تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     01-05-2025

ہندوتوا کا ننگا ناچ …(2)

پہلگام واقعہ کو رونما ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ بیت چکا ہے‘ اس کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین درجہ حرارت کم نہیں ہوا ہے۔ سرحد کے اُس پار سے اگر دھمکی آمیز بیانات آ رہے ہیں تو اِدھر سے یہ اطلاع دی جا رہی ہے کہ ہر طرح کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری مکمل ہے‘ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے‘ کسی بھی نوعیت کا ایڈونچر بھارت کو مہنگا پڑے گا۔ پاکستان 2019ء میں اس کا عملی مظاہرہ کر بھی چکا ہے جب اس نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے تھے اور ایک طیارے کے پائلٹ ابھینندن ورتمان کو زندہ گرفتار کر لیا تھا۔
سب جانتے ہیں کہ نریندر مودی کے دوسرے دورِ حکومت میں بھارت اور پاکستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے۔ یہاں تک کہ پلوامہ حملے اور فضائی کارروائیوں کے باعث دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ اس دوران پاکستان بھارت سے مسلسل یہ مطالبہ کرتا رہا کہ تصفیہ طلب امور کو حل کرنے کے لیے جامع مذاکرات کا آغاز کیا جائے لیکن مودی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اس دوران سیز فائر کی خلاف ورزی ہوتی رہی اور سویلین اور فوجیوں کی ہلاکتیں بھی ہوتی رہیں۔ ابھینندن کو بعد ازاں خیر سگالی کے تاثر کے طور پر بھارتی فوج کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
اب پہلگام سانحے نے بھارتی قیاس آرائیوں کا ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں جبکہ پاکستان سانحے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات پر زور دے رہا ہے۔ حملہ ہو گا یا نہیں ہو گا؟ اگر ہوا تو کس نوعیت کا ہو گا؟ اس پر ردِعمل کیا آئے گا؟ اور اس سارے عمل کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ان سارے سوالات کے جوابات ابھی وثوق کے ساتھ نہیں دیے جا سکتے؛ البتہ یہ ضرور بتایا جا سکتا ہے کہ جب تک بی جے پی اور نریندر مودی بھارت میں برسرِ اقتدار ہیں‘ اس خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ نریندر مودی کو بھارت کا اقتدار سنبھالے پورے گیارہ سال ہو چکے ہیں اور اس سارے عرصے میں صرف ایک بار انہوں نے پاکستان کے لیے خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تب جب وہ دو تین گھنٹے کے لیے پاکستان آئے تھے۔ یہ 25 دسمبر 2015ء کی بات ہے۔ اس سے پہلے اسی سال پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں کے مابین 23 اگست کو ہونے والے مذاکرات مودی نے مذاکرات سے قبل پاکستانی وفد کی کشمیری حریت رہنماؤں سے ملاقات کو بنیاد بنا کر منسوخ کر دیے تھے۔ اگست میں ملاقات سے ایک دن پہلے بھارت نے اعلان کر دیا کہ بات چیت صرف دہشت گردی کے موضوع پر ہو گی‘ دوسرے کسی مسئلے پر بات نہیں کی جائے گی۔ اس کے جواب میں پاکستان کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے اعلان کیا تھا کہ کشمیر کے بغیر کوئی بات نہیں ہو گی‘ چنانچہ سکیورٹی ایڈوائزرز کی یہ ملاقات نہ ہو سکی۔ ان مذاکرات کی منسوخی کے بعد سخت بیانات کا تبادلہ بھی ہوا۔ اس طرح دونوں ممالک میں عرصے سے جاری جامع مذاکراتی عمل رک گیا تھا جو تاحال رکا ہوا ہے۔
اس خطے کے ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور تعلقات کے فروغ کے حوالے سے سارک تنظیم اہم کردار ادا کرتی رہی ہے لیکن جب سے نریندر مودی برسر اقتدار آئے ہیں‘ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے اختلافات کو بنیاد بنا کر ایک بھی سارک سربراہ کانفرنس نہیں ہونے دی۔ پھر اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ جب بھی بھارت میں ریاستی یا مرکزی انتخابات ہوتے ہیں تو مودی سرکار کی جانب سے کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ سٹیج کر دیا جاتا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات بڑھتے ہیں‘ عوامی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور مودی کی بی جے پی انتہا پسند ہندوؤں کے ووٹ حاصل کر کے دوبارہ برسر اقتدار آنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ مودی اگر پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد بھارت کے دوسرے وزیراعظم ہیں جو مسلسل تیسری بار اس عہدے پر قابض ہیں تو اس کی وجہ سب کی سمجھ میں آ جانی چاہیے‘ یہ کہ مودی ہندو انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں اور بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کا جینا انہوں نے حرام کر رکھا ہے۔
مودی حکومت کے اقلیتوں کے خلاف اقدامات اور قانون سازی کی بات بعد میں کریں گے۔ پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ مودی کے دور میں بھارت کا رویہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ کیسا رہا۔ پاکستان کے ساتھ بھارت اور مودی کے طرزِ عمل کا جائزہ ہم نے لے لیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ نیپال کے ساتھ بھارت کا رویہ کیسا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ دہائیوں سے انڈیا کے اپنے دو پڑوسی ممالک چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں پیش آنے والے چند واقعات کے بعد اب تاریخی طور پر نئی دہلی کے قریب تصور کیے جانے والے پڑوسی ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش‘ نیپال‘ بھوٹان‘ سری لنکا اور مالدیپ میں بھی انڈیا کے خلاف آوازیں اٹھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
کے پی شرما اولی گزشتہ برس چوتھی بار نیپال کے وزیراعظم بنے۔ وہ 2015ء میں بھی نیپال کے وزیراعظم تھے۔ تب انہوں نے اپنی ایک گفتگو میں بھارت کی طرف سے نیپال پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگانے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے اہم سرحدی پوائنٹس کی ناکہ بندی کر لی ہے جو جنگ سے بھی زیادہ غیر انسانی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے 2015ء میں نیپال کے خلاف انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے الزامات کی دستاویز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں جمع کرائی تھی۔ نیپال کے ساتھ بھارت کے سرحدی تنازعات بھی مسلسل چل رہے ہیں جبکہ نیپالی سیاستدان ایک سے زیادہ مرتبہ بھارت پر نیپال کے داخلی معاملات میں مداخلت کے الزامات عائد کر چکے ہیں۔ بھارت کا نیپال کے ساتھ یہ دشمنی والا رویہ اس حقیقت کے باوجود ہمیشہ قائم رہا ہے کہ نیپال دنیا کا واحد ملک ہے جس کا سرکاری مذہب ہندو مت ہے اور بھارت کی مودی حکومت بھی ہندوتوا کی پرچارک ہے۔
بھوٹان کو بھی بھارت کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین سرحدوں کا تنازع ہے اور پانی کی تقسیم پر بھی دونوں میں بحث ہوتی رہتی ہے۔ بھارت کی جانب سے بھوٹان کو مالی امداد ملتی رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھوٹان کو بھارتی استبداد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق تمام متنازع مقامات میں سے سب سے اہم مسئلہ سطح مرتفع ڈوکلام کا ہے جو بھارت‘ بھوٹان اور چین کے جنکشن کے قریب واقع ہے۔ چین اور بھوٹان دونوں اس علاقے پر حاکمیت جتاتے ہیں اور بھارت تھمفو کی پوزیشن کی حمایت کرتا ہے۔
مالدیپ جنوبی ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے اور سینکڑوں جزائر پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے صرف 200 جزائر ہی ایسے ہیں جہاں لوگ آباد ہیں۔ باقی جزیرے ویران ہیں۔ مالدیپ 1965ء میں تاجِ برطانیہ سے آزاد ہوا تھا۔ 1967ء میں مالدیپ میں ابراہیم ناصر کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ ابراہیم ناصر بعد میں اندرونی سیاسی خلفشار کے باعث 1978ء میں مستعفی ہو کر سنگاپور میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان کے بعد مامون محمد عبدالقیوم کا 30 سالہ دور شروع ہوا۔ مامون کا تختہ الٹنے کی کئی کوششیں کی گئیں۔ یہی وہ دور تھا جب مالدیپ کے سیاسی معاملات میں بھارتی مداخلت کا آغاز ہوا۔ 1988ء میں جب عبدالقیوم کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تو عبدالقیوم نے بھارت سے فوجی مدد طلب کی۔ بھارت نے مالے میں ''آپریشن کیکٹس‘‘ کے ذریعے بغاوت کو ناکام بنایا اور عبدالقیوم کی حکومت بحال کروانے میں مدد کی۔ لوگ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ عبدالقیوم کی حکومت گرانے کی کوشش کرنے والوں کو اس وقت سری لنکن حکومت کے خلاف برسرِ پیکار تامل ٹائیگرز کی حمایت حاصل تھی۔ انہی تامل ٹائیگرز کو سری لنکا کے خلاف بھارت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved