بھارتی اداروں کی کارروائی تھی۔ صدر کلنٹن نے وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ کی کتاب کے دیباچے میں بھی اس کا ذکر کیا اور بھارتی حکومت کے مؤقف کی تردید کی۔ سکھوں اور کشمیریوں کے درمیان کوئی تنازع نہیں‘ بھارتی منہ زوریوں کے خلاف دونوں ایک دوسرے کی طاقت ہیں۔ انہیں لڑانے اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی سازش دھری کی دھری رہ گئی۔ اسی پر موقوف نہیں‘ پاکستان کو ملوث کرنے کیلئے جو بھی منصوبہ بندی کی گئی‘ تحقیق و تفتیش نے اس کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا۔ پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی کا زندہ ثبوت کلبھوشن یادیو کی شکل میں ابھی تک ایک پاکستانی قید خانے میں پڑا اپنے آقاؤں کو کوس رہا ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے یک آواز ہو کر بھارت کو ناکوں چنے چبوانے کا عہد کیا ہے۔ منتخب ایوان اتحاد کے جذبے سے سرشار نظر آئے ہیں۔ 1965ء میں جنگ پاکستان پر مسلط کی گئی تو اُس وقت بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑے فاصلے تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے مقابلے میں صدر منتخب ہو چکے تھے۔ اس جیت کو روزنامہ ''نوائے وقت‘‘ نے اس شہ سرخی میں لوگوں تک پہنچایا تھا: الیکشن کمیشن نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی کامیابی کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن کے دل زخمی تھے‘ لیکن جب بھارتی فوجیں واہگہ کی سرحد پر حملہ آور ہوئیں تو سب ایک ہو گئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپوزیشن رہنماؤں کو ملاقات کی دعوت دی تو سب نے اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ جب ایوب خان کمرہ ملاقات میں پہنچے تو انہوں نے اپنے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر کے بقول‘ ان کے کان میں سرگوشی کی کہ تم نے میرے سارے دشمنوں کو جمع کر لیا ہے لیکن جونہی وہ آگے بڑھے‘ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں کوئی دشمن تھا ہی نہیں۔ سب بانہیں پھیلائے کھڑے تھے۔ آج بھی پاکستانی سیاست بٹی اور کٹی ہوئی ہے‘ غیرذمہ دار عناصر بھی اپنا وجود رکھتے ہیں‘ اس کے باوجود1965ء کا جذبہ انگڑائی لے رہا ہے۔ کہیں بھی خوف نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ پاکستانی دبنے کو تیار ہیں‘ نہ جھکنے کو۔ بھارت نے مزید کسی حماقت کا ارتکاب کیا تو اسے اس کے ایسے نتائج بھگتنا پڑیں گے کہ جن کی تفصیل بیان نہیں کی جا سکتی ؎
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دُنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved