تحریر : افتخار احمد سندھو تاریخ اشاعت     07-06-2025

قربانی کا بکرا

سب سے پہلے قارئین کو عید قربان کی مبارکباد۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کی قربانی قبول فرمائے۔ بدقسمتی سے ہمارے عوام بے چارے تو ہمیشہ سے قربانی کا بکرا بنے ہوئے ہیں۔ قربانی کا بکرا ایک محاورہ ہے اور جن معنوں میں یہ استعمال ہوتا ہے آج کماحقہٗ پاکستان کے عوام پر فِٹ بیٹھتا ہے۔ قربانی کے جانور عید الاضحی کے مخصوص دنوں میں قربان تو ہوتے ہی ہیں لیکن اس سے پہلے سال بھر بڑے پیمانے پرعوام کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ قربانی کے بکرے فروخت کرنے کیلئے بظاہر بکر منڈیاں لگائی جاتی ہیں لیکن اصل میں وہاں بھی عوام ہی قربان ہوتے ہیں اور انہی کی کھال اتاری جاتی ہے۔ ہر بیوپاری کی خواہش ہوتی ہے کہ ان ایام کے دوران زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ اس غرض سے لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر قصائی حضرات نکال دیتے ہیں اور بکرے کے ساتھ عوام کی بھی کھال اتار لیتے ہیں۔ اس طرح سے عوام کو واقعی قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے۔
روز مرہ زندگی میں عوام کو صبح وشام اور سرعام لوٹا جا رہا ہے‘ بیکریوں والے الگ سے عوام کو لوٹ رہے ہیں‘ ملبوسات کے تاجر اپنے طور پر ان کا خون نچوڑتے ہیں۔ یہاں قدم قدم پر عوام کو قربانی کا بکرا بنا کر ان کا خون کیا جاتا ہے۔ اتنے جانور عید پر قربان نہیں ہوتے جتنا کہ ہر روز عوام کو ذبح کیا جاتا ہے۔ مفلوک الحال عوام کو لوٹنے والے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کے مالک بن گئے اورعوام ان کے سامنے قربانی کے بکرے بن رہے ہیں۔
مفلس جو اگر تن کی قبا بیچ رہا ہے
واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے
دونوں کو ہے درپیش سوال اپنے شکم کا
ایک اپنی خودی‘ ایک خدا بیچ رہا ہے
حکومت بھی عوامی خدمت کے بجائے سینکڑوں ٹیکسوں کی صورت میں عوام کا خون نچوڑ رہی ہے۔ چند روز میں آنے والے بجٹ میں مزید ٹیکس لگیں گے۔ عوام کی ساری کمائی ٹیکسوں کی صورت میں اشرافیہ‘ حکمرانوں اور بیورو کریسی کی عیاشیوں اور ان کے آرام پر خرچ ہو رہی ہے۔ عوام ہیں کہ قربانی کے بکرے بنے ہوئے ہیں اور لوٹ مار کے اس مال سے مالدار لوگ کئی کئی قربانیاں کر رہے ہیں‘ لیکن عام لوگ جن کی کمائی سے یہ سب کچھ انجام پاتا ہے قربانی کے گوشت کے انتظار میں رہتے ہیں۔ بکرے کا گوشت تو بہت دور کی بات ہے‘ بیف اور چکن بھی عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ وہ سال بھر گوشت کھانے کو ترستے رہتے ہیں۔ عید قربان کے موقع پر عوام کو کچھ گوشت مل جائے تو یہ اپنا منہ سلونا کر لیتے ہیں ورنہ عید کے موقع پر بھی یہ خالی پیٹ ہی رہ جاتے ہیں‘ اور اللہ کے نام پر قربانی کاگوشت مہینہ بھر کھانے کیلئے فریز کر لیا جاتا ہے۔
بلاشبہ عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی اسلام کی ایک عبادت ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اس حوالے سے واضح احکامات دیے ہیں لیکن جس طرح پاکستان میں عید الاضحی پر ہوتا ہے اس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔ عوام کو قربانی کا بکرا بنانا کہیں بھی جائز نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک مفاد پرست طبقہ عوام کا استحصال کر رہا ہے اور ہر جگہ ان کا خون نچوڑ رہا ہے۔ یہی طبقہ مذہبی اور فلاحی اداروں کی وساطت سے بھی اور اپنے نجی کاروبار کے ذریعے بھی عام لوگوں کودن رات لوٹ رہا ہے۔
ہماری معاشرتی صورتحال اس بات کی گواہ ہے کہ عبادات کے بڑے پیمانے پر اہتمام کے باوجود انسانیت یعنی حقوق العباد‘ رواداری‘ صلہ رحمی یہاں سے چھو کر بھی نہیں گزرتے۔ لوگوں کو قربانی کا بکرا بنانے کے لیے لوگوں نے چھریاں پکڑ رکھی ہیں۔ لوگوں کی دکانوں‘ زمینوں‘ پلاٹوں اور پلازوں پر ناجائز قبضے کئے جاتے ہیں‘ جھوٹ پر جھوٹ بولا جاتا ہے‘ لوگوں کو جان بوجھ دھوکا دیتے ہیں‘ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ جتنی ہمارے ہاں ہے شاید دنیا میں اور کہیں نہیں ہو گی۔ ہماری زندگی میں کہیں بھی انسانیت‘ خوفِ خدا اور تقویٰ باقی نہیں رہ گیا۔ حرام کے پیسوں سے حلال گوشت تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایک اعلیٰ بیورو کریٹ نے اپنے ایک ماتحت افسر کو حکم دیا کہ میں نے بکرے کی قربانی کرنی ہے‘ میرے لیے کسی اچھے اور صحتمند بکرے کا فوری بندوبست کرو۔ ماتحت افسر نے کہا: جناب مجھے قربانی کا بکرا نہ بنائیں‘ قربانی تو آپ اپنی جیب سے کریں۔ اس پر اعلیٰ افسر بولا کہ تمہیں جن باتوں کا پتا نہ ہو اس معاملے میں نہ بولا کرو۔ ایک افسر نے اپنے ماتحتوں سے پوچھا: میرے لیے قربانی کا بکرا کون بنے گا‘ یعنی قربانی کے بکرے کا بندوبست کون کرے گا؟ سب نے کہا: حضور ہم حاضر ہیں‘ آپ کیلئے قربانی کا بکرا بننے کیلئے تیار ہیں لیکن آپ قربانی حلال پیسوں سے کریں تو بہتر ہوگا۔ ہمیں قربانی کا بکرا نہ بنائیں تو اچھا ہوگا‘ ہم چھوٹے افسروں کو تو حکومت نے پہلے ہی قربانی کا بکرا بنایا ہوا ہے۔
عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کا یہ کام نیا نہیں‘ بلکہ قیام پاکستان سے ہی جاری ہے۔ اس طبقے کے خیال میں شاید پاکستان بنایا ہی اسی اس لیے گیا تھا کہ اشرافیہ‘ حکمران‘ جاگیردار‘ سرمایہ دار اور تاجر عوام کو بے دردی اور بے رحمی سے لوٹتے رہیں۔ عوام کو لوٹنا دراصل ایک فن ہے جو ہماری اشرافیہ نے خوب اچھی طرح سیکھ لیا ہے۔ جو بھی حکمران آتا ہے وہ ملک چلانے کے نام پر اپنی عیاشیوں کیلئے عالمی مالی اداروں سے قرض لیتا ہے اور موج میلہ کرکے چلا جاتا ہے۔ جیسے مرزا اسد اللہ خان غالب نے کہا تھا:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہمارے حکمران ایک لمبے عرصے سے قرض کی مے پی رہے ہیں اور پیئے ہی جا رہے ہیں لیکن ان کی یہ فاقہ مستی رنگ لانے کا نام نہیں لے رہی۔ جب کسی حکمران کا مے کا نشہ اترتا ہے تو قرض اتارنے کیلئے سب سے پہلے عوام سے قربانی مانگی جاتی ہے‘ عالمی ساہوکار اداروں کے ایما پر عوام پر نئے نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں اور ان کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ کبھی قرض اتارو‘ ملک سنوارو کا نعرہ لگا کر عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوایا گیا لیکن بدقسمتی سے قرض اترا نہ ملک سنورا بلکہ قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور قربانی کا بکرا ہمیشہ عوام ہی کو بنایا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عوام ہی قربانی کا بکرا کیوں بنیں؟
عوام کب تک قربانی کے بکرے بنتے رہیں گے اور اس کو بڑی خوشی سے قبول کرتے رہیں گے؟ ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ جب تک عوام قربانی کا بکرا بنتے رہیں گے‘ یہ ظلم وستم جاری رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام خوابِ غفلت سے بیدار ہوں اور اپنے حقوق کیلئے خود جدوجہد کریں۔ قربانی کے بکرے کو اب اپنے گلے سے غلامی کی رسی خود ہی اتارنا ہو گی اور اپنی گردن آزاد کروانا ہو گی۔ عوام کو ان کے حقوق کوئی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دے گا۔ حق کوئی خیرات نہیں ہوتا کہ کسی حکمران سے بھیک کی صورت میں مانگا جائے بلکہ عوام کو اپنا حق چھین کر حاصل کرنا ہو گا۔ اس کیلئے عوام کو ہی جدوجہد کرنا ہو گی۔ شاہ دین ہمایوں نے ٹھیک کہا تھا:
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved