تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     28-04-2025

خطرناک کھیل

اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد عالمی ہم آہنگی‘ امن اور سلامتی کے نئے سنہری دور کا آغاز ہوگا۔ اشتراکیت‘ کمیونزم‘ نظریاتی تنائو اور سیاسی توسیع پسندی جو سرد جنگ کے تقریباً نصف صدی کے اتار چڑھائو کے اسباب میں سے تھی‘ کی جگہ بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان تجارت‘ سرمایہ کاری اور خوشحالی کے حالات پیدا ہوں گے۔ بات تو بھارت کے سر پر سوار ہمارے خلاف جنگی جنون کی کرنا چاہتا ہوں مگر اس کے پیچھے ایک نوع کی سوچ اور بڑی طاقتوں کی پالیسیوں میں جو رجحانات پیدا ہوئے ہیں‘ ان کا کچھ ادراک ضروری ہے۔ عالمی نظام میں جب سے جدید ریاستوں کی تشکیل ہوئی‘ امن اور سلامتی بنیادی طور پر تو ہر ریاست کی اپنی ذمہ داری رہی ہے مگر اس میں دو خارجی عناصر امن اور جنگ کی کیفیت کو متعین کرتے رہے ہیں۔ ایک‘ بڑی طاقتوں کی تعداد اور ان کی پالیسیاں؛ اور دوسرا‘ ان کے درمیان طاقت کا توازن۔ یہ جو دوسرا عنصر ہے‘ یہ جامد نہیں۔ وقت کے ساتھ اور داخلی ترقی یا زوال کی وجہ سے تبدیل ہوتا رہا ہے۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو اس کی وجہ داخلی نظام‘ دفاع پر غیر متوازن اخراجات اور افغانستان میں طویل جنگ تھے۔ اس کی جگہ کئی ریاستیں وسطی ایشیا میں وجود میں آئیں اور مشرقی یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد اشتراکیت کی کڑوی گولی بزور طاقت نگلنے والی سب ریاستوں نے اپنی اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور سوویت یونین کا تجربہ اور وسیع سلطنت قصہ پارینہ بن گئے۔ طاقت کا توازن یکدم امریکہ کے حق میں ہوگیا اور ایسا ہوتے ہی تقریباً اُسی سال عراق کے خلاف پہلی جنگ لڑی گئی‘ مگر اُس کا احمقانہ آغاز اُس وقت کے صدر صدام حسین نے کویت پر قبضہ کر کے کیا تھا۔ اب یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ قبضہ تو ایک عرب ریاست پر ہوا مگر جنگ امریکہ نے کی اور مالی معاونت اس کے عرب حلیف ممالک نے کی تھی۔
اس کے دس سال بعد افغانستان میں مداخلت اور بیس سال تک جنگ‘ جس کے نتیجے میں ہونے والے انسانی المیوں کی داستان بہت طویل ہے۔ امریکہ کی جنگ کا دوسرا محاذ دوبارہ عراق میں اس کے دو سال بعد کھولا گیا اور صدام حسین کو پھانسی پر لٹکا کر اپنے اتحادیوں کو وہاں مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ مزاحمت ہوئی‘ اس کا دائرہ غیر روایتی مگر زیادہ خطرناک نظریات کے پرچارک گروہوں نے شام اور عراق کے کچھ علاقوں تک وسیع کیا تو امریکی جنگ کا دائرہ بھی وسیع ہوتا چلا گیا۔ لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ اور شام اور عراق کے کرد علاقوں میں امریکی اتحادیوں کی حکومتیں‘ جو تاریخی طور پر اپنے آپ کو قومیت پسند کہلواتے تھے‘ غلامی کی نئی مگر نرم زنجیریں پہننے کے مترادف ہیں۔ اس طرح افغانستان کے لوگوں کا ایک حصہ تو امریکہ کی جنگ کے خلاف مزاحمت کرتا رہا اور دوسرا طالبان کے خلاف ان کا دست و بازو بنا رہا۔ یہاں تو کوئی شک کا فائدہ بھی نہیں دیا جا سکتا کہ سب پیسے کا کھیل تھا اور جونہی امریکہ نے افغان قوم اور ریاست کی تشکیل کے فرائض سے سبکدوشی کا اعلان کیا اور انخلا شروع کر دیا تو وہی دست وبازو اُن کے ساتھ پرواز کرنے کی چاہ میں جہازوں کے ساتھ لٹکتے‘ گرتے اور لڑتے دیکھے گئے۔ معافی کا خواستگار ہوں کہ تمہید ضرورت سے زیادہ لمبی ہو گئی مگر جو اَب بھارت ہمارے خلاف کرنے کے لیے تڑپ رہا ہے اس کی وجہ طاقتور ریاستوں میں طاقت کے زعم میں عالمی معاہدوں‘ سلامتی اور امن کے بنیادی اصولوں اور بین الااقوامی قانون سے انحراف ہے۔ امریکہ نے اپنے حق میں ہونے والے لمحے کو بیرونی مداخلت‘ عالمی غلبہ بزور طاقت اور نیٹو کی توسیع پسندی کی صورت استعمال کیا۔ دوسری طرف روس نے آخر ایک دن فیصلہ کر ہی لیا کہ کہیں نہ کہیں تو سرخ لکیر کھینچ کر امریکی غلبے کو روکنا ہوگا۔ اس نے کریمیا کے علاقے پر دوبارہ قبضہ جمایا اور پھر یوکرین کے نیٹو کی طرف رجحان کو روکنے کے لیے اس کے سرحدی علاقوں میں روسی قومیت پسندوں کی حمایت شروع کر دی‘ خلفشار کو ہوا دی اور بات آگے بڑھی تو تین سال پہلے اُس کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا‘ جو ابھی تک رک نہیں سکی۔ دیکھنے میں طاقت کا توازن روس کے حق میں ہے اور وہ کسی قانون اور ریاستی خود مختاری کی پروا کیے بغیر اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔
اسرائیل نے بھی وہی کیا جو دیگر ریاستوں نے کیا۔ جب دیکھا کہ حریف کمزور ہے‘ تنہا ہے‘ اتحادی ناقابلِ بھروسا اور میدان میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکیں گے تو حماس کی سرگرمیوں کے خلاف ایسا ردعمل دکھایا کہ اُسے دیکھ کر عالمی نظام کی بے بسی اور عرب‘ مسلم ریاستوں کی محدود طاقت اور بے اثری کا جنازہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ شاید اس کی ضرورت ہی نہ پڑے‘ کہ انسانیت‘ اصول اور انصاف کے تمام اصولوں کے ساتھ اقوام متحدہ بھی غزہ کے کھنڈرات میں دفن ہو چکی ہے۔ بے بس شہری آبادی جو ایک محدود قطعہ زمین پر ہے‘ عالمی تاریخ میں کسی بھی ایسے مختصر اور گنجان آباد علاقے میں نہیں رہی۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں امریکی جامعات کے نوجوان طالب علموں‘ وہاں کے اساتذہ اور بائیں بازو کے دانشوروں کوکہ انہوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور انہیں اب مقدمات اور بے دخلیوں کا سامنا ہے۔ ایک اور بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جس تعداد میں لوگوں نے مغربی ممالک میں اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کے خلاف جلوس نکالے ہیں شاید ہی کسی مسلم یا عرب ملک میں نکالے گئے ہوں۔ اگر کچھ نکلے بھی تو پاکستا ن اور بنگلہ دیش میں ایک مذہبی سیاسی جماعت کی قیادت میں۔
عالمی نظام بوسیدہ اور زمین بوس ہوا اور اس کے ساتھ گزشتہ دو دہائیوں سے ایک ہندو قوم پرست جماعت‘ جس کی اڑان کا آغاز برصغیر کی قدیم بابری مسجد کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں انہدام سے ہوا تھا اور جس کا ہندوستان کی آبادی میں کوئی کردار نہیں‘ نہ صرف اپنی تاریخ کو نئے سرے سے لکھ رہی ہے بلکہ اس نے اقلیتوں کا ناطقہ بھی بند کیا ہوا ہے۔ ہمارے ساتھ ہر طرح کے تعلقات بند ہیں اور نہ جنگ‘ نہ امن کی فضا تنائو اور کشیدگی کی اٹھتی لہروں کے ساتھ قائم ہے۔ ہماری طرف سے بھی اُس کی سمت پھول نہیں بھیجے جاتے‘ اور ہر طرح کی پیغام رسانی ایک دوسرے کی زبان میں ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے ایک واقعہ کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معلق کرکے دو دریائوں کا پانی روکنا ہماری پہلے ہی سے پامال معیشت اور زراعت کا گلا دبانے کے مترادف ہوگا۔ جنگی جنون تو ایک عرصہ سے ان کے انتہاپسند سیاستدانوں کے سر پر سوار ہے‘ مگر دھمکیوں پر دھمکیاں ایک نئے خطرناک کھیل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جنگ اور عشق کا معاملہ سارے شاعروں کے مطابق ایک جیسا ہوتا ہے۔ آگ دونوں جانب برابر لگی ہوئی ہے۔ اس کے بغیر نہ عشق کامیاب‘ اور نہ جنگ کی آگ کے شعلے بلند ہوتے ہیں۔ ہماری ایک گزارش بھی ہے کہ طاقت کے توازن میں شامل سماجی‘ سیاسی‘ معاشی اور صنعتی عوامل کے ساتھ عالمی سطح پر سفارتی میدان میں ہم کئی دہائیوں سے کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے آئے ہیں۔ جس طرح غزہ میں نسل کشی کے خلاف جلوس نکلے ہیں‘ ہم بھی بھارت کے خلاف جلوس نکالیں گے‘ دھواں دھار تقریریں بھی ہوں گی اور دنیا کے انصاف اور قانون کے ایوانوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے گا‘ مگر زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اُوپر مثالیں دے چکا ہوں‘ کمزور کی آواز واپس لوٹ آتی ہے۔ طاقتور کی پہاڑ کے پار‘ دور تک سنی جاتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved