یہ بحث سرے سے شروع ہی نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ نہ ہی اس کا یہ وقت ہے‘ نہ ہی محل اور نہ ہی کوئی موقع۔ لیکن چونکہ بحث شروع سرکار نے کی اور پھر اسے پبلک بھی کر ڈالا ہے‘ اس لیے رسید ضروری ہے مگر ایک منٹ ٹھہر کر۔ پہلے قیدی نمبر 804 کی پہلگام فائرنگ کیس پر ٹویٹ کا وہ حصہ جو میں نے گزرے جمعہ کے دن شائع ہونے والے وکالت نامے میں ریفر کیا‘ اُس میں سے تھوڑا سا ٹویٹ پھر سے پڑھ لیتے ہیں تاکہ قارئین کو تقابلی فیصلہ لینے میں آسانی ہو۔ لیجیے پڑھیے:
''عمران خان نے کمال دانش مندی سے پہلگام اور پلوامہ واقعات کو لِنک کر دیا۔ عمران خان کہتے ہیں: جب فالس فلیگ آپریشن پلوامہ کا واقعہ ہوا تو ہم نے بھارت کو ہر طرح کی پیشکش کی لیکن وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہوا۔ اسی حوالے سے عمران خان نے سال 2019ء کی اپنی پیش گوئی یاد کروائی‘ جس میں عمران خان نے کہا تھا کہ پلوامہ کے بعد ایسا ہی واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے۔ پھر پہلگام واقعے کے بعد ویسا ہی ہو رہا ہے۔ مودی سرکار حالات کی خود شناسی اور تحقیقات کے بجائے ہمیشہ پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے‘‘۔ عمران خان کی اس ٹویٹ کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کی کور کمیٹی‘ اُس کی ذیلی لیگل کمیٹی اور دو ذیلی کمیٹیوں‘ لیگل کمیٹی اور پولیٹکل کمیٹی کے تین روز تک مسلسل اجلاس منعقد ہوئے۔ ان اجلاسوں میں عمران خان کے قومی مؤقف اور قومی بیانیے کے عین مطابق پاکستان تحریک انصاف نے باقاعدہ پبلک پوزیشن بھی لے لی‘ جو پوری قوم نے دیکھی‘ سُنی اور پڑھ لی۔
اب آئیے مرکزی اور صوبائی حکومت کے دو ترجمانوں کے بیانات کی جانب‘ جو پریس میں رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے پہلا بیان عمران خان کی ٹویٹ کے فوراً بعد پنجاب کی وزیراعلیٰ نے بذریعہ خطاب جاری کیا۔ کہنے لگیں: جو بھی حالات ہوں آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ دوسرے جملے میں عمران خان کو نشانے پر لے کر کہا: اُس کی سیاست ختم ہو گئی ہے اور وہ لوگ اب جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ تیسرے حصے میں نوجوانوں کے لیے حکم نامہ جاری فرمایا: آپ اُس (عمران خان) کا ساتھ چھوڑ دیں۔ پھر جتنی زبانی گولہ باری ہو سکتی تھی‘ وہ بھی بڑی فراخدلی سے کی۔ میں سی ایم کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ نے بھارت کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔ آپ کی پارٹی کے وزیر وں کے مطابق 24 گھنٹے یا 36گھنٹے‘ جو کب کے گزر چکے‘ میں بھار ت کا حملہ متوقع ہے۔ آپ نے مودی کا نام لینے کے بجائے عمران خان کا نام ایسے لیا جیسے اٹاری والے بارڈر پر نہیں‘ میانوالی کے بارڈر پر جنگ لڑنی ہے۔ ایک پہلو سے گورنمنٹ نے بہت اچھا کیا کیونکہ ایسے موقع پر اس طرح کی بیان بازی سے عام لوگوں کو پتا چل جائے کہ کس کا ظرف کتنا ہے اور کس کی ترجیحات کیا ہیں؟ کمال کی بات یہ ہے کہ ایک جانب سرکار کے ڈھولچی قوم کو متحد کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب سرکار بھارت‘ مودی اور انڈین آرمی کو للکارنے کے بجائے عمران خان‘ ڈاکٹر یاسمین راشد اور صنم جاوید کو للکار رہی ہے۔ اسی بیان کے فالو اَپ کے طور پر (ن) لیگ کے ایک کُل وقتی ترجمان نے اپنے ایکس اکائونٹ پر ایک بیان داغا‘ مگر ترجمان کا نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ اُن کے والد کی شاعری کو راولپنڈی نے دوام دیا اور ہم بھی اس سے لطف اٹھاتے ہیں۔ یہ دونوں بیانات پاک بھارت تصادم کی فضا کے بیچوں بیچ ملی یکجہتی اور قومی بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے جنگ کے منڈلاتے بادلوں کے عین درمیان سرکاری اور سوشل میڈیا پر چلائے گئے۔ مذکورہ ٹویٹ کے الفاظ یہ ہیں: ''2011ء سے ہمارے ٹی وی سکرینوں پر صرف عمران خان کی خبریں بریکنگ نیوز بن رہی تھیں۔ عمران خان نے کھانا کیا کھایا؟ ورزش کی یا نہیں؟ کس سے ملاقات ہوئی‘ کس سے نہیں۔ بس یہی ہمارے میڈیا کا موضوع تھا‘‘۔ اس سے آگے دانش کے کوہ ہمالیہ نے ٹویٹ میں جو حوالہ دیا وہ ملکی معاملات کی نازکی کی تفہیم کا اوجِ کمال ہے۔ ایسا اوجِ کمال جس میں سے جنگی ماحول میں بھی بھنگڑا اور لڈو اچھلتے نظر آ رہے ہیں۔ ٹویٹ میں مزید کہا: پہلگام واقعے کے بعد پاک بھارت تنائو میں اضافہ ہوا تو عمران خان کو پہلی دفعہ میڈیا نے نظر انداز کیا ہے‘ جو تحریک انصاف کے زوال کی آخری نشانی ہے‘‘۔
سرکار نے یہ ماحول پیدا کرنے کے بعد یہ سمجھ لیا کہ اُنہوں نے تحریک انصاف کے خلاف جنگ جیتنی تھی‘ سو جیت لی۔ ساتھ ہی مضحکہ خیز طریقے سے یہ اعلان کیا ''تمام سیاسی قیادت‘‘ کو پاک بھارت کشیدگی پر ایک وزیر بریف کرے گا۔ یہ ''تمام قیادت‘‘ والی بات بھی کمال ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی‘ سب سے مقبول سیاسی رہنما اور سب سے مؤثر تحریک کو باہر رکھ کر تانگے کی سواریوں والے اپنے آپ کو تمام سیاسی قیادت گِن رہے ہیں۔اس تمام سیاسی قیادت کی تمام تر قیادت سنبھالے ہوئے تاحیات قائد نواز شریف ہیں مگر یوں لگتا ہے کہ جیسے انہیں ابھی پتا نہیں چل سکا کہ پہلگام میں کچھ ہوا ہے‘ جس کے نتیجے میں بھارت نے پنجاب کے پانچ دریائوں کا پانی ہڑپ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ انٹرنیشنل بارڈر سے لائن آف کنٹرول تک دونوں جانب فوجیں eye to eye اور ball to ball صف آرا ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اُن کی پارٹی اور خاندان جس معاملے میں اپنے آپ کو تمام سیاسی قیادت کہہ رہے ہیں اُس معاملے پر انہوں نے ابھی تک ایک لفظ نہیں بولا۔
PDM-II کے حکمران ان مشکل ترین حالات میں حرب وضرب کی جن تیاریوں میں مصروف ہیں اُس کا ایک اور ثبوت مارگلہ ہلزکے مڈ نائٹ جیکالز کی آوازوں کے سائے میں آدھی رات کو سامنے آیا۔ صدر ہائوس سے کل اتوار کو چھٹی والے دن ایک ہنگامی آرڈیننس جاری ہوا جس کا مقصد یقینا مودی کو یہ پیغام بھیجنا ہوگا ہم کس قدر خوشحال اور طاقتور ہیں۔ پوری قوم کو جنگ اور مشکل وقت میں قربانی کا منترا سنایا جا رہا ہے‘ ایسے میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ویک اینڈ کی نصف شب کو وفاقی وزرا‘ منسٹرز آف سٹیٹ اور ایڈوائزر کی تنخواہوں اور الائونسز میں 140 فیصد اضافے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ یہ اُس ملک کی سرکار ہے جس کا ایک ورکر نوکری کے بقایا جات نہ ملنے پر اس سال تخت لاہور کی سب سے بڑی عدالت کے دروازے پر اپنے آپ کو آگ لگا دیتا ہے۔ مرنے کے بعد متوفی کے وارثوں کو لاہور ہائیکورٹ نے 75 لاکھ روپے کا چیک جاری کرنے کا حکم دیا۔
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا
دعووں کے ترازو میں تو عظمت نہیں تلتی
فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا
اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبانوں میں جھانکا نہیں جاتا
ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی
شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved