آج کل بلدیاتی انتخابات کا بڑا چرچا ہے۔ یہ کوئی حادثاتی امرنہیں ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں زیادہ تر بلدیاتی انتخابات ’’جمہوری‘‘ حکومتوں کی بجائے فوجی آمریتوں کے تحت ہوئے ہیں۔ فوجی آمروں کو اپنی سماجی بنیادیں وسیع اور مضبوط کرنے کے لئے بلدیاتی انتخابات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ایوب خان کی آمریت کے دوران سارا سیاسی نظام ہی صدارتی طرز حکومت پر تشکیل دینے کی کوشش کی گئی۔ وفاقی و صوبائی اسمبلیاں انتہائی کمزور تھیںاور ان کے پاس محدود اختیارات تھے۔صدارتی طریقہ حکمرانی کو چلانے کے لئے امریکی مشیروں کی ہدایات کے مطابق ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کا نظام سب سے پہلے ایوب خان نے متعارف کروایا تھا۔1965ء کے صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح حزب مخالف کی امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی تھیں۔ ان انتخابات میں صدر کا چنائو بنیادی جمہوریت کے 80 ہزار مندوبین کے ذریعے ہوا تھا اور بدترین ریاستی جبر کے ذریعے ایوب خان کو یہ الیکشن جتوایا گیا ۔ حکمران طبقات ریاست کے جبر کے ذریعے زیادہ عرصے تک سماج پر حکمرانی نہیں کر سکتے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بد ترین آمروں کو بھی اپنی آمریتوں کو ’’جمہوری‘‘ رنگ دینا پڑتا ہے۔ یہاں مارشل لاء لگانے والے ہر جرنیل نے شیروانی پہنی اور حکمران طبقات کی روایتی سیاسی پارٹی مسلم لیگ کا نیا دھڑا تراش کے اسے اپنے اقتدار کا غیر فوجی حلیف بنایا۔فن، ادب، فلم،ڈرامہ،صحافت، نصاب تعلیم،مذہبی پیشوائوں سمیت سماج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کم ظرف لوگوں نے ان حاکمیتوں کو سماجی شعور پر مسلط کروایا ۔کسی بڑی عوامی تحریک کی عدم موجودگی میں سیاسی افق پر ابھرنے والے بیشتر مفاد پرست عناصر آمروں کا ساتھ دے کر مالی اور سیاسی فائدے اٹھاتے رہے۔ان میں سے بے شمار آج جمہوریت کے چیمپئن بنے بیٹھے ہیں۔اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور مذہبی بنیاد پرستی کو پاکستانی سماج میں گھولنے کے لئے ضیا الحق نے جہاں ریاستی جبر اورسختی کی انتہا کی ،وہاں بلدیاتی انتخابات کو اپنی آمریت کے ستون کے طور پر استعمال کیا۔پرویز مشرف نے بھی اپنے پیش روئوں کی ’’بلدیاتی روایت‘‘کو زندہ رکھا لیکن ماضی کی نسبت زیادہ پرانتشار دور میں اسے اپنی سویلین بنیاد کو وسعت دینے کے لئے پارلیمانی اداروں کو فعال بنانا پڑا۔تمام سیاسی پارٹیوں نے جمہوریت کی نعرہ بازی اور آمریت کے خلاف جدوجہد کا ڈھونگ رچانے کے باوجود مشرف کے اس پارلیمانی نظام میں بھرپور شرکت کی اور خوب مال بنایا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد موجودہ حکومت کے تحت ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی باتیں ہورہی ہیں تاہم فوری طور پر ان انتخابات کے امکانات مخدوش ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انتظامی حوالے سے معذوری ظاہر کی ہے جبکہ پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان نے صاف کہہ دیا ہے کہ مقررہ مدت کے اندر 40کروڑ بیلٹ پیپر نہیں چھاپے جاسکتے۔یہ سب کچھ مئی 2013ء کے پارلیمانی انتخابات کے پس منظر میں ہورہا ہے جن کے نتائج شکوک و شبہات پر مبنی تھے۔نادرا نے انتخابات کے بعد جس حلقے میں تفتیش کی وہاں بیشتر ووٹ جعلی نکلے ۔جعلی سیاہی کے سکینڈل نے پاکستان میں انتخابی عمل کا رہا سہا بھرم بھی برباد کر دیا ۔ ذرائع ابلاغ پر اس ایشو کا بہت شور اٹھا، مختلف پارٹیوں نے عدالتوں میں مقدمے دائر کئے ۔میڈیا نے بھی اس جمہوری جعل سازی کو جلد ہی دفن کر کے مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جبکہ چند حلقوں کی انتخابی دھاندلی اس ملک میں تمام تر ’’جمہوری عمل‘‘ کے فریب کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی تھی ۔ ’’جمہوری‘‘ ادوار میں بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا کوئی حادثاتی امر نہیں ۔ مالیاتی وسائل اور ’’ترقیاتی فنڈر‘‘ کی شدید قلت کے پیش نظر آپس میں گتھم گتھا ہونے والی سیاسی پارٹیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس لوٹ مار میں مزید حصہ داروں کی شمولیت کو روکا جائے۔ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز کی کمی یا سیاسی رقابتوں کے باعث فنڈز نہ ملنے کا رونا دھونا کرنے والے ایم این اے اور ایم پی اے حضرات بھلا کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کے فنڈز بلدیاتی اداروں کو دے دئیے جائیں؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس معاشی نظام کے بڑھتے ہوئے بحران کے باعث ریاست مسلسل مالیاتی خساروں کا شکار ہونے کی وجہ سے اقتصادی طور پر مفلوج اور دیوالیہ ہو چکی ہے۔آج صحت اور تعلیم جیسے اہم ترین سماجی شعبوں پر حکومتی اخراجات کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے آخری پانچ ممالک میں ہوتا ہے۔ماضی میں سرکاری شعبے سے حکومت کو جو آمدن حاصل ہوتی تھی وہ بھی نجکاری اور بدعنوانی کے باعث کم و بیش ختم ہوچکی ہے۔لہٰذا مسئلہ صوبائی یا قومی اسمبلی کے ممبران یا بلدیاتی نمائندوں کا نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کے بحران کا ہے۔یہاں کے سرمایہ دار جائز طریقوں سے پیداواری صنعت اور زراعت کے ذریعے مطلوبہ شرح منافع حاصل کرہی نہیں سکتے ۔اسی لئے وہ سرکاری بینکوں، اداروں اور ریاستی اثاثوں کو لوٹ لینے کی اندھی اور وحشیانہ دوڑ میں بھاگ رہے ہیں۔دیہی علاقوں میں جاگیرداری کھوکھلی ہو کر ایک نیم مردہ لاش بن چکی ہے۔دیہات میں خاندان، ذات برادریوں اور فرقوں کے الحاق اور نفاق بہت حد تک سرمائے کے رشتوں میں ڈھل چکے ہیں۔ یوں دیہی سیاست میں بھی شہروں کی طرح سرمائے کا کردار فیصلہ کن ہوچکا ہے۔سرمائے کی اس بے ہنگم اور زہریلی سرائیت نے ایک طرف جاگیردارانہ اور دیہی اشتراکیت کے رشتوں کو مجروح اور مسخ کر دیا ہے تو دوسری طرف تیسری دنیا کی لولی لنگڑی سرمایہ داری جدید سرمایہ دارانہ سماجی رشتوں اور ترقی یافتہ انفراسٹرکچر قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تومختلف وقتوں میں اس ملک کے سیاسی ڈھانچے میں ہونے والی چھوٹی بڑی تبدیلیوں کے باوجود سیاست کا کاروباری کردار یکساں رہا ہے۔ اگر بڑے سرمایہ دار اور جاگیر دار سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بڑی سرمایہ کاری کرتے ہیں تو درمیانے طبقے کے کاروباری، آڑھتی اور ساہو کاراپنی حیثیت کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں قسمت آزمائی کرتے نظر آتے ہیں۔یعنی مقصد لوٹ مار اور منافع ہی ہوتا ہے۔ سیاست اور معیشت کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جب ریاست کے پاس وسائل ہی نہ ہوں تو مالیاتی طور پر بانجھ ایسے سماج میں کسی بھی قسم کے سیاسی ڈھانچے سماجی ترقی نہیں دے سکتے۔ بحران کے شکار اس نظام زر کی سیاست بدعنوان ہی رہے گی۔پاکستانی ریاست سے کہیں زیادہ دولتمند چند لٹیرے اپنی لوٹ مار کو قائم رکھنے کے لئے سیاست کو ہی خرید لیتے ہیں۔سیاسی جمود کے ادوار میں یہ عمل سیاست کی ہر سطح پر جاری رہتا ہے۔جب تک سامراجی استحصال اور قرضوں کی بربریت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، جب تک ان حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت اور اثاثوں کو ضبط کر کے محنت کش عوام کی اشتراکی ملکیت میں نہیں لیا جاتا، اس وقت تک اس سماج میں وہ اقتصادی بنیاد یں استوار ہی نہیں ہو سکتیں جن پر حقیقی جمہوریت کا ڈھانچہ تعمیر ہو سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved