معلوم تاریخ میں دنیا کی سب سے طویل جنگ ایک ہزار سال تک لڑی گئی‘ جس کی ابتدا Helen of Troyکے حسنِ قیامت خیز سے ہوئی مگر اس مدر آف آل وارز کا انجام لکڑی کے گھوڑے Trojan Horse نے کیا۔ دوسری جانب دنیا کی پہلی اور آخری مختصر ترین ایٹمی جنگ محض تین دنوں میں اختتام پذیر ہو گئی۔ اس ایٹمی جنگ کا آغاز جاپان کے شہر ہیرو شیما پر چھ اگست 1945ء کے روز ہوا‘ جب ایک بدبخت امریکی پائلٹ نے لِٹل بوائے نامی ایٹم بم ہیرو شیما شہر کے لوگوں پر گرایا۔ تین دن بعد نو اگست 1945ء کے روز ایسا ہی ایک امریکی بمبار طیارہ ایک اور جاپانی جزیرہ نما شہر ناگاساکی پہ نمودار ہوا اور شہریوں پر ایٹم بم گرا کر واپس چلا گیا۔ اس ایٹمی جنگ کے المیے آج بھی جاری ہیں۔ اور جنگوں کی تاریخ میں یہ دو دن انسانی تہذیب کے چہرے پر بدنما دھبہ سمجھے جاتے ہیں۔
جنگ کے بارے میں عربی میں کہتے ہیں: الحرب خُدع‘ یعنی جنگ دھوکا دہی ہے۔ جنگ کے بارے میں تیسرا عالمی نظریہ کہتا ہے: جنگ کے پہلے مقتول کا نام سچائی ہے۔ جنگ کے بار ے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اتنی ناانصافیاں جنگ کے میدانوں میں نہیں ہوئیں جس قدر انصاف نہ دینے والی عدالتوں کے کمروں میں ہوتی آئی ہیں۔ 1965ء کی جنگ کے بعد سوویت یونین کی سہولت کاری سے روس کے تاریخی شہر تاشقند میں پاکستان اور بھار ت کے درمیان جنگ بندی اور جنگ کی پیش بندی کے بارے میں تفصیلی معاہدہ 10 جنوری 1966ء کو ہوا۔ پاکستان میں اس معاہدے کو یار لوگوں نے سیاسی مقاصد کیلئے خوب استعمال کیا جبکہ بھارت میں اس جنگ کے بطن سے لافانی شاعری تخلیق ہوئی جس کے ذریعے ترقی پسند طالب علم لیڈر اور لازوال انقلابی شاعر ساحرلد ھیانوی نے اپنا مؤقف‘ مشاہدات اور ہم عصروں کے دِلدر منظوم کیے۔ ساحر لدھیانوی پاکستان میں بھی کچھ عرصہ قیام پذیر ہوئے مگر ان کے ساتھ ہم نے ویسا ہی سلوک کیا جو انڈین نیشنل آرمی کے سربراہ‘ میرے گرائیں جنرل شاہ نواز خان کے ساتھ ہوا تھا۔
جنگ کے بارے میں یہ بات بھی تاریخی طور پہ ثابت شدہ ہے کہ دنیا میں جنگ کے حامی ہمیشہ کم پائے جاتے ہیں جبکہ جنگ کے مخالف لوگ ہمیشہ بھاری اکثریت میں ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود محدود طاقتور اشرافیہ اور وار انڈسٹری اپنی چوائس کے میدانِ جنگ چُنتا آیا ہے۔ سوچنے اور سمجھنے والے طبقات نے جنگوں کو ہمیشہ سے ناپسند کیا ہے۔ ذاتی حیثیت میں مَیں بھی جنگ کا مخالف ہوں۔
ان دنوں پہلگام فائرنگ کیس کے بطن سے پاک بھارت جنگ کے خطرات انٹرنیشنل بارڈر اور کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر منڈلا رہے ہیں۔ اس موقع پر قیدی نمبر 804 نے اپنے وطنِ عزیز کے حق میں سب سے مؤثر اور بامعنی بیانیہ پی ٹی آئی آفیشل اکاؤنٹ سے جاری کیا ہے۔ اس تاریخ ساز ٹویٹ میں عمران خان نے دو ایٹمی طاقتوں پر مشتمل خطے کو عالمی ''نیوکلیئر فلیش پوائنٹ‘‘ کہہ کر پکارا۔ عمران خان نے پہلگام پاک بھارت جنگی ماحول میں تنازع کے اصل ایشوز کو ہائی لائٹ کیا جس کے درج ذیل پوائنٹ قابلِ غور ہیں۔
عمران خان کا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ پہ پہلا نکتہ: عمران خان نے اپنے بیان کے آغاز میں پہلگام واقعہ میں انسانی جانوں کے ضیاع کو انتہائی پریشان کن اور المناک قرار دیا۔ ساتھ ہی پہلگام واقعے کے متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کو عمران خان نے اپنی جانب سے گہری تعزیت کا پیغام بھجوایا۔ عمران خان نے کمال دانش مندی سے پہلگام اور پلوامہ واقعات کو لِنک کر دیا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ جب فالس فلیگ پلوامہ آپریشن کا واقعہ ہوا تو ہم نے بھارت کو ہر طرح کی پیشکش کی لیکن وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔ اسی حوالے سے عمران خان نے 2019ء کی اپنی پیش گوئی یاد کرائی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پلوامہ کے بعد ایسا ہی واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے۔ پھر پہلگام واقعے کے بعد ویسا ہی ہورہا ہے۔ مودی سرکار حالات کی خود شناسی اور تحقیقات کے بجائے ہمیشہ پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔
عمران خان کا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ پہ دوسرا نکتہ: عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک ہونے کے ناتے سے وارننگ دی کہ بھارت کو عالمی سطح پر مشہور نیوکلیئر فلیش پوائنٹ خطہ کو چھیڑنے کے بجائے ذمہ داری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امن ہمیشہ سے ہماری ترجیح ہے‘ یہ بزدلی نہیں۔
پاکستان کے پاس بھارتی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔ جس کا ثبوت پوری پاکستانی قوم کی حمایت سے 2019ء میں بھارت کو در اندازی پر بھرپور جواب دے کر ساری دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ساحر نے استردادِ جنگ پر لکھا:خون اپنا ہو یا پرایا ہو؍ نسلِ آدم کا خون ہے آخر؍جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں؍ امنِ عالم کاخون ہے آخر؍ ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں؍ کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے؍ فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ؍زندگی میّتوں پہ روتی ہے؍ جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے؍جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی؍آگ اور خون آج بخشے گی ؍بھوک اور احتیاج کل دے گی
عمران خان کا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ پہ تیسرا نکتہ: مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب 2019ء میں بھارتی در اندازی کے جواب کیلئے سٹرٹیجی طے ہو رہی تھی تب بھی اور آج بھی عمران خان نے اِس ناقابلِ تردید حقیقت کو اجاگر کر دیا کہ آر ایس ایس کے نظریے کی قیادت میں انڈیا صرف خطے کیلئے نہیں بلکہ اس سے بھی آگے ایک سنگین خطرہ ہے۔ بھارت کیلئے بامعنی تجزیے کے طور پر عمران خان نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی غیر قانونی منسوخی کے بعد کشمیر میں بھارتی جبر کی شِدت نے کشمیری عوام کی خواہشِ آزادی کو مزید ہوا دے دی۔
عمران خان کا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ پہ چوتھا نکتہ: عمران خان نے فارم 47 کے ذریعے مسلط کردہ حکومت کی طرف سے قوم کی تقسیم پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا ہم اس حکومت کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم ایک قوم کے طور پر مضبوطی سے کھڑے رہیں گے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بیرونی دشمن کے خلاف جنگ جیتنے کیلئے سب سے پہلے اندرونِ ملک قوم کو متحد کرنا ہوگا۔ میں نے مورخہ 28اپریل 2025ء کے وکالت نامہ میں سندھ طاس اور جنگِ آب کے محاذ کے عنوان سے جس پولرائزیشن کا ذکر کیا تھا اسے عمران خان نے ٹویٹ میں ان لفظوں میں دہرایا: اب وقت آگیا ہے ان تمام کارروائیوں کو روکا جائے جو قوم کو مزید پولرائز کر رہی ہیں۔ اس نازک لمحے میں سیاسی شکار پر ریاست کی ضرورت سے زیادہ توجہ اندرونی تقسیم کو گہرا کر رہی ہے جبکہ بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کی اجتماعی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
قیدی نمبر 804قوم کیلئے قیدِ تنہائی سے بول پڑا مگر ایوانِ صدر اور ایون فیلڈ جوگی کے جلے ہوئے گاؤں کی طرح خاموش ہیں۔ نیوکلیئر فلیش پوائنٹ پہ عمران خان کا پیغام ببانگِ دہل بول رہا ہے:
نظر میں عصرِ جواں کی بغاوتوں کا غرور
جگر میں سوزِ روایات لے کر آیا ہوں!
جہانِ تیرہ کی خاموشیوں کے حلقے میں
چراغِ حرف و حکایات لے کر آیا ہوں
بلندو پست سے کہہ دو کہ صف میں آجائیں
زمیں پہ ذوقِ مساوات لے کر آیا ہوں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved