ویسے تو دونوں اطراف ٹی وی چینلوں پر کہانیاں چل رہی ہیں لیکن ماننا پڑے گا کہ چیخ و پکار اور غلط رپورٹنگ میں انڈیا کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ ہر چینل اُن کا گولہ باری میں لگا ہوا ہے۔ اُن کی ایک جرنلسٹ ہیں پالکی شرما جو کہ انگریزی میں ایک پروگرام کرتی ہیں۔ پڑھی لکھی اور جاذبِ نظر ہیں‘ انگریزی بھی خوب بولتی ہیں اور انڈین پوزیشن کی خوب ترجمانی کرتی ہیں۔ چیختی چنگھاڑتی نہیں ہیں‘ خوش اسلوبی سے انڈیا کی ترجمانی کرتی ہیں چاہے وہ ترجمانی خالص یکطرفہ خبروں اور پراپیگنڈا پر مبنی ہو۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اُن کی بنائی کہانی میں اصل کہانی مل جاتی ہے۔
کالم لکھنے سے پہلے اُن کا پروگرام کھولا۔ ظاہر ہے یہ گزرے ہوئے کل کی بات تھی اور اُسی صبح پاکستان کے بھاری حملے ہندوستانی ٹھکانوں پر ہوئے تھے۔ پالکی جی نے اقرار کیا کہ اتنے ٹھکانوں پر حملے ہوئے ہیں اور ان حملوں میں پاکستان نے جہاز‘ میزائل اور بہت کچھ اور استعمال کیا ہے۔ نقصان کا انکار کیا لیکن حملوں کی تصدیق تو ہو گئی۔ پھر یہ بھی کہا کہ ہندوستان ایسکلیشن کی طرف نہیں جانا چاہتا اور اس ضمن میں وِنگ کمانڈر وائیو میکا سنگھ کی پریس بریفنگ دکھائی جس میں بھارتیہ عسکری ترجمان کہہ رہی ہیں کہ بھارت آگے نہیں جانا چاہتا بشرطیکہ پاکستان بھی ایسکلیشن کی طرف نہ جائے۔ اس سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ جس صبح پاکستان کا بھاری حملہ ہندوستان کے متعدد ہوائی اڈوں پر ہوا تھا اُسی دن بھارتیہ ترجمان احتیاط کی بات کررہی تھیں۔
پالکی جی نے یہ بھی بتایا کہ آئی ایم ایف نے لگ بھگ دو بلین ڈالر کی امدادی قسط پاکستان کیلئے منظور کر دی ہے اور بڑے زور دے کر ان دونوں واقعات کو جوڑا کہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف نے امدادی قسط کی منظوری دی اور ترنت ہی پاکستان کی طرف سے بمباروں اور میزائلوں کا حملہ ہو گیا۔ یعنی پاکستان بس قسط کا انتظار کررہا تھا اور پیسے ملتے ہی میزائل داغ دیے۔ مضحکہ خیزی کی یہ حد ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا کہ پاکستان جیسے خطرناک ملک کو یہ امداد دی جا رہی ہے۔ روئٹرز اور دیگر ذرائع کی خبر کی تردید کی کہ سرینگر ایئرپورٹ پر دھماکے ہوئے ہیں۔ اس بات کا انکار کیا کہ اُدھم پور میں ہندوستان کے S-400دفاعی میزائل نظام تباہ ہوا ہے۔ اس بات کی تردید کی کہ کوئی ہندوستانی خاتون پائلٹ پاکستانی کشمیر میں جہاز سے ایجیکٹ ہو کر پاکستان کے ہاتھ آئی ہے۔ بہت ساری اور باتوں کی تردید کی جیسا کہ یہ خبریں کہ ممبئی اور دہلی کا ہوائی راستہ رک گیا ہے اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں اے ٹی ایم مشینوں سے پیسہ نکالنے کی دقت ہو رہی ہے۔ ایسی وضاحتیں تو یہاں کسی نے نہیں دیں کیونکہ نہ ایسی خبریں پھیلائی گئی ہیں‘ نہ کسی تردید کی ضرورت ہے۔ ہاں پالکی جی نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی ٹھکانوں پر حملے ہوئے ہیں اور جن جگہوں کا اُنہوں نے نام لیا اُس میں مرید ایئربیس بھی شامل تھا۔ مرید کے پاس ایک ڈرون ضرور گرا ہے لیکن کسی حملے کی اطلاع نہیں آئی حالانکہ جہاں میں چکوال میں بیٹھا ہوں مرید پر حملہ ہو تو فوراً یہاں خبر پہنچ جائے۔ بہرحال یہ اچھا ہوا کہ اتنے تردید کے عمل میں بہت ساری چیزوں کی تصدیق ہو گئی۔
میرا اپنا خیال ہے کہ جواب در جواب کا عمل پورا ہو گیا۔ اب بات کو آگے بڑھنا نہیں چاہیے۔ ہندوستان نے پاکستان پر حملے کیے اور ہماری طرف سے اُنہیں ٹھیک جواب مل گیا۔ اب وِنگ کمانڈر وائیو میکا سنگھ کی بات مان لی جائے کہ ایسکلیشن کی طرف نہیں جانا چاہیے تو بہتر ہوگا۔ میزائلوں ‘ ڈرونوں اور اور لڑاکا طیاروں تک یہ بات رہے تو اچھا ہے نہیں تو دونوں ممالک کے پاس زیادہ خطرناک ہتھیار بھی موجود ہیں۔ خدا نہ کرے کہ نوبت وہاں تک پہنچے۔ کیونکہ وہاں تک بات گئی تو پیچھے کچھ نہ رہے گا۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو نے پاکستان آرمی چیف سے بات کی ہے اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے بھی۔ ضرورت اِس امرکی ہے کہ کوئی بیچ میں پڑے اور دونوں ممالک کویہاں سے آگے جانے سے روکے۔ چین نے بھی دونوں ممالک سے کہا ہے کہ احتیاط برتیں۔ ثالثی کا کردار کسی کو زیادہ زور دے کر کرنا چاہیے نہیں تو کہیں سے بھی غلط فیصلہ ہو سکتا ہے اور پھر تباہی کے امکان لامحدود ہو جاتے ہیں۔
پاکستانی ہونے کے ناتے نہیں کہہ رہا لیکن جیسے نظر آتا ہے ہندوستان کی بات بنی نہیں۔ پاکستان دبا نہیں اور ہندوستانی حملوں کا جواب مؤثر طریقے سے ادا ہو گیا ہے۔ اب دونوں اطراف رکنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان اب کچھ کرتا ہے تو پاکستان مجبور ہو جائے گا کہ وہ بھی جواب دے اور پھر سب کچھ ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ اُس نہج تک دونوں ممالک کو نہیں پہنچنا چاہیے۔ پہلی پاک بھارت جنگوں میں مسئلہ توپوں اور ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں تک محدود ہوتا تھا۔ جیسا کہ ہم یوکرین میں دیکھ رہے ہیں جنگوں کی نوعیت بدل چکی ہے۔ یوکرین میں ڈرون ٹیکنالوجی پر اکتفا کیا جا رہا ہے‘ پاکستان اور ہندوستان کے پاس تو ایٹمی صلاحیت ہے۔ ایٹمی ٹرگر پر کہیں انگلی لگی تو پھر سوچنا بھی خطرناک لگتا ہے کہ تباہی کیا ہو سکتی ہے۔
ایک بات یہاں پر تعجب کا باعث بنی ہے کہ وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے یہ بات کہی کہ دونوں ملکوں کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر رابطے میں ہیں۔ فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اس بات کی تردید کی۔ وزیر اطلاعات عطاتارڑ نے کچھ جانی نقصان کا ذکر کیا تھا اُس کی بھی تردید جنرل چوہدری نے کی ہے۔ ہمارے حکومتی اہلکاروں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے اور بے پرکی کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ جب سے حالات خراب ہوئے ہیں اتنا تو پتا چل رہا ہے کہ اقتدار اور فیصلہ سازی کے زاویے کہاں موجود ہیں۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر رابطے میں ہوتے تو اچھی بات تھی‘ کوئی تو چینل پاکستان اور ہندوستان میں کھلا ہوتا۔ لیکن یہاں مسئلہ ہی یہ ہے کہ کوئی چینل کھلا نہیں اور اِسی لیے غلطی کا احتمال زیادہ ہوسکتا ہے۔ اس امر سے یہ بات مزید ضروری ہو جاتی ہے کہ کہیں سے ثالثی کا کردار ادا کیا جائے۔ ثالثی اس لحاظ سے نہیں کہ مسائل حل کیے جائیں‘ ایسا کرنے کا وقت نہیں آیا۔ لیکن کوئی چینل تو ہو جس کے ذریعے پاکستان اور ہندوستا ن میں رابطہ ہوسکے۔ سب سے بہتر انداز میں یہ کردار امریکہ ہی ادا کرسکتا ہے حالانکہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے کوئی پوچھے کہ انہوں نے کیا فرما دیا کہ پاکستان ہندوستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو یہ ہمارا بزنس نہ ہو گا۔ صدر ٹرمپ نے البتہ بہتر کہا کہ ہمارے تعلقات دونوں ممالک سے اچھے ہیں اور ہم بہتری کیلئے کچھ کر سکتے ہیں تو اُس کیلئے ہم تیار ہوں گے۔ امریکہ کو اب بیچ میں تھوڑے زیادہ زور سے پڑنا چاہیے۔ قومی عزت‘ وقار اور ناموس کیلئے جو دونوں ملکوں نے کرنا تھا وہ کر دیا۔ ہندوستان نے مولانا مسعود اظہر کے گھر اور مدرسے اور مرید کے پر میزائل داغے۔ ہم نے اُن کے فوجی ہوائی اڈوں پر حملہ کرکے حساب معہ سود چکا دیا۔ اب مزید اقدامات سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔
ان جھڑپوں سے ہندوستان کو اتنا احساس تو ہو گیا ہوگا کہ دریاؤں کے پانیوں کے ساتھ کھیلنا اتنا آسان کام نہیں ہوگا۔ چھوٹی سی باتوں پر اِتنا کچھ ہو گیا ہے تو کسی قسم کی آبی جارحیت کی جائے تو سوچا جاسکتا ہے کہ اُس کا ردِعمل کیا ہوگا۔ پاکستان کو بھی اپنے آبی ذخائر کا زیادہ احساس ہونا چاہیے۔ یہ جو چولستان کی نہروں کے بارے میں سوچا جا رہا تھا ایسے ڈراموں سے دور رہنا بہتر ہے۔ ملک کے وسیع تر تناظر کو بھی اب دیکھنے کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved