تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-11-2013

بے توفیق

قرآن کریم میں رقم ہے ’’ ہر گروہ کے لیے ہم نے موت لکھی ہے ‘‘ کیا اس پارٹی کے لیے وہ وقت آپہنچا؟ کسی اور کو نہیں ، یہ فیصلہ خود اسی کو کرنا ہے۔لیس للانسان الاّماسعیٰ لاہور ہائیکورٹ کے سبکدوش جج نے جب وہ بات کہی تو میں ششدر رہ گیا۔میں نے سوچا: ایک لا ابالی ، غیر محتاط اور متعصب آدمی ۔کس قدرنازک ذمہ داری اور کیسا احمقانہ رویّہ ! اس نے کہا تھا۔ دہشت گردی کے کسی ملزم کو میں نے کبھی سزا نہ دی۔ ہر بار تفتیش کرنے والوں سے میں نے کہا کہ ٹھوس ثبوت وہ پیش کریں اور ہر بار میں نے انہیں بری کردیا۔ ایسے آدمی سے تبأدلہ خیال کا جواز ہی کیا ؟ خاص طور پر راہ چلتے ہوئے۔ بات اس وقت کرنی چاہیے جب سننے والا توجہ سے سنے اور جوابی دلائل پر ٹھنڈے دل سے ردّعمل دیاجاسکے۔ قرآن کریم کہتا ہے: علم ،حکمت اور حسن کلام کے ساتھ۔ اگر نہیں تو خاموشی ہی بہتر ہے۔ سیّد منور حسن کے بیان سے پھوٹنے والی بحث سے واضح ہوا کہ مسئلہ کس قدر گمبھیرہے۔کنفیوژن اور سراسر کنفیوژن ، ژولیدہ فکری! چار پانچ برس ہوتے ہیں ،لاہور میں دیو بندی علما کے اجتماع نے خودکش حملوں کی مذمت سے انکار کردیا تھا۔ ملک کے سب سے وقیع انگریزی اخبار نے شہ سرخی کے طور پر یہ اطلاع شائع کی اور جہاں تک میں جانتا ہوں کبھی اس کی تردید نہ کی گئی۔ ٹیلی وژن کے ایک مذاکرے میں یہ حوالہ دیا گیا تو خیر المدارس کے مولانا محمد حنیف جالندھری نے مجھے جھوٹا کہا۔ مناسب جواب ، دے ڈالا اور بھلا دیا۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جن سے کبھی بحث نہ کرنی چاہیے ۔ پندرہ برس ہوتے ہیں ،ان سے ملاقات ہوئی تو فرمایا: والد گرامی بہت بری طرح میری پٹائی کیا کرتے ،میری تربیت کے لیے ، حسن کردار کے لیے ۔اتنی سی بات جو آدمی جانتا نہ ہو کہ مار پیٹ سے اصلاح کبھی نہیں ہوتی،اس کے ساتھ تبادلہ خیال سے حاصل کیا؟ وہی کیا، تبلیغی جماعت کے بانی بھی یہی سمجھتے تھے۔ ان کی خود نوشت کے مؤدب قاری بھی شاید ان سے اتفاق کرتے ہوں۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ اللہ نے جو اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہے فقط ،ایک ہی مکمّل نمونۂ عمل تخلیق کیا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے قرآن کریم ہی کافی ہے ، وہ ایک برباد کردینے والے مغالطے میں مبتلا ہیں۔ دم رخصت سرکار ؐنے ارشاد کیا تھا : قرآن اور سنت …اللہ کا کلام تو فقط قرآن ہی ہے جس کی حفاظت کا ذمّہ خود پرورد گار نے لیا مگر سیرت کی تنویرہی میں وہ سمجھا جاسکتا ہے۔امّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کیسے تھے ؟ فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ ع وہی قرآں، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں، وہی طہٰ سید ابو الاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے کہ کتاب اور پیمبروں کے باب میں امتوں نے ہمیشہ عدم توازن کا مظاہرہ کیا۔ کبھی کتاب کو سب کچھ سمجھ لیا کبھی پیمبر کو۔ توازن درکار ہے، توازن ۔عالی مرتبت ؐنے ارشاد کیا تھا: میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنالینا ۔مگر یہ بھی آپ ہی کا فرمان ہے کہ ’’ دینے والا وہ ہے اور بانٹنے والا میں ہوں‘‘۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے کہا گیا کہ ختم المرسلین ؐکے وصال نے جن حالات کو جنم دیا، اس میں لشکرِ اسامہ کو روک لینا ہی موزوں ہوگا ۔وہ جانتے تھے ،وہ زیادہ جانتے تھے ۔روانگی کا حکم دیا اور یہ کہا : اگر مجھے علم ہو کہ پرندے مجھے نوچ کھائیں گے تو اس کے باوجود میں سرکار ؐکا حکم منسوخ نہ کروں گا۔ ایسے جلال میں ،جیسا اس سے پہلے دیکھا گیا اور نہ بعد میں،منکرین زکوٰۃ کے خلاف لشکر کشی کا حکم صاد رکیا۔مسلمان ہی نہیں غیر مسلموں کی طرف سے بھی سیدنا عمر فاروق اعظم ؓکو خراج تحسین بہت پیش کیا جاتا ہے اور بجاطور پر ۔ نگاہ انصاف مگر یہ کہتی ہے کہ اگر سیّدنا صدیق اکبرؓ بنیادمستحکم نہ کردیتے توعہد فاروقی کا شوکت و جلال بھی طلوع نہ ہوتا ۔ وہ زمانہ جب سوشل سیکورٹی ،سمیت 26 اجتماعی ادارے وجود میں آئے۔ تیرہ سو برس کے بعد مغرب نے سوشل سیکورٹی کے ان تصورات کو متشکل کیا؛چنانچہ اسے عمرلاء بھی کہا جاتا ہے۔ سرکار ؐپہ نظر تھی ان کی ،سرکار ؐکے طرز عمل پہ۔ کوئی پھول بن گیا ہے، کوئی چاند، کوئی تارا جو چراغ بجھ گئے ہیں ، تیری انجمن میں جل کے بحث وہ خوب کیا کرتے اور سج دھج سے ، آزادی اور خوشی دلی کے ساتھ۔ قرآن کریم کی آیت مگر بیان کردی جاتی یا سرکار ؐ کا فرمان سنا دیا جاتا تو بحث وہیں تھم جاتی، باقی فقط حکمت عملی۔ سیدنا ابوبکرصدیق ؓنے کہا تھا: زکوٰۃ کی ایک رسّی بھی اگر کوئی روکے گا تو معاف نہ کیاجائے گا۔جزیرہ نما ئے عرب کو ،قرار ان کے فیصلے نے عطا کیا، باقی تاریخ ہے۔ قرار داد مقاصد کی منظوری کے بعد سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا تھا: ریاست نے اب کلمہ پڑھ لیا ہے۔ کلمہ پڑھ لینے والی اس ریاست کے خلاف خروج کی کم از کم بارہ شرائط ہیں ،لکھنے کو لکھی جاسکتی ہیں۔ سید منور حسین اس اخبار نویس سے زیادہ جانتے ہیں۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے:سونے والے کو جگایا جاسکتا ہے ، جاگتے کو نہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ طالبان میں ایسے ہیں جو بھارتی روپے پر پلتے ہیں اور اس کے عطا کردہ اسلحے سے لڑتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ لوگ فسادفی الارض کے مرتکب ہیں۔ اس کے باوجود ان کی حمایت وہ کیوں کرتے ہیں؟ تیس برس ہوتے ہیںراولپنڈی سے میں نے انہیں فون کیا کہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر تھے۔ مؤدبانہ یہ عرض کیا: جماعت اسلامی میں وحدت فکر تمام ہوئی۔ لاہور والوں کی رائے مختلف ہے، آپ کی دوسری… فرمایا: میں ردّعمل کا شکار ہوں۔ یعنی رنج اوربرہمی کا ۔ برہم وہ بہت ہوتے ہیں مگر کذب نہیں تراشتے۔ سچ کہا تھا، ردّعمل کا شکار۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی ایسی نظریاتی پارٹی کی قیادت ایسے شخص کوسزاوار نہیں۔ فکری دیانت سے اگر وہ محروم نہیں ،تو انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔ مستقل دہ غصّے میں رہتے ہیں۔ ٹیلی ویژن کا ایک انٹرویو بھی سلیقے سے دے نہیں سکتے۔ ادہام ووساوس کا شکار، اشتعال دلاکر، موقف اگلوانے والے نوجوان اخبار نویسوں کے دام میں وہ الجھ جاتے ہیں۔ انہیں امریکی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ ایجنٹ تو ریاکار ہوتے ہیں۔ اداکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک پیدائشی قادیانی ہے ۔ایک روز اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ قاضی حسین احمد کی خدمت میں وہ حاضر ہوا تھا اور بار بار کلمہ پڑھتا تھا۔ جماعت اسلامی کے جوابی ردّعمل میں سید منور حسن کے موقف کو اپنایا نہیں گیا… یہ کہا گیا کہ فوج کو سیاست میں دخل نہ دینا چاہیے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے مقتول نگہبانوں کو شہید نہ ماننا اور حکیم اللہ محسود کو شہید کہنا کیا سیاسی مسئلہ ہے؟ ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ منشیات، اغوا برائے تاوان، کیا وہ علماء ہیں؟قطعاً نہیں۔ کیا ان کی قیادت صاحبان علم کے ہاتھ میں ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیا وہ اپنی زندگیاں شرعی ترجیحات کے مطابق بسر کرتے ہیں؟سید صاحب تحقیق فرمائیں تو ششدرہ رہ جائیں۔تحقیق مگر نہ فرمائیں گے۔غصے میں ہوتے ہیں۔ الجھانے والا المیہ ایک اور بھی ہے۔ بدقسمتی سے طالبان کی مخالفت کرنے والوں میں اکثر امریکی استعمار کے نیازمند ہیں یا خوفزدہ لوگ۔اگر دل سے کوئی تلاش حق کا آرزو مند ہو تو رہنمائی کیلئے اللہ کی کتاب موجود ہے اور اس کے سچے رسولؐ کے اقوال بھی۔سیّد صاحب پسند کریں تو استخارہ بھی کرسکتے ہیں۔فرمایا: استخارہ کرنے والا کبھی خسارے سے دوچار نہ ہوگا۔ اللہ کا فرمان تو یہ ہے کہ کسی گروہ کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے ۔منور حسن اور کئی دوسرے مذہبی رہنمائوں کا طرز عمل برعکس ہے۔بے سبب نہیں کہ مُلّا کے بارے میں اقبال کے250 اشعار میں ،سب کے سب اس کے خلاف ہیں، اس ایک شعر کے سوا جو افغان علماء کے بارے میں کہا گیا ع افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج مُلّا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو اہم ترین شاید وہ ہے: خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق جماعت اسلامی شاید اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران میں داخل ہوچکی۔ قرآن کریم میں رقم ہے ’’ ہر گروہ کے لیے ہم نے موت لکھی ہے ‘‘ کیا اس پارٹی کے لیے وہ وقت آپہنچا؟ کسی اور کو نہیں ، یہ فیصلہ خود اسی کو کرنا ہے۔لیس للانسان الاّماسعیٰ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved