مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے مابین ایک فلیش پوائنٹ قرار دیا جاتا ہے جو کسی بھی وقت ایک نئی جنگ کا سبب بن سکتا ہے مگر میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں بھارت کی آبی جارحیت بھی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے جو پاکستان کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہونے والے بھارت کے سکیورٹی کونسل اجلاس میں دو فیصلے کیے گئے ہیں۔ ایک تو دریائے چناب اور جہلم پر پانچ ڈیم بنانے کی منظوری اور انہیں جلد از جلد مکمل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں اور دوسرا نومبر 1971ء میں مشرقی پاکستان پر حملے کی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی آرمی کویہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جنگ کے بارے میں جو حکمت عملی اختیار کرنا چاہے اور جس وقت کا تعین کرنا چاہے‘ آزادانہ طور پر کر سکتی ہے۔
1950ء کی دہائی میں امریکی اخبارات میں مضامین لکھے جا رہے تھے کہ مستقبل میں پانی کے مسئلے کو لے کر پاکستان اور بھارت کی جنگ ہو سکتی ہے۔ امریکی ماہرین اور ورلڈ بینک کے صدر بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اگر دونوں ملکوں کے مابین دریاؤں کی تقسیم کا معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان اور بھارت کے مابین اس مسئلے پر خون ریز جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ اکتوبر 1955ء میں جب پاکستان میں وَن یونٹ بنا اُس وقت بھی ملک میں نہری پانی کا جھگڑا چل رہا تھا اس کے باوجود پاکستانی حکومت امریکہ کے آبی ماہر رابرٹ تھل کے تجویز کردہ سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اُس موقع پر صدر اسکندر مرزا نے پنجاب کی لیڈر شپ ختم کرنے کیلئے ڈاکٹر خان صاحب (خان عبدالجبار خان)کو مغربی پاکستان کا وزیراعلیٰ بنادیا جنہیں عطا محمد نامی شخص نے قتل کر دیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کے قتل کے بعد غیر معروف سیاسی شخص نواب مظفر علی قزلباش کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ شنید ہے کہ مظفر علی قزلباش قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والوں میں شامل تھے۔ پنجاب میں مظفر قزلباش کی حکومت کے دوران مرکز میں فیروز خان نون کو وزیراعظم بنادیا گیا‘ جو برطانوی حکومت کے خصوصی نمائندے تھے۔ نواب مظفر قزلباش کی سیاسی جماعت ریپبلکن پارٹی نے مغربی پاکستان میں جمہوری ادارے کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نواب مظفر قزلباش اور صدر اسکندر مرزا نے امریکہ کی اشیر باد سے ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے کمانڈر انچیف ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا جنہوں نے بعد ازاں 27اکتوبر1958ء کو صدر اسکندر مرزا کو ملک بدر کرکے خود صدرِ مملکت کا منصب سنبھال لیا۔ صدر ایوب خان کی کابینہ میں عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد شعیب کو مرکزی وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مرکزمیں اہم وزارت سے نوازا گیا۔ محمد شعیب نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے اپنے ارد گرد قادیانیوں کے حامی بیورو کریٹس این اے طفیلی‘ جی معین الدین‘ این اے فاروقی‘ اے کیو فاروقی اور دیگر کو اکٹھا کر لیا اور ان کے ساتھ انہوں نے کچھ ہم خیال جرنیلوں‘ جن میں جنرل برکی پیش پیش تھے‘ کو ساتھ ملا کر صدر ایوب خان کے گرد گھیرا تنگ کیا اور انہیں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیلئے آمادہ کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے ابتدائی خاکے کی تیاری کے دوران جب 1957ء میں کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان سے رائے مانگی گئی تو انہوں نے اپنے ریمارکس میں لکھا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایسے کسی معاہدے کے حق میں نہیں جو پاکستان کیلئے خود کشی کے مترادف ہو اور انہوں نے تحریری طور پر سندھ طاس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد صدر ایوب خان سندھ طاس معاہدے کے حامی بن گئے۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ذریعے‘ جس کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب تھے‘ اس معاہدے کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا گیا۔ بتایا گیا کہ اس معاہدے سے پاکستان کی صرف 16لاکھ ایکڑ زمین متاثر ہو گی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس معاہدے سے متاثر ہونے والا زرعی رقبہ 60لاکھ ایکڑ بنتا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح اس معاہدے کے سخت خلاف تھیں اور سمجھتی تھیں کہ یہ معاہدہ پاکستان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گا اور اندیشہ ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے کیونکہ جہلم‘ چناب اور سندھ کے پانی سے جو نہریں نکالی جائیں گی ان کی افادیت وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کم ہوتی جائے گی اور بھارت جدید ترین ٹیکنالوجی کیساتھ بالآخر چناب‘ جہلم اور سندھ کا پانی بھی کشمیر کے بالائی حصے میں روک لے گا۔ اس پس منظر میں سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر1960ء کو کراچی میں طے پایا اور جس پر بھارت کی طرف سے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے دستخط کیے تھے۔ اس موقع پر پاکستان کے قدرتی وسائل کے مرکزی وزیر ذوالفقار علی بھٹو‘ سیکرٹری قدرتی وسائل نذیر احمد‘ وزیر خزانہ محمد شعیب‘ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر اے کے بروہی‘ سندھ طاس معاہدے کے مرکزی کردار جی معین الدین‘ جو بعد میں چیف الیکشن کمشنر پاکستان مقرر ہوئے‘ اور دیگر رہنمائوں نے اس تقریب میں اظہارِ تشکر کے بیانات جاری کیے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سرکاری بیان میں کہا کہ خدا کے فضل و کرم سے صدر ایوب خان نے پاکستان کو ریگستان بننے سے بچا لیا‘ ہمارے صدر کی عظیم صلاحیتوں کا دنیا بھر میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ دونوں ملکوں کیلئے اتنا اہم تھا کہ اسے اس سے قبل ہونے والی تین پاک بھارت جنگوں کے موقع پر کبھی زیر بحث نہ لایا گیا کیونکہ اس کے سنگین نتائج نکلتے‘ لیکن نریندر مودی کی پالیسی ماضی کی بھارتی حکومتوں سے مختلف ہے۔ ان کی سیاست اپنی مسلم مخالف پالیسیوں اور پاکستان مخالف نعروں پر ٹکی ہوئی ہے اس لیے پہلگام واقعہ کے دو روز بعد ہی انہوں نے اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا۔ اطلاعات ہیں کہ بھارت 23کلو میٹر طویل سرنگ بنا کر چناب کا پانی اپنی طرف منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔اس سرنگ کے ساتھ دریائے توی کو بھی جوڑا جائے گا‘ جو چھب جوڑیاں سے منسلک ہے۔ راوی اور بیاس سے پانی ستلج جمنا لنک کینال سے ہریانہ اور یوپی کو سپلائی کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔اسی طرح دریائے جہلم کا پانی وولر جھیل میں ذخیرہ کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے لیکن اُن بڑے بڑے پہاڑوں کی وجہ سے‘ جہاں سے دریائے جہلم نکلتا ہے‘ اس کا پانی مکمل طور پر روکنا بھارت کیلئے ممکن نہیں۔ پاکستان کیلئے بھارت کی جانب سے پانی روکنے سے بھی زیادہ بڑا خطرہ یہ ہوگا کہ بھارت بغیر اطلاع دیے پاکستانی دریاؤں میں سیلابی پانی چھوڑ دے‘ جو یہاں بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ پنجاب کے تین مشرقی دریا پہلے ہی بھارت کے پاس ہیں اور بھارت اب دو مغربی دریاؤں سے ہریانہ اور اُتر پردیش کو پانی فراہم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ پانی پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ اگربھارت اس آبی جارحیت سے باز نہیں آتا تو پاکستان کیلئے بھارت سے جنگ لازم ہو جائے گی۔ اگرچہ مسئلہ کشمیر بھی دونوں ملکوں میں وجۂ کشیدگی بنا رہا ہے مگر ہر بار جنگ کے خطرات ٹل جاتے رہے تاہم اگر بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی روک لیا تو پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہو گی کہ وہ اپنے حصے میں آنے والے دریاؤں پر بنائے جانے والے ڈیموں کو بموں اور میزائلوں سے اُڑا دے۔
اگلے روز پریس کانفرنس میں افواجِ پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا اندازِ بیان پاکستانی عوام کے جذبات کی عکاسی کر رہا تھا جبکہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر دفاع کے پس و پیش والے بیانات سے مفاہمت کا تاثر مل رہا ہے۔ اس وقت حکومت کی طرف سے بھارت کو کوئی ایسا پیغام نہیں جانا چاہیے کہ جس سے یہ تاثر ملے کہ پاکستانی حکومت کسی لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved