تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     13-11-2013

خبردار

آج سے چھ سات سال قبل ایک نئے ٹیلی ویژن چینل کا آغاز ہوا تو ایک نوجوان اینکرپرسن بہت مقبول ہوا۔ اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس نے بہت سے ایسے موضوعات کو چھیڑنا شروع کیا جس پر مدتوں لوگ اس لیے بحث نہیں کرتے تھے کہ اس سے فساد خلق کا خطرہ تھا یا معاشرے میں ہیجان پیدا ہونے کا ڈر تھا‘ لیکن الیکٹرانک میڈیا ایک ایسی چیز ہے جس میں مقبول ہونے اور پھر مقبولیت کو برقرار رکھنے کا خبط بہت کچھ کروا دیتا ہے۔ اس نوجوان مقبول اینکر کے بارے میں اس ٹیلی ویژن کے پروڈیوسر اور دیگر کارکنان ایک فقرہ بولا کرتے تھے کہ’’ریٹنگ کے لیے کچھ بھی کرے گا‘‘ یہ فقرہ میڈیا کی اس بے رحمانہ دوڑ پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ ٹاک شوز کے اینکرز، ان پروگراموں کے پروڈیوسر اور متعلقہ سٹاف دن رات ایک نہ ختم ہونے والی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی راتوں کی نیندیں حرام اور دن کا سکون غارت ہے‘ محض اس لیے کہ کوئی ایسا موضوع ڈھونڈا جائے جس سے اس ملک کے لوگوں میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی جا سکے۔ پروگرام پیش کرنے والے کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ جذباتی صورتحال دیکھ کر لوگ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، ان کے دلوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے یا پھر وہ مستقل بے یقینی کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یوں ایسے موضوعات زیر بحث آنے لگے ہیں جن پر کبھی لوگوں کی دل آزاری کی وجہ سے کوئی زبان نہیں کھولتا تھا۔ ان میں سے ایک موضوع مقامِ شہادت ہے۔ آپ کو اس ملک کے کونے کونے میں شہید نظر آئیں گے۔ افغان بارڈر کے سرحدی شہر چمن میں کئی لوگوں کا پیشہ سمگلنگ ہے۔ یہ بہت خطرناک کام ہے۔ سرحد عبور کرتے ہوئے، اکثر ان لوگوں کا مقابلہ کسٹم، لیویز یا ایف سی سے ہو جاتا ہے اور سمگلر مارے جاتے ہیں۔ چمن اور اس کے گردونواح کے قبرستانوں میں چلے جائیں۔ آپ کو ان سب کی قبروں پر شہید کے کتبے لگے نظر آئیں گے۔ بلوچ اور پشتون قبائل کے درمیان جب لڑائی شروع ہوتی ہے تو دونوں جانب کے ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں۔ دونوں اطراف کے لوگ اپنے اپنے جانبازوں کو شہید کہتے ہیں اور وہاں کوئی یہ بحث نہیں کرتا کہ یہ مقدس لفظ ان خونخوار قبائلی لڑائی میں مارے جانے والوں کے لیے کیسے استعمال کیا گیا۔ ہمارے معاشرے میں مرنے والے کے حامی اور مخالف دونوں جانب سے کوشش یہ کی جاتی ہے کہ خاموش رہا جائے۔ فرقہ وارانہ لڑائی میں جاں بحق ہونے والے ہزاروں افراد‘ خواہ وہ شیعہ ہوں یا سُنی یا کسی دوسرے مسلک کے لوگ‘ سب نے اپنے مرنے والوں کے لیے شہادت کا لقب اختیار کر رکھا ہے۔ لیکن کوئی اس بحث کو نہیں چھیڑتا کہ اس سے فسادِ خلق کا خطرہ ہوتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کا دامن شہیدوں کی قطار سے بھرا ہوا ہے۔ 1974ء میں بلوچستان کے چھ ہزار کے قریب مرنے والے بلوچ اور پشتون شہید تھے اور ان کو اپنی سیاسی انا کی بھینٹ چڑھانے والا بھی شہید۔ لیکن دونوں گروہوں نے کبھی یہ بحث نہیں چھیڑی کہ تم ہمارے قاتلوں کو شہید کیوں کہتے ہو۔ شہادت کا سرٹیفکیٹ ایک ایسا روّیہ ہے جو اس ملک کے گلی محلے میں ہر مفتی، مولوی، صحافی، افسانہ نگار، شاعر، ادیب حتیٰ کہ عا م آدمی بھی بلا روک ٹوک جاری کرتا ہے اور کوئی اس سرٹیفیکیٹ کے جعلی یا اصلی ہونے پر بحث نہیں چھیڑتا کہ فساد خلق کا ڈر ہوتا ہے۔ لیکن میڈیا کی تیز رفتاری اور چابک دستی کا کمال ہے کہ آج اس ملک کا ہر اینکر پرسن اجتہاد اور اِفتاء کے مقام پر فائز محسوس ہوتا ہے۔ ایسا اچانک شروع نہیں ہو گیا۔ کیا یہ کوئی غیر شعوری عمل تھا، کیا یہ سب بے ساختگی تھی؟ میڈیا کے بارے میں دنیا بھر کی کتابیں اور علم اس کی نفی کرتے ہیں۔ میڈیا میں ایک تکنیک استعمال ہوتی ہے جسے (Prompting) کہتے ہیں۔ اس کا ترجمہ ہے (To lead some one to say the desired words) یعنی کسی شخص کو کوئی خاص بات کہنے کی طرف راستہ دکھانا یا اسے اپنی مرضی کی بات کہلوانے پر مجبور کر دینا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک سپاہ صحابہ والے کو بلا کر سوال کیا جائے کہ اچھا تمہارے رہنما تو شہید ہوئے، لیکن وہ جو اس مقابلے میں شیعہ مارے گئے ان کے بارے میں کیا خیال ہے یا پھر یہی سوال کسی شیعہ رہنما سے کیا جائے۔ ظاہر ہے دونوں کے لئے جواب دینا بھی مسئلہ اور خاموشی بھی مسئلہ۔ اس سارے منظرنامے میں سوال کرنے والا اور جواب دینے والا‘ دونوں خواہ وہ مفتی ہوں، عالم ہوں یا دانشور، خود کو (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کے تخت پر بٹھا کر فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی اس معاملے میں ہوا۔ سوال بہت کمال کا ہے: ’’اگر حکیم اللہ محسود شہید ہے تو پھر طالبان کے ساتھ لڑنے والے فوجی اگر مارے جائیں تو وہ کیا ہیں؟ ذرا میرے جیسے عام آدمی کی کفیوژن دور کر دیں‘‘۔ اس پروگرام کے بعد سے میں ایک خوف کا شکار ہوں۔ اس دن سے ڈر رہا ہوں جب یہ عام آدمی، یہ خود کو ایک معمولی اینکر پرسن کہنے والا شخص نواب بگٹی کے بیٹے یا پوتے سے یہ سوال نہ کر دے کہ نواب اکبر بگٹی تو شہید تھے تو کیا ان کے ساتھ غار میں مرنے والے فوجی افسران بھی شہید ہیں؟ یا پھر بزرگ سیاستدان عطااللہ مینگل کو اپنے پروگرام میں مدعو کر کے یہ نہ پوچھ بیٹھے کہ آپ اپنے بیٹے سمیت ان تمام بلوچوں کو شہید کہتے ہو جو مختلف آپریشنوں میں مارے گئے تو پھر میرے جیسے عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سانگاں، بابر کچھ اور گھائی پل میں جو فوجی 1974ء کے آپریشن میں مارے گئے یا پھر جو آج کل فوج کے قافلوں پر حملے ہوتے ہیں، ان میں مارے جانے والے بھی شہید ہیں؟ خود کو عام سا آدمی کہنے والا کہیں اپنی سادہ لوحی میں کراچی میں ایم کیو ایم پر ہونے والے1992ء اور 1995ء کے آپریشن میں مارے جانے والے سکیورٹی فورسز کے افراد کے بارے میں یہ سوال قائد تحریک سے نہ کر بیٹھے۔ کیسا میدان سجے گا، کتنے جاندار ہوں گے وہ پروگرام۔ لیکن شاید ان اینکر پرسنوں، کالم نگاروں، علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کو اس بات کا علم نہیں کہ کسی کو شہید یا جنتی کہنے کا منصب اور مقام صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کا ہے۔ یہ مرتبہ اور مقام کسی اور کو حاصل نہیں۔ سیّدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جن کو جنت کی بشارت دی‘ وہ اللہ کے حکم اور وحی سے دی۔ اللہ سورۃ النجم میں فرماتا ہے کہ ’’وہ نہیں بولتے اپنی خواہش نفس سے بلکہ ان کا کلام ہے جو وحی نازل کی جائے‘‘۔ لیکن ہم ہیں کہ سرٹیفکیٹ دیتے بھی ہیں اور مانگتے بھی ہیں۔ خبردار کہ ہر ایک کا معاملہ روز محشر ضرور کھلے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روز قیامت جن لوگوں کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا، وہ یہ ہیں (1) وہ آدمی جو شہید ہوا، اسے لایا جائے گا، اللہ اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا اور وہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا تو نے کون سا عمل کیا ہے۔ وہ کہے گا: میں نے تیری خاطر لڑائی کی اور شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے‘ تو تو اس لیے لڑا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے اور وہ کہا جا چکا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم ہوگا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (2) وہ آدمی جس نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن مجید پڑھا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کروائیں گے، وہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا، کون سا عمل کر کے آیا ہے؟ وہ کہے گا میں نے تیری خاطر علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن مجید پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا‘ تو جھوٹا ہے، تو نے تو علم اس لیے حاصل کیا تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن مجید پڑھا تا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (3) وہ آدمی جسے اللہ نے رزق میں فراوانی دی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اس کو لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کا تعارف کروائیں گے، وہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا تو کون سا عمل کر کے لایا۔ وہ کہے گا میں نے ہر اس مصرف میں مال خرچ کیا‘ جہاں خرچ کرنا تجھے پسند تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تو جھوٹا ہے، تو نے تو اس لیے کیا تاکہ تجھے سخی کہا جائے اور کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، نسائی)، الحاکم، البہیقی، ابونعیم’’الحیلہ‘‘، الخطیب’’ تقیدالعلم‘‘ مسند احمد)۔ روز حشر اللہ کے عرش سے ہونے والے فیصلے ہم ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں کرتے ہیں یا مسجدوں، مدرسوں، گلیوں، بازاروں اور چائے خانوں میں، ہماری بدنصیبی کی بھی کوئی حد ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved