تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-11-2013

معجزہ

مجھے آنکھوں کا ایک مہلک عارضہ لاحق ہوا۔لاعلاج تھا مگر اللہ نے شفادی۔ہارون الرشید صاحب نے اس پر کئی بار لکھا۔سوچا آج اس واقعے کی تفصیل لکھوں۔ برسوں پرانی بات ہے۔ میں صبح اٹھا تو بظاہر نارمل تھا لیکن بستر سے اترکر جب چلنے کی کوشش کی تو محسوس ہوا کہ چلنے میں کافی مسئلہ ہے۔سرلگتا تھا چکرا رہا ہے۔ پائوں ویسے تو نہیں لڑکھڑا رہے تھے لیکن زمین پر سیدھے نہیں پڑرہے تھے۔پائوں اپنی مرضی کے مالک بن چکے تھے۔عجب بے بسی کی حالت تھی۔ ذہنی کیفیت اور محسوسات سوفیصد نارمل اور معمول کے مطابق تھے،پائوں کہنا نہیں مان رہے تھے ،رکھنا کہیں چاہتا تھا اور جاکہیں اور رہے تھے۔ دیکھنے میں عجب قسم کی دقت ہورہی تھی۔ چیزیں تھوڑی سی دھندلی تھیں مگر گزارا ہورہا تھا۔ اصل مصیبت یہ تھی کہ دیکھنے میں ارتکاز ختم ہوچکا تھا۔ کوئی بھی چیز پوری توجہ اور یکسوئی سے دیکھنا ممکن نہیں رہاتھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ کوئی وقتی گڑبڑ ہے اور ایک آدھ گھنٹے میں ختم ہوجائے گی ،لہٰذا صبح سارے کام معمول کے مطابق کیے اور دفتر روانہ ہوگیا۔ دفتر میں پانچ چھ گھنٹے بیٹھا رہا ،وہاں بھی صورتحال جوں کی توں رہی۔ ڈرائیور سے لے کر ملنے کے لیے آنے والے کسی بھی دوست کو کچھ غیر معمولی نہ لگا۔ گپیں اسی طرح زور و شور سے چلیں، ایک دوسرے کو حسب معمول برا بھلا بھی کہا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نظر میں قوت ارتکاز کی کمی کے باوجود کالم لکھا، گوکہ لکھنے میں کچھ دقت ہوئی مگر نظر کا دھندلا پن کوئی نئی بات نہ تھی۔ ہر ایک دو منٹ لکھنے کے بعد بیس پچیس سیکنڈ تک آنکھیں بند کرنے کا فارمولا گوکہ اس روز پوری طرح کام نہیں کررہا تھا تاہم گزارا ہو رہا تھا۔ شام تک یہی حال رہا۔ میں شاید اسی طرح سوجاتا مگر اسی دوران میرا برادر نسبتی احسان آگیا۔ احسان ایسی چیزوں کے بارے میں بڑا حساس اور علاج کے بارے میں بڑا فکر مند ہوتا ہے لہٰذا مجھے زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے گیا ۔ڈاکٹر نے دو ایک دوائیاں لکھ دیں۔ فارمیسی سے دوائیں لیں اور گھر آگئے ۔علاج شروع کیا تاہم کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اگلے روز علاج جاری رکھا مگر حالات اسی طرح تھے۔ تیسرے روز دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گیا ۔اس نے دوائی کی مقدار ڈبل کردی لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اب تھوڑی پریشانی شروع ہوئی ۔بنیادی مسئلہ چلنے اور ڈرائیونگ کرنے کا تھا۔ باقی راوی تقریباً چَین لکھتا تھا۔ اگلی رات اسلام آبا دسے میری خواہر نسبتی بشریٰ کا فون آیا۔ کافی پریشان تھی ۔کہنے لگی کہ اسلام آباد آجائو ۔ڈاکٹر نثار کو دکھاتے ہیں ۔ اس حالت میں بھی سفر کا سن کر میں خوشی سے تیار ہوگیا۔میری اہلیہ کو فکر لاحق ہوگئی کہ میں اسلام آباد تک اس حالت میں اکیلا کیسے سفر کروں گا؟ میں نے رات کی ڈائیوو میں سیٹ بک کروائی اور اسی رات اسلام آباد روانہ ہوگیا۔ بس اڈے پر بشریٰ مجھے لینے آئی ہوئی تھی۔ وہاں سے سیدھے ڈاکٹر نثار کے پاس چلے گئے۔ ڈاکٹر نثار بشریٰ وغیرہ کا فیملی فرینڈ ہے اور تشخیص کے حوالے سے نہایت غیر معمولی ڈاکٹر ہے۔ اس نے تقریباً ایک گھنٹے تک میرا معائنہ کیا ۔ مکمل معائنہ۔ سرسے پائوں تک۔ پندرہ منٹ تو صرف آنکھوں پر صرف کیے۔ سوالات اور پھر سو الات۔ چھوٹی چھوٹی تفصیلات اور پھر ان تفصیلات کی جزئیات۔ پھر سامنے بیٹھ کر نہایت سکون اور یقین سے کہنے لگا کہ یہ سڑوک تھا۔ دماغ کی کوئی رگ کسی جگہ سے معمولی سی پنکچر ہوئی ہے۔ خون نکلا ہے اور کہیں جم گیا ہے۔ اب خون کا یہ بہائو تو ازخود رک چکا ہے مگر جو جم گیا ہے وہ مسئلہ ہے لیکن اب فکر کی زیادہ بات نہیں لیکن اصل مسئلہ آنکھوں کا ہے ، آنکھوں میں کافی خراب ایریا نظر آیا ہے۔ وجوہ کا تو مجھے علم نہیں مگر معاملہ کافی خراب ہے اور فوری طور پر توجہ کا متقاضی ہے۔ پھر ڈاکٹر نثار نے ایک نیورو فزیشن کا بتایا اور ایک آنکھوں کے ڈاکٹر کا بتایا کہ انہیں دکھایاجائے ۔ شام کو طارق مجھے نیورو فزیشن کے پاس لے گیا۔ اس نے معائنہ کیا۔ ایک سیدھی لائن پر چلنے کا کہا۔ میں دماغی طور پر پورا ہوشمند اور حاضر تھا مگر سامنے نظر آنے والی سیدھی لائن پر نہ چل سکا۔ قدرت کا زور اور انسان کی بے بسی۔ اس کا پورا احساس اسی دن ہوا ۔ہوش و حواس قائم ہیں، نظر سیدھی لائن کو دیکھ رہی ہے، پائوں چلنے پر قادر ہیں لیکن میری مرضی کے مطابق نہیں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق قوت ارادی، ارتکاز اور کوشش ، کچھ بھی کام نہیں کررہی تھی۔ ڈاکٹر نے دوائیاں لکھ دیں اور ایم آر آئی کروانے کی ہدایت کی۔اگلے روز صبح ایم آر آئی کا وقت ملا اور سہ پہر کو آنکھوں والے ڈاکٹر کا ٹائم ملا۔ اگلی صبح ایم آر آئی کروائی اور سہ پہر کو آنکھوں والے ڈاکٹر کے پاس چلاگیا۔ ایک لمبے اور کسی حد تک بوریت بھرے ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹرصاحب نے ایک طرف بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد ٹیسٹ کا نتیجہ پرنٹ ہوکر آگیا۔ یہ ایک رنگ دار گراف تھا۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور سرہلایا۔ پھر مجھے مخاطب کرکے کہنے لگا۔ معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ آپ کی آپٹک نروز Optic Nerves یعنی بصری ریشے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ یہ ریشے بصارت کا ترسیلی نظام چلاتے ہیں۔ آپ جو دیکھتے ہیں وہ آپ محض آنکھ سے محسوس کرتے ہیں ۔اس سارے عمل کو دماغ تک پہنچانے کا کام یہ بصری ریشے کرتے ہیں یعنی یہ آپ کی آنکھ سے دیکھے گئے منظر کو دماغ کی سکرین پر منتقل کرتے ہیں جس سے آپ ان چیزوں کو دیکھنے پر قادر ہوتے ہیں۔ یہ ریشے اتنے باریک ہیں کہ عام آنکھ تو کجا عام خوردبین سے بھی نظر نہیں آتے۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ لاکھوں سے مراد دوچار لاکھ نہیں۔ درجنوں ، بیسیوں لاکھ۔ میں یہ ساری باتیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ آپ سارے معاملے کو سمجھ سکیں۔ حالات آپ کے لیے زیادہ ٹھیک نہیں ہیں۔ میں آپ کو ذہنی طور پر تیار کررہا ہوں کہ آپ کا مستقبل میں کن چیزوں سے پالا پڑسکتا ہے اور کیا مسائل پیش آسکتے ہیں۔ فی الوقت میرے پاس آپ کے لیے کوئی بہت اچھی خبر یا حوصلہ افزا بات نہیں ہے مگر قدرت سے کچھ بعید نہیں ہے۔ کل کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ معجزے اسی دنیا میں ہوتے ہیں تاہم میں آپ کو آج کی صورتحال سے آگاہ کررہا ہوں۔ آپ کی بائیں آنکھ کے ریشے (Nerves) تقریباً چالیس فیصد سے زائد Damageہوچکے ہیں اور دائیں آنکھ کا حال بھی کوئی بہت اچھا نہیں۔ یہ پینتیس فیصد کے قریب متاثر ہیں۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ ان ریشوں کے متاثر ہونے کا گراف کافی زیادہ ہے۔ یہ آخری حد کے قریب متاثر ہورہے ہیں ۔اس Damageکا گراف صفر سے ایک تک ہے جسے سواکائیوں میں تقسیم کیاگیاہے۔ ٹوٹ پھوٹ کا حساب ان اکائیوں سے کیا جاتا ہے پہلا درجہ اعشاریہ صفر ایک ہے آخری درجہ اعشاریہ ننانوے ہے۔ میرے بصری ریشوں کے Damageہونے کا درجہ اعشاریہ پچانوے تھا۔ یعنی تقریباً آخری درجہ۔ڈاکٹر نے کہا ، آپ کے کیس میں کئی باتیں غیر معمولی ہیں۔آپ کی دونوں آنکھیں انیس بیس کے فرق سے تقریباً ایک جتنی ہی متاثرہ ہیں۔ بصری ریشوں کی ٹوٹ پھوٹ کا درجہ بہت زیادہ ہے اور آپ کے پاس اپنی آنکھوں کو بچانے کا وقت اس لحاظ سے بہت کم ہے کہ اول تو یہ بڑی تیزی سے خرابی کی طرف رواں ہیں،دوسری بات جو زیادہ پریشان کن ہے وہ یہ کہ آپ کا (IOP) یعنی انٹراوکیولر پریشر (اندرون چشمی دبائو) نارمل ہے بلکہ نارمل کی بھی نچلی سطح پر ہے۔ عموماً یہ ریشے اندرون چشم دبائو بڑھ جانے کے باعث ٹوٹتے ہیں لیکن آپ کے یہ ریشے کم دبائو کے باوجود ٹوٹ رہے ہیں۔ میں دوائی لکھ کر دے رہا ہوں آپ اس دوائی کو باقاعدہ استعمال کریں۔ ناغہ بالکل نہ کریں۔ آپ کو یہ دوا اب اگلی ساری زندگی نہایت تسلسل اور تواتر کے ساتھ استعمال کرنا ہوگی۔ آپ کے پاس مزید لاپروائی کا کوئی وقت نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ مستقبل میں ان آنکھوں کا کیا Status ہے؟ ڈاکٹر نے ایک دو لمحے توقف کیا ،پھر کہنے لگا کہ صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ میرا خیال نہیں کہ ہم اس ٹوٹ پھوٹ کو مکمل طور پر روک سکیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ اس کے خراب ہونے کی رفتار کم کرسکتے ہیں۔ اور کتنی کم ؟ اس کا دارومدار آنکھوں کے جوابی ردعمل پر ہے۔ اگر یہ دوائی اپنا پورا اثر کرتی ہے تو یہ رفتار انتہائی کم ہوسکتی ہے۔ آپ کئی عشروں تک دیکھ سکتے ہیں۔ اگر یہ ٹوٹ پھوٹ یہیں رک گئی تو یہ ایک معجزہ ہوگا۔ میں نے پوچھا ،اگر یہ ٹوٹ پھوٹ اسی رفتار سے جاری رہی تو ؟ ڈاکٹر کہنے لگاپھر آپ اگلے دو تین سال دنیا دیکھ پائیں گے۔ میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ صرف دو تین سال ؟ لیکن یہ ردعمل محض چند لمحوں تک رہا۔ پھر میں نے شکر ادا کیا کہ میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اس دنیا کو پینتالیس سال تک دیکھا ہے ۔ بے شمار لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہیں۔میرے پاس اس کی بنائی ہوئی رنگین دنیا دیکھنے کے لیے بس دو تین سال تھے۔ میں نے مصمم ارادہ کیا کہ یہ دو تین سال صرف اس کی دنیا کو دیکھوں گا۔ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جنہیں یہ وقت بھی نصیب ہوتا ہے؟ اگلی صبح میں Schengen visa (یورپ کے بیشتر ممالک کے لیے ایک ویزے کی سہولت) لینے کے لیے ڈنمارک کے سفارتخانے جا پہنچا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved