امیرجماعت اسلامی سید منور حسن کے تباہ کن بیان پر تمام حکومتی عہدیداروں کی طویل اور پراسرار خاموشی کے بعد‘ آخر کار پاک فوج کے ترجمان کو نوٹس لیتے ہوئے اعلان کرنا پڑاکہ سید منور حسن نے ایک دہشت گرد کو شہید قرار دے کر‘ ہزاروں سپاہیوں اور نہتے شہریوں کی شہادتوں کی توہین کی ہے۔ پاک فوج کی پریس ریلیز میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ منور حسن دہشت گردی کے خلاف جانیں قربان کرنے والے شہدا کے لواحقین اور پاکستانی عوام سے غیرمشروط معافی مانگیں۔ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ مولانا مودودی کے جانشین‘جہاد کے بارے میں انہی کے نظریات کی تضحیک کریں گے۔ جب کشمیر میں پاکستان کی طرف سے غیرسرکاری مسلح مداخلت کی گئی اور فوج کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو ریاست کے اندر مسلح کارروائیوں کے لئے داخل کیا گیا‘ تو مولانا مودودی نے اس فعل کو جہاد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق جہاد کا اعلان صرف حکومت کر سکتی ہے۔ عام شہریوں کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ جب چاہیں کوئی لڑائی چھیڑ کر اسے جہاد کا نام دے دیں۔ آج اگر مولانا کے اس موقف کا جائزہ لیا جائے‘ تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کتنی دور اندیشی سے کام لیاتھا؟ اگر اسی وقت اس اصول پر عمل کر لیا جاتاکہ جہاد کا حکم صرف حکومت دے سکتی ہے‘ تو آج ہم جہاد کی پرائیویٹائزیشن کی اذیت سے دوچار نہ ہوتے۔ مولانا کے اس موقف کی مذہبی بنیاد کوئی بھی ہو لیکن سیاسی اور سٹریٹجک نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ کشمیر میں غیرسرکاری مداخلتوں کا تجربہ‘ وقت کے ساتھ ساتھ جہاد کی پرائیویٹائزیشن کی وجہ بن گیا اور آج ہم اپنی ہی ایجاد کردہ اس مصیبت کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ میں نے ہمیشہ لکھا ہے اور خصوصاً نام نہادافغان جہاد کے دوران تکرار سے لکھا کہ حکومت جن غیرسرکاری مسلح گروہوں کو تربیت دے کر ان سے کام لیتی ہے‘ ایک دن انہی کی بندوقوں کا رخ‘ اپنے بنانے والوں کی طرف ہو جاتا ہے۔ ابھی ہم اس عمل کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ شدت اس وقت آئے گی‘ جب افغان طالبان بھی ہمارے احسانوں کاقرض ‘ گولیوں کی شکل میں چکائیں گے۔ جن دو حضرات نے وطن پر قربان ہونے والوں کی شہادتوں کا مضحکہ اڑایا ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ امریکیوں کے ہاتھوں مرنے والا دہشت گرد ہو یا کتا‘ اسے شہید سمجھا جائے گا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ‘ انہی دونوں لیڈروں کے پیش رو ‘ ڈالر لے کر امریکیوں کے دشمن سوویت یونین کے خلاف لڑتے اور اسے بھی جہاد کہتے تھے۔ تب یہ روسیوں کے ہاتھوں مرنے والوں کو شہید قرار دیا کرتے۔ لیکن امریکیوں کے ہاتھوں مرنے والے روسیوں کو ہلاک تصور کیا کرتے۔ حالانکہ ان کے موجودہ فارمولے کے مطابق جو بھی امریکیوں کے ہاتھوں مارا جائے گا‘ وہ شہید ہو گا۔اگر اسلام کی اس نئی تعبیر کی روشنی میں دیکھا جائے تو امریکیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والا انسان ہو یا جانور‘ وہ شہادت کا رتبہ پاتا ہے اور اسے بھی شہادت کا درجہ ملتا ہے جو بے گناہ اور نہتے مسلمانوں کو بارود میں جھلسا اور وطن کے محافظوں کو خون میں نہلاکرفخر محسوس کرتا ہے۔ شہادت کا نیا سرٹیفکیٹ بانٹنے والے دونوں مذہبی لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات پر فوری ردعمل حکومت کی طرف سے آنا چاہیے تھا۔ بے شک وزیراعظم کبھی کبھی پاکستان کے دورے پر آتے ہیں لیکن ان کے متعدد ڈپٹی تو ملک میں موجود ہیں۔ خاص طور پر ہمارے وزیرداخلہ‘ جو ان دنوں طالبان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے عاجزی اور انکسار کا پیکر بنے ہوئے ہیں‘ وہ تو ان بیانات کا نوٹس لے سکتے تھے۔ یقینی طور پر سلامتی کے متعلقہ اداروں اور اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر محاذوں پر ڈٹے ہوئے سول اور فوجی مجاہدوں کو انتظار رہا ہو گا کہ عوام کی منتخب حکومت‘ ان کی قربانیوں اور شہدا کے پسماندگان کے حوصلے پست کرنے کی اس مذموم کوشش کا نوٹس لے گی۔ جب چار دن گزر گئے‘ تو فوجی ترجمان ہی نے آگے بڑھ کر ان دلخراش بیانوں پر اپناردِعمل ظاہر کیا۔ جنرل ضیاالحق نے امریکیوں کی جنگ لڑنے کے لئے جن لوگوں کو تیار کیا تھا‘ آج وہی اپنی بندوقوں کا رخ پاک فوج اور نہتے عوام کی طرف کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسا ہونا نئی بات نہیں۔ جن لوگوں کو روسیوں کے خلاف امریکی جنگ لڑنے کی ڈیوٹی پر لگایا گیا تھا‘ حالات میں تبدیلی آنے پر ان کے محاذ الگ الگ ہو گئے تھے اورجنگ کا مقصد بھی بدل گیا تھا۔ اس تبدیلی میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن نے شعبہ سیاست کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور پاکستانی طالبان نے میدان جنگ پر توجہ مرکوز کی‘ جو پورے پاکستان میں پھیل چکی ہے۔ یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ سیاسی شعبے کے ذمہ داروں نے اپنا فرض بڑی دوراندیشی کے ساتھ پورا کیا۔ وہ دہشت گرد جن پر تین سال تک ڈرون برستے رہے اور انہیں کسی کی ہمدردی حاصل نہ ہوئی بلکہ ان کے حق میں کلمہ خیر کہنا وطن سے غداری کے مترادف تھا‘ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ڈرون حملوں کو بڑی ترکیب سے بے گناہوں پر ہونے والے حملے قرار دے کر‘ طرح طرح کی کہانیاں گھڑی گئیں۔ طالبان ‘ پاکستان کے اندر بے گناہوں کا جو خون بہاتے اور پاکستانی فوجیوں کو شہید کرتے رہے‘ سیاسی شعبے کی ذمہ داریاں نبھانے والوں نے کبھی ان کی مذمت نہیں کی۔ حیلے بہانوں سے دہشت گردی کی کارروائیوں کو نظرانداز کرتے رہے یا مختلف طریقوں سے ان کے غیرانسانی پہلو کو نظروں سے اوجھل کرنے کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔ گزشتہ چند روز کے دوران ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ ڈرون حملوں کی آڑ میں‘ دہشت گردوں کو بے گناہ ثابت کرنے کی جو زوردار مہم چلائی گئی‘ اس کی وجہ سے عوام شک و شبہے میں مبتلا ہو گئے اور انتہاپسندی کو فروغ دینے پر مامور کئے گئے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر یہ کہانیاں پھیلائیں کہ شمالی وزیرستان میں بے گناہوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور یہ بہیمانہ کارروائیاں امریکہ کر رہا ہے۔ سادہ لوح عوام کو پراپیگنڈے کے زور پر اتنا متاثر کیا گیا کہ ان کی نظروں سے یہ حقیقت بھی اوجھل ہو گئی کہ ڈرون حملے پاکستان کے کسی زیرکنٹرول علاقے پر نہیں ہوتے۔ مجموعی طور پر جتنی ہلاکتیں شمالی وزیرستان میں ہوئیں‘ پاکستان کے اندر بے گناہوں کو اس سے کہیں گنا بڑی تعداد میں شہید کیا گیا۔ یہ پراپیگنڈے کا کمال ہے کہ دہشت گردوں کی وحشیانہ کارروائیوں سے شہید ہونے والے پاکستانیوں کا خیال پس منظر میں چلا گیا اور جو دہشت گرد ڈرونز کا نشانہ بن رہے تھے‘ انہیں مظلوم اور شہید بنا دیا گیا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی جو کہانی پھیلائی گئی‘ اسے سچا ثابت کرنے کے لئے ابھی تک دلدوز کالم اور تبصرے شائع ہو رہے ہیں اور کئی ایک ٹاک شو‘ دہشت گردوں کی مظلومیت ثابت کرنے میں زور صرف کر رہے ہیں۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے‘ اسلام کے نام پر کیا کیا کچھ کر گزرتے ہیں؟ اس کا تجربہ اہل پاکستان برسوں سے کر رہے ہیں۔ کل روسیوں کے ہاتھ سے مرنے والا شہید کہلاتا تھا۔ آج امریکیوں کے ڈرون سے مرنے والے کو شہید بنا دیا گیا۔ جو اسلام کی رو سے اصلی شہادتیں پیش کر رہے ہیں‘ یعنی پاکستان کے عوام‘ ان کے جسموں کو بے رحمی سے بارود میں اڑانے والے ،مظلوم اور شہید قرار دے دیئے گئے۔ میں نے جس بہت بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ وہ تبدیلی ہے‘ ہمارے خلاف جنگ کا پاکستان کے بندوبستی علاقے میں منتقل ہو جانا اور ٹی ٹی پی کے سربراہ کا ٹھکانا تادم تحریر افغانستان میں ہے۔ یہ رہنما صاحب‘ کرزئی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور کرزئی حکومت امریکہ کی پٹھو ہے۔ میں نے جب آٹھ نو سال پہلے امریکی اور پاکستانی طالبان کی اصطلاحیں استعمال کرنا شروع کیں‘ تو مجھ پر پھبتیاں کہی جاتی تھیں۔ آج یہ حقیقت ثابت ہو چکی کہ امریکی طالبان کون ہیں؟ اور پاکستانی طالبان؟ وہ اب کہاں رہ گئے؟ دوسری طرف سیاسی شعبے کی قیادت کرنے والے کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ یہ مشترکہ محاذ ذہنوں پر پہلے ہی اثر انداز ہو چکا ہے۔اب یہ عملی زندگی میں بھی ظاہر ہونا شروع کر دے گا۔ یوں تو ہر دور میں پاکستان کو ایک نیا موڑ کاٹنا پڑا۔ بہرحال آج ہم فیصلہ کن موڑ پر آ گئے ہیں۔پارلیمنٹ انتہاپسندوں سے خائف ہے۔ خوف پھیلانے کے عمل میں شدت کی ایک نئی لہر اٹھائی جائے گی۔ میرا ہمیشہ یقین رہا کہ پاکستان ایک ترقی پسند اور روشن خیال معاشرہ ہے اور سچی بات ہے کہ اب میرا یقین متزلزل ہونے لگا ہے۔انتہاپسند طاقتیں پوری طرح چڑھائی پر ہیں اور تہذیب و تمدن اور روشن خیالی کے حامی پسپا ہوتے نظر آ رہے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کی 90فیصد سیاسی قیادت کے مفادات ملک سے باہر قائم ہو چکے ہیں۔ اپنی دولت وہ پہلے ہی محفوظ کر چکے ہیں۔ جانیں بچانے کا وقت آیا‘ تو وہ اسے ضائع نہیں کریں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved