عرب کی ایک خاتون کے پاس عبداللہ نامی غلام تھا جو کاہل اور سست الوجود تھا۔ اسے کوئی کام کہا جاتا تووہ بڑبڑاتے ہوئے کسی اور طرف چل پڑتا۔ جاڑے کے دنوں میں ایک روز اس کی مالکن نے حکم دیا کہ فلاں نانبائی کی دکان سے آگ لے آئے۔ عبداللہ نے حسبِ عادت بڑبڑاتے ہوئے آگ لانے کے لیے برتن اٹھایا اور گھر سے باہر نکل گیا اور دیکھا کہ شام جانے کے لیے ایک قافلہ بستی سے گزر رہا ہے، نجانے دل میں کیا سمائی کہ قافلے کے ساتھ چل پڑا۔ قافلے والوں کی خیرات پر گزارا کرتے ہوئے شام پہنچا اورتجارت شروع کر دی۔ اس میں ناکامی ہوئی تو ایک تاجر کے ہاں ملازمت کر لی، وہاں سے بھی اپنی کاہلی اور نافرمانی کی وجہ سے نکالا گیا تو ایک صراف کا نوکر ہو گیا، آقا نے محنت کا مطالبہ کیا تو فقیروں کے ایک گروہ کے ساتھ چل پڑا۔ یہاں بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کہ لوگ ایک تندرست شخص کو بھیک مانگتا دیکھتے تو کچھ دینے کے بجائے شرم دلاتے۔ شام میں آئے اسے تین سال گزر چکے تھے، اس دوران تجارت سے لے کر بھیک مانگنے تک ہر معاملے میں اسے ناکامی ہی ملی۔ جس طرح اچانک وہ اپنی مالکن کو چھوڑ کر چلا آیا تھا، اسی طرح ایک دن عرب جانے والے قافلے کے ساتھ ہو لیا۔ قافلہ اس کی بستی پہنچا تو اسے خیال آیا کہ اس کی مالکن نے تو اسے آ گ لینے کے لیے بھیجا تھا۔ اس نے بستی میں سے ہی کسی سے آگ لانے کا برتن لیا اور اپنی مالکن کے بتائے ہوئے نانبائی کی دکان سے آگ لے کر دوڑتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ دوڑتے دوڑتے دہلیز سے ٹھوکر لگی تو یوں گرا کہ ہاتھ سے آگ کا برتن پھسلا اور اس کے لائے ہوئے انگارے گھر کے صحن میں پھیل گئے۔ شور سن کر مالکن باہر نکلی تو حیرت سے بولی:’’عبداللہ تم!‘‘۔عبداللہ نے کراہتے ہوئے جواب دیا:’’مالکن، جب بھی جلدی میں کوئی کام کرتا ہوں ٹھوکر لگ جاتی ہے، سچ کہتے ہیں جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے‘‘۔ عبداللہ کی طرح ہماری قومی اور صوبائی حکومتیں اپنے ماضی کی بداعمالیوں کا سارا ملبہ عدلیہ پر ڈالتے ہوئے کراہ رہی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے وقت بہت کم دیا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں نے بڑی سہولت (ڈھٹائی!) سے یہ حقیقت بھلا دی ہے کہ2008ء سے 2013ء تک انہی لوگوں نے ملک کا ایک چلتا ہوا سیاسی نظام برباد کردیا لیکن اس کا متبادل لانے میں کبھی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا۔ مسلم لیگ ن نے پنجاب اور پیپلز پارٹی نے سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے مسلسل غلط بیانی سے کام لیا یہاں تک کہ ان کی حکومتوں کی میعاد پوری ہو گئی۔ قومی اسمبلی میں بلدیاتی الیکشن کے لیے وقت مانگنے کی متفقہ قرارداد پاس کرنے والے تقریباً دو تہائی ارکان تو انہی دو بڑی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ انہیں بلدیات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس قرارداد کی حامی تیسری بڑی جماعت تحریک انصاف نوے دنوں میں بلدیاتی اداروں کے قیام کا دعوٰی کرکے خیبر پختونخوا میں برسرِاقتدار آئی لیکن چھ ماہ بعد بھی یہ کام نہیں کر سکی۔ اب نوبت یہ آ گئی ہے:’’ہر کہ درکان نمک رفت، نمک شُد‘‘ کے مصداق تحریک انصاف کو بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے عدلیہ کا دباؤ غیر ضروری محسوس ہونے لگاہے اور وہ اس قرارداد کو متفقہ بنانے کے لیے دونوں جماعتوں کی مدد کو آ گئی۔ اب یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ان کی پاس کی ہوئی قرارداد کا مقصد بلدیاتی انتخابات کے لیے وقت مانگنا نہیں بلکہ ترقیاتی فنڈز پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ ادارے قائم ہوتے ہی پہلا سوال یہی اٹھے گا کہ دنیا بھر میں چالیس سے ساٹھ فیصد ترقیاتی فنڈز مقامی حکومتیں استعمال کرتی ہیں تو پاکستان میں وفاق اور صوبے وسائل پر قبضہ کیوں کیے ہوئے ہیں؟ بظاہرمقررہ تاریخوں پر بلدیاتی انتخابا ت نہ کرانے کے حق میں جو دلائل دیے جارہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو پچاس کروڑ بیلٹ پیپرز کی ضرورت ہے جن کی چھپائی مختصرمدت میں ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا بلدیاتی انتخابات کے لیے ووٹ کی پرچی صرف پاکستان میں چھپ سکتی ہے؟ اگر حکومت نیک نیتی سے بیلٹ پیپرز کی ضرورت پوری کرنا چاہے تو یہ بآسانی ترکی، برطانیہ اور امریکہ سے چھپ سکتے ہیں۔دوسری دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ جتنی بڑی مقدار میں مقناطیسی سیاہی درکار ہے وہ بھی مختصر مدت میں تیار نہیں ہو سکتی۔ کوئی یہ بات سننے کو تیار نہیں کہ 1970ء سے 2008ء کے قومی انتخابات عام سیاہی کے ساتھ ہوئے تھے۔ ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ قومی انتخابات کے برعکس ہمارے ہاں بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی شکایات بہت کم رہی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بلدیاتی حلقہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس میں لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ ان کا اپنے امیدوار سے رشتہ بھی بڑا مضبوط ہوتا ہے۔ اس لیے بلدیاتی انتخابات کے لیے اگر مقناطیسی سیاہی میسر نہیں ہوتی، تب بھی ان کی شفافیت پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ الیکشن کمیشن کو غور کرنا چاہیے کہ خدانخواستہ اگر کوئی صوبائی یا قومی اسمبلی ٹوٹ جاتی ہے تو دستور کا آرٹیکل 224 صرف ساٹھ دن میں الیکشن کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے کہ وہ ہر وقت الیکشن کے لیے تیار رہے اوراس مقصد کے لیے مقناطیسی سیاہی اور دیگر لوازمات مہیا رکھے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امیدواروں کی تعداد کے حوالے سے بلدیاتی انتخابات عام انتخابات سے بہت بڑی مشق ہیں۔ بے شک یہ بات درست ہے کہ جس علاقے سے قومی اسمبلی کا ایک اورصوبائی اسمبلی کے دو رکن منتخب ہوتے ہیں، اسی علاقے سے بلدیاتی اداروں کے لیے درجنوں لوگ منتخب ہوتے ہیں۔ اس مشکل سے نکلنے کا ایک راستہ تو ہمارے سامنے ہے اور وہ ہے مرحلہ وار انتخابات کا۔ بڑے آرام سے پہلے مرحلے میں چاروں صوبوں کے چنیدہ اضلاع یا ڈویژنز میں انتخابات منعقد کرا کے مناسب وقفوں کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں یہ انتخابی عمل دہرایا جاسکتا ہے۔ تین چار یا پانچ مرحلوں میں انتخابات مکمل کر کے نہ صرف سپریم کورٹ کی حکم عدولی سے بچا جا سکتا ہے بلکہ ہمارے انتظامی ادارے اضافی دباؤ کے بغیر یہ کام انجام دے سکیں گے۔ اس طرح بیک وقت پچاس کروڑ بیلٹ پیپرز کی ضرورت ہوگی نہ مقناطیسی سیاہی کے بائیس لاکھ پیڈز(Pads) کی۔ اگر الیکشن کمیشن یہ ہدف مقررکردے کہ سات دسمبرکو پاکستان کے بیس اضلاع میں انتخابات کرادیے جائیں تو یہ کام بڑی آسانی سے ہو جائے گا۔ ایک دفعہ الیکشن کا آغاز ہوگیا تو پھر مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے لیے الیکشن سے بھاگناممکن نہیں رہے گا اور یہ جماعتیں مجبور ہوجائیں گی کہ دستور کے تحت ملک میں بلدیاتی ادارے قائم کریں۔ رئیس امروہوی نے کہا تھا: تمہیں شکستہ دلوں کا خیال ہی تو نہیں خیال ہو تو کرم کے ہزارہا پہلو اگر واقعی ہماری صوبائی اور مرکزی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے لیے سنجیدہ ہیں تو یہ معاملہ عدالت کے دیے ہوئے شیڈول کے اندر نمٹایا جاسکتا ہے ورنہ کم کوشی، سستی اور بدنیتی کا علاج تو کسی کے پاس بھی نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved