اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کے آخری پارے میں سے ایک سورت ''الغاشیہ‘‘ کے آخر میں اونٹ کا ذکر فرمایا ہے اور انسانوں کو فکر وتدبرکی دعوت دی ہے کہ اس کی تخلیق پر غور و فکر کریں۔ آسمان کی بلندی اور رفعت کو بھی سامنے رکھیں اور اس بات کو بھی تحقیق کا حصہ بنائیں کہ پہاڑوں کو کیسے (زمین پر) گاڑ دیا گیا ہے۔ یاد رہے! اونٹ ایک صحرائی اور پہاڑی جانور ہے۔ اس کا رنگ صحرا سے ملتا جلتا ہے اور اس کی کوہان پہاڑی چوٹیوں سے مشابہت رکھتی ہے۔ کوہان کو عربی میں ''سنام‘‘ کہا جاتا ہے۔ اللہ کے آخری رسول حضور نبی کریمﷺ کی زبان اقدس سے ''سنام‘‘ کا لفظ ایک حدیث مبارک کا حصہ بنا تو تبوک کے غزوہ میں بنا۔ حضورﷺ کے لشکر کی تعداد 30ہزار تھی جبکہ وہ رومی بادشاہ جس کا نام ہرقل تھا‘ تین لاکھ فوج کا سپریم کمانڈر تھا مگر وہ مقابلے پر نہیں آیا۔ حضورﷺ اس لیے لشکر لے کر گئے تھے کیونکہ اس نے حضورﷺ کے سفیر کو شہید کیا تھا۔ تب یہ اقدام جنگ کا اعلان تھا؛ چنانچہ حضورﷺ نے اپنے لشکر کیساتھ ہرقل کے دروازے پر جنگ کی دستک دی۔ آپﷺ وہاں 25 دن ٹھہرے رہے مگر وہ مقابلے پر نہیں آیا۔ اس پر حضورﷺ بھی آگے نہیں بڑھے۔ ہرقل نے عملی طور پر امن کی بھیک اور شکست کا اعتراف کر لیا تھا۔ حضورﷺ نے بھی عملی طور پر اسے تسلیم کر لیا اور آگے بڑھ کر حملہ نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علاقے کی وہ ریاستیں جو ہرقل کے سائے اور عملداری میں جی رہی تھیں‘ انہوں نے ریاست مدینہ کی عملداری میں آنے کی درخواستیں حضورﷺ کی خدمت میں پیش کرنا شروع کر دیں۔ یوں حضورﷺ کی قیادت میں ریاست مدینہ اب ایک سپر پاور کے سامنے ایسی قوت بن کر کھڑی ہو گئی جو سپر پاور سے بھی سپیریئر پاور کا مقام حاصل کر چکی تھی۔ جی ہاں! تبوک کی سرزمین اور عظیم فتح کی فضا میں حضورﷺ نے 30ہزار کے فاتح لشکر اور علاقائی ریاستوں کے وفود اور سربراہان کے سامنے جو ارشاد فرمایا‘ ملاحظہ ہو۔ فرمایا ''اس (دینِ اسلام) کی کوہان کا ذِروہ (بلند ترین مقام) جہاد ہے‘‘ (جامع ترمذی‘ سنن ابن ماجہ‘ مسند احمد۔ صحیح عند للبانی)۔
اونٹ ایک پہاڑی سلسلے کی مانند ہے‘ اس سلسلے کی بلند ترین چوٹی''کوہان‘‘ ہے جبکہ کسی چوٹی کے بلند ترین مقام کو ذِروہ کہا جاتا ہے۔ ہم اپنے ہمالیائی علاقے کو دیکھیں تو ہمالیہ ایک پہاڑی سلسلہ ہے۔ پاکستان اس سلسلے کا اہم ترین ملک ہے۔ چین‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان اور افغانستان وغیرہ سب ہمالیائی ممالک ہیں۔ نیپال وہ ملک ہے جہاں ہمالیہ کی سب سے بلند چوٹی مائونٹ ایورسٹ ہے۔ پاک وطن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہمالیہ کی چھت پاکستان میں ہے۔ سکردو سے کئی بار میں دنیا کی چھت ''دیو سائی‘‘ کے میدان میں گیا ہوں۔ اس دیو سائی کو ہمالیہ ہی نہیں‘ دنیا کی چھت کہا جاتا ہے۔انڈیا نے پاک وطن پر حملہ کیا تو معنوی طور پر آرمی چیف جنرل حافظ سید عاصم منیر اس چھت پر چڑھ گئے۔ ان کے ساتھ پاک فضائیہ کے سربراہ ظہیر احمد بابر سدھو بھی چھت پر چڑھ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کنٹرول لائن پر انڈیا فوج کی پوسٹوں پر پاک فوج کے شیروں نے قبضہ کر لیا۔ اب آسمان کی جانب دیکھا تو وہاں ایک عجب منظر تھا۔ ایئر چیف محترم ظہیر احمد بابر پچھلے چار سالوں میں فضائی جنگ کا ایک منفرد اور عظیم منصوبہ بنا چکے تھے۔ دنیا کی فضائی تاریخ میں یہ بالکل نیا منصوبہ تھا۔ دنیا بھر کی فضائیہ میں فضا سے متعلق تمام عناصر الگ الگ کام کرتے ہیں۔ چین نے بھی خوب مدد کی مگر فضائی جنگ میں تمام عناصر کو آپس میں جوڑ کر لڑائی کا منصوبہ صرف پاک فضائیہ کا کمال ہے۔ اس میں مختلف طرح کے ڈرونز‘ تمام اقسام کے میزائل‘ مختلف طرح کے جنگی ہوائی جہاز‘ تمام اقسام کے ریڈارز، سیٹلائٹس، سائبر ٹیکنالوجی وغیرہ کو آپس میں جوڑ دیا گیا۔ پائلٹ جب اس سسٹم کو اپنے سامنے دیکھتا تھا تو وہ اپنی مہارت کے ساتھ ساتھ شوقِ شہادت اور ٹیکنالوجی کی وسعت و ہمہ گیری کے پیش نظر آسمان کی فضائوں میں اک بادشاہ کی مانند تھا جس کے سامنے دشمن کے جہاز بس کاغذ کی پتنگیں تھیں۔ اللہ اللہ! جنرل عاصم منیر اور ظہیر بابر سدھو اس روشنی اور غلبے میں پاک وطن کو بھارت ہی کے مقابل نہیں‘ دنیا بھر کی افواج میں بہت بلندی پر لے گئے۔ اس قدر بلندی پر کہ باقی ہمالیائی ممالک اپنی نگاہیں اونچی کرکے اس کو دیکھ رہے ہیں۔ ہندوتوا کے تکبر کو پٹتا دیکھ کر سب خوش ہو رہے ہیں۔عربی لغات '' المعانی الجامع‘‘ میں ہے کہ قوم کی سنام(چوٹی) پر وہی پہنچتا ہے جو قوم میں شریف یعنی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جی ہاں! عربی میں شریف کا معنی بلند مرتبہ ہے جبکہ سنام اور ذِروہ سے متعلق ایک حدیث میرے سامنے ہے۔ اللہ کے رسول حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ''اسلام کا ذِروۂ سنام (کوہان کا اشرف ترین مقام) اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ اس مرتبے کو وہی پہنچتا ہے جو قوم میں (جہادی اعتبار) سے افضل ہوتا ہے‘‘ (طبرانی معجم الکبیر)۔ یاد رہے! مذکورہ حدیث کو مشہور محدث حضرت محمد جارُ اللہ الصعدی الصنعانی الیمنی (المتوفیٰ1081ھ) اپنی کتاب ''النوافع العطرۃ‘‘ میں لائے ہیں۔ انہوں نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔ جی ہاں! احادیث اور عربی ڈکشنری کو سامنے رکھیں تو ''سنام‘‘ سے اوپر آسمانی رفعت یعنی افضل مقام ''ذروہ‘‘ کا مقام ہے۔ آج یہ مقام عالم اسلام اور سارے جہان میں پاکستان کو حاصل ہوا ہے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ!
حافظ سید عاصم منیر اس لحاظ سے پاکستان کے پہلے ایسے فیلڈ مارشل ہیں جنہیں پوری پاکستانی قوم نے اس مرتبے تک پہنچایا ہے۔ وزیراعظم نے کابینہ کا اجلاس بلایا۔ اجلاس سے قبل صدرِ پاکستان کو اعتماد میں لیا گیا اور پھر کابینہ کے اتفاق کے ساتھ جناب آرمی چیف سید حافظ عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ آرمی چیف نے اس اعزاز کو قوم کے شہدا‘ غازیان اور اپنی افواج کیساتھ ''بنیانٌ مرصوص‘‘ کا کردار ادا کرنے والے 25کروڑ عوام کے نام کر دیا۔ یعنی یہ اعزاز ہر پاکستانی کا اعزاز ہے۔ اے اہلِ پاکستان! یہ اعزاز میرا اعزاز ہے‘ یہ تیرا اعزاز ہے۔ ہمارے قدم بلند ترین چوٹی پر ہیں تو ہمارے ہاتھ فضائوں میں ہیں جبکہ ہماری نگاہیں ثریا سے اوپر‘ عرش سے اعلیٰ اپنے رب کریم کے کرم پر ٹکٹکی باندھے الحمد الحمد یا رب کریم کے نغمے گا رہی ہیں۔
اہلِ ہندوتوا نے اپنے حملے کا نام ''سندور‘‘ رکھا۔ یہ ایک پائوڈر ہے جو ہلدی‘ چونا‘ سرخ پتھر‘ پھٹکڑی‘ مرکری‘ سیسہ اور زعفران وغیرہ سے بنایا جاتا ہے۔ اس کا رنگ سرخی مائل گلابی ہوتا ہے۔ دیوی دیوتائوں کی مدد کے حصول کے لیے اسے ماتھے؍ مانگ وغیرہ پر لگایا جاتا ہے۔ اس کے زیادہ استعمال سے جلد خارش زدہ ہو سکتی ہے۔ یہ تھا بھارتی آرمی کا ''سندور‘‘۔ اس کے مقابلے میں فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر نے فجر کی نماز پڑھائی‘ امامت کرتے ہوئے ''سورۃ الصف‘‘ کی تلاوت کی۔ حملے کا ماٹو جس آیت سے لیا گیا‘ اس کا ترجمہ یوں ہے: ''بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بنا کر لڑتے ہیں۔ ایسے کہ جیسے سیسہ پلائی دیوار (عمارت) ہو‘‘۔ آرمی چیف نے سلام پھیرا اور پھر جہادی شیروں کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا ''حملے کا ماٹو ''بنیانٌ مرصوص‘‘ ہے۔ پھر سورۃ العادیات کی تیسری آیت کو سامنے رکھتے ہوئے حضور نبی کریمﷺ کی سنت پر عمل کیا اور فجر کے وقت آپریشن ''سندور‘‘ کا جواب دیا۔ زمین پر بری فوج کی صفیں موجود تھیں تو آسمان میں فضائیہ کی ٹیکنالوجیکل صفیں موجود تھیں۔ وہ صفیں جو محترم ظہیر احمد بابر نے بنائی تھیں۔ ایسی صفوں کی اللہ تعالیٰ سورۃ الصافات میں قسم کھاتے ہیں۔ حضورﷺ رہنمائی فرماتے ہیں: '' اپنے رب کے سامنے فرشتوں کی طرح صفیں بنائو کیونکہ وہ صف کو ملا کر اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیتے ہیں‘‘ (صحیح مسلم)۔ جب سارے ہم وطن پاک افواج کے ساتھ ہمدم اور ہمقدم بن گئے‘ اپنے رب کے دامن کو تھام کر ''بنیانٌ مرصوص‘‘ بن گئے تو اللہ کی مدد کے نظارے دیکھنے والے بن گئے۔ اے اللہ کریم! ہماری صفوں میں اتحاد کو اسی طرح قائم دائم رکھنا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved