تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     15-05-2025

پاک بھارت معرکہ اور نصرتِ الٰہی

خدا کی مدد کیسے شاملِ حال ہوتی ہے؟ کیا اس کا کوئی قانون اور ضابطہ ہے؟ محض مسلمان ہو نا کیا اس کا استحقاق پیدا کر دیتا ہے؟
پاک بھارت معرکہ آرائی میں آثار یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نصرت سے نوازا۔ برتر حربی قوت کے مقابلے میں اُس نے ہمیں سرخرو کیا۔ عالمِ اسباب میں جب کسی واقعے کی توجیہ ممکن نہیں ہوتی ہے تو یہ الٰہی مداخلت کی دلیل بن جاتی ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اسباب کی دنیا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کائنات میں اس کے مستقل سنن کارفرما ہیں۔ وہ مگر قادرِ مطلق ہے۔ چاہے تو اسباب سے ماورا اپنا فیصلہ نافذ کر دے۔ اسباب سے ماورا یہ فیصلے بھی کیا کسی الٰہی قانون کے تابع ہیں؟ قرآن مجید اس کا جواب اثبات میں دیتا اور نصرتِ الٰہی کے باب میں اپنا قانون بیان کرتا ہے۔
سورہ انفال (آیات: 25 تا 26) میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا جو قانون بیان کیا ہے اس کے تین نکات ہیں۔ ایک یہ کہ آپ صبر اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔ صابرین سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ دوسرا یہ کہ مادی قوت کے اعتبار سے اپنی تیاری مکمل رکھیں۔ خدا کی نصرت کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی حربی قوت دشمن کے مقابلے میں کم از کم نصف ہو۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ایمان کی نعمت مادی قوت کی کمی کو پورا کرتی ہے۔ جو اہلِ ایمان کے بالمقابل ہوتے ہیں وہ اس قوت سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کی مادی برتری کو اللہ تعالیٰ اپنی نصرت سے ختم کر دیتا ہے۔
یہ قانون صحابہ کے لیے بیان ہوا ہے۔ صحابہ کا جہاد الٰہی منصوبے کا حصہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کو بہرحال غالب آنا تھا اور اللہ نے یہ غلبہ صحابہ کی تلواروں سے قائم کرنا تھا۔ یہ بات قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ ہمیں بھی اللہ نے یہ حق دیا ہے کہ ہم ظلم کے خلاف جہادکریں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم بھی ان شرائط پر پورا اترتے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے لیے لازم قرار دیں۔ دفاع کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ دفاعی جنگ ہمارا انتخاب نہیں ہوتی۔ یہ تو مجبوراً لڑنا پڑتی ہے۔ تاہم اس کے لیے لازم ہے کہ ہم کسی ممکنہ معرکے کے لیے تیار رہیں اور جب جنگ مسلط کی جائے تو اسے صبر و استقامت کے ساتھ لڑیں۔
پاکستان اور بھارت کی حالیہ معرکہ آرائی میں پاکستان نے ایک دفاعی جنگ لڑی اور اس میں اللہ کے قانون کی پاسداری کی۔ پاکستان نے جارحیت نہیں کی۔ جارحیت کے مقابلے میں صبر اور استقامت دکھائی۔ جنگ کے دوران میں بھی اخلاقی حدود کا خیال رکھا۔ امکانی خطرے کے پیشِ نظر اپنے دفاع کا اہتمام کیا۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کا مظاہرہ کیا۔ اس کے حضور میں سر جھکایا اور اس سے مددکے لیے درخواست کی۔ اس طرح اس نے اپنا یہ استحقاق ممکن حد تک ثابت کیا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی نصرت میسر آئے۔
آج ہم قومی ریاستوں کے عہد میں زندہ ہیں۔ دنیا کی کسی جنگ کو اس طرح حق و باطل کا معرکہ قرار دینا مشکل ہے جو عہدِ رسالت میں برپا تھا۔ تاہم جو مسلمان آج قومی ریاستوں کے حکمران ہیں انہیں اُن آداب اور احکام کا خیال رکھنا ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بتائے ہیں۔ ان میں جنگ کے آداب بھی شامل ہیں۔ اس کے بدلے میں ان کو بھی اللہ کی مدد میسر آ سکتی ہے۔ اگر ہم ظلم کا ارتکاب کریں‘ جھوٹ بولیں‘ وعدہ خلافی کریں اور اس کے ساتھ یہ امید رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے شاملِ حال ہو گی کیونکہ ہم مسلمان ہیں تو یہ الٰہی ہدایت سے لاعلمی کی دلیل ہو گی۔
ایک مسلمان کے لیے دنیا کا ہر رشتہ‘ یہ والدین کے ساتھ ہو‘ اولاد سے ہو یا وطن اور ملک سے‘ اللہ کی دی ہوئی ہدایت کے تابع ہے۔ بچوں یا وطن کی محبت ناجائز کو جائز نہیں بناتی۔ اللہ کے رسول سیدنا محمدﷺ نے اس باب میں کوئی ابہام نہیں رہنے دیا۔ دین کا ایک عالم کلام کرتے وقت اس بات کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ قومی ریاستوں کے قیام نے نیشنلزم کے جس سیاسی تصور کو فروغ دیا اس نے وطن کو ایک متبادل اخلاقی نظام کی حیثیت دے دی۔ وطن سے غیر مشروط وابستگی خیر و شر کا پیمانہ بن گئی۔ علامہ اقبال نے جب وطن کو ان تازہ خداؤں میں سب سے بڑا قرار دیا تو اس کا سبب یہی تھا۔ اس پس منظر میں ایک مذہبی آدمی کے لیے اس وقت مشکل پیدا ہو جاتی ہے جب وہ اخلاقی اقدار کے تحت کوئی رائے دیتا ہے‘ جو لازم نہیں کہ وطن کے مفاد سے ہم آہنگ ہو۔
بھارت کے مسلمان راہنماؤں کو اسی مخمصے کا سامنا رہتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ان کے لیے مشکل ہے کہ وہ پاکستان جیسے 'مسلم‘ ملک کے بد خواہ ہوں۔ دوسری طرف وہ بھارت کے شہری ہوتے ہوئے اس کی بدخواہی بھی نہیں چاہیں گے۔ اسلام کی تعلیم تو یہی ہے کہ عدل کی بات کی جائے۔ ہم پاکستانیوں سے بھی اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوں۔ قرآن مجید کا واضح حکم ہے کہ کسی قوم کی دشمنی میں بھی ہم عدل کا راستہ نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم تو امتحان سے بچ گئے کہ اس بار پاکستان کا مؤقف برحق تھا۔ مسئلہ بھارت کے مسلمانوں کے لیے تھا کہ وہ بھارت کے لیے اللہ کی نصرت کے طلب گار ہوں یا پاکستان کے لیے؟
اس ضمن میں سب سے متوازن مؤقف جماعت اسلامی ہند کے امیر سعادت اللہ حسینی صاحب کا ہے جنہوں نے دینی تقاضوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا: ''دونوں ممالک غربت و افلاس کے مسائل پر قابو پانے اور اپنے عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لیے کوشاں ہیں اور دونوں ہی نیوکلیائی ممالک ہیں۔ اس صورت حال میں جنگ اور بد امنی کسی کے بھی حق میں نہیں ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان دونوں ملکوں کے غریب عوام کو ہو گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ممالک اور یہاں کی سیاسی و عسکری قیادتیں اب تیزی سے پائیدار امن کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گی۔ سرحدی علاقوں میں رہنے والے عام بھارتی شہریوں کی ہلاکت کی مسلسل خبریں آرہی ہیں۔ بے قصور شہریوں کو لاحق خطرات ہماری فوری توجہ چاہتے ہیں۔ ہم ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان خاندانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تمام ضروری امداد اور تحفظ فراہم کرے۔ سرحد کے اُس پار بھی کئی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ معصوم شہریوں‘ بالخصوص عورتوں اور بچوں کی ہلاکت‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل‘ مذہب‘ زبان‘ قومیت یا طبقے سے ہو‘ انتہائی افسوسناک ہے اور تمام فریقوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہر حال میں بے گناہ انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ دہشت گردی خطے کا سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی قیمتی اور بے قصور جانیں اس کی نذر ہو چکی ہیں اور پاکستان میں بھی دہشت گردی کے لوگ مسلسل شکار ہوتے رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر طرح کے تنگ نظر مفادات سے اوپر اٹھ کر اس اصل مسئلے کے پائیدار حل پر توجہ دی جائے‘‘۔
یہ ایک مسلمان کے شایانِ شان مؤقف ہے اور ہم سب کے لیے قابلِ تقلید۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت سے نوزا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اخلاقی حدود کا ممکن حد تک خیال رکھا۔ آئندہ بھی اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو پیشِ نظر رکھا‘ عدل کیا اور ظلم کے خلاف تلوار اٹھائی تو ان شاء اللہ ہم اس کی تائید کے مستحق ٹھیریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved