گزشتہ چند ماہ سے پھلوں کی ایسی بہار لگی ہوئی ہے کہ دیکھ کر ہی دل شاد ہو رہا ہے۔ میں پہلے بھی پھلوں کا بہت زیادہ شوقین نہیں تھا اور گزشتہ 13برس سے پھلوں کے معاملے میں ہاتھ مزید کھینچ لیا ہے۔ کبھی کسی پھل کو دیکھ کر کھانے کو دل چاہے بھی تو یہ عاجز اس اشتہا پر قابو پانے کی کوشش کرتا مگر کبھی کبھار دل کی بھی مان لیتا ہے۔ دو ماہ قبل شہتوت کی ایسی فراوانی ہوئی کہ ریڑھیوں کے پاس سے گزرتے ہوئے کئی بار دل کیا اور پھر دل کی مانی۔
شہتوت ختم ہو گئے تو فالسے آ گئے۔ ایسی بہتات کہ ہر تیسری ریڑھی فالسوں کی دکھائی پڑی۔ فالسوں سے برطانیہ میں مقیم ایک دوست اور اس سے بڑھ کر کومل یاد آ گئی جو فالسوں سے جدائی کا ذکر بڑے غمزدہ انداز میں کرتی ہے کہ امریکہ میں کم از کم اُسے اپنے شہر میں تو فالسے کسی صورت دستیاب نہیں ہیں۔ ادھر اس سال بہتات کا یہ عالم ہے کہ تمام تر مہنگائی کے باوجود اس کا ریٹ گزشتہ سال سے کہیں کم ہے۔ ابھی فالسے چل رہے ہیں اور ان سے بڑھ کر اگر کوئی پھل ہر طرف دکھائی دے رہا ہے تو وہ آڑو ہے۔ خدا جانے اس سال اتنا آڑو کہاں سے آ گیا ہے۔ اس فراوانی نے مارکیٹ کے سب سے پرانے ''سپلائی اینڈ ڈیمانڈ‘‘ والے قانون پر پہلے سے پختہ یقین کو مزید مستحکم کر دیا ہے۔ یقین کریں یہ بھی گزشتہ سال سے تقریباً نصف قیمت پر دستیاب ہیں۔ اس پھل کا ریٹ کم ہونے کا کریڈٹ گورنمنٹ لے سکتی ہے اور دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس کی اَنتھک کوششوں اور بھاگ دوڑ کے نتیجے میں آرڑو وغیرہ کا ریٹ کم ہوا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اصل بات وہی ہے کہ اس پھل کی رسد اس کی طلب سے بڑھ گئی ہے‘ نتیجتاً اس کی قیمت گر گئی ہے۔ قیمت کم ہونے سے ایک فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ جو لوگ پہلے اس پھل کو چاہتے ہوئے بھی نہیں خرید سکتے تھے اب بہتر طور پر خریدنے والوں کے زمرے میں آ گئے ہیں۔ ابھی دو چار دن قبل پنجاب کی وزیر اطلاعات نے اطلاع فراہم کی کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی انتھک کوششوں اور شبانہ روز محنت کے نتیجے میں اس سال عید قربان پر سبز مسالا جات از قسم سبز مرچ‘ دھنیا‘ پودینہ‘ پیاز‘ ٹماٹر وغیرہ سستے ہو گئے اور یہ صرف اور صرف پنجاب حکومت کا کمال تھا۔ ایسے دعوے گو کہ نئے نہیں ہیں‘ ماضی میں بھی قدرت کی مہربانیوں کو حکومتوں کے ڈھنڈورچی اپنے اپنے رہنمائوں کے کھاتے میں ڈالتے رہے ہیں۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں اچھے موسم‘ بروقت بارشوں اور قدرت کی مہربانی سے گندم کی بھرپور فصل ہوئی تو ایک خاتون رکن قومی اسمبلی نے ان سارے قدرتی عوامل کا سہرا عمران خان کے سر باندھتے ہوئے‘ بروقت اور بھرپور بارشوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کا کریڈٹ بھی خان صاحب کو دے ڈالا۔ بعد میں جب طوفانی بارشوں کے نتیجے میں سیلاب نے تباہ کن بربادی کی تو موصوفہ نے اس تباہی اور بربادی کے بارے میں تب کوئی انکشاف نہ کیا کہ یہ شدید طوفانی بارشیں کس کی ''برکت‘‘ کی مرہونِ منت ہیں۔
عید قربان پر ہی کیا‘ سبز مرچ‘ دھنیا‘ پودینہ‘ ٹماٹر‘ پیاز اور لہسن وغیرہ کی فصل جب سے بازار میں آئی ہے مسلسل پٹ رہی ہے۔ کاشتکار رو رہا ہے۔ ٹماٹر بیس روپے کلو بازار میں ریڑھیوں اور دکانوں پر فروخت ہو رہا ہے۔ یہی حال پیاز اور لہسن کا ہے۔ پیاز تیس روپے کلو اور لہسن دو سو روپے کلو تک بیچنے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور عالم یہ ہے کہ جتنا بکتا ہے اس سے کہیں زیادہ مزید مارکیٹ میں آ رہا ہے۔ افراط نے قیمت کو ایسا ریورس گیئر لگایا ہے کہ ان چیزوں کی قیمت بڑھنے کا فی الوقت کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ سبزیوں اور سبز مسالا جات کی قیمتیں اس سارے سیزن میں ریکارڈ کم رہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت گندم کے رقبے میں ہونے والی کمی کے نتیجے میں جو زمین گندم کی کاشت میں سے کم ہو ئی تھی‘ اس پر لوگوں نے سبزیاں کاشت کر لیں اور جیسے ہی مارکیٹ میں ان چیزوں کی رسد طلب سے بڑھ گئی‘ قیمتیں نیچے آ گئیں۔ یہ سیدھا سیدھا مارکیٹ میکانزم تھا اس میں سرکاری کاوشوں اور محنتوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ہاں البتہ گندم کے کاشتکار کو معاشی طور پر تباہ کرنے میں ضرور حکومتی کاوشوں اور فیصلوں کا عمل دخل ہے کہ حکومت نے (اس میں مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتیں شامل ہیں‘ تاہم پنجاب حکومت اس معاملے کی سب سے بڑی ذمہ دار ہے کہ سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے صوبہ پنجاب کی بیشتر گندم پنجاب کا محکمہ خوراک خریدتا تھا) نے عین موقع پر جب فصل مارکیٹ میں آ گئی تو گندم کی خرید سے مکمل طور پر ہاتھ کھینچ لیا۔ گندم کی فصل مارکیٹ میں ٹکے ٹوکری ہو گئی۔ کاشتکار برباد ہو گیا۔ اس پر حقیقی صورتحال سے ناآشنا کئی قارئین نے لکھا کہ لوگوں کو سستی گندم مل رہی ہے تو آپ کو کیا تکلیف ہے؟ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ کاشتکار کو جس فصل سے اپنا گھر چلانے کیلئے خرچہ نہ مل سکے اور نفع کے بجائے نقصان ہو تو وہ بھلا ایسی فصل دوبارہ کیوں کاشت کرے گا؟ اگر اگلے سال گندم کے کاشتکار نے گزشتہ سال کے تجربے کے بعد گندم کاشت نہ کی تو نتیجتاً گندم درآمد کرنا پڑے گی اور اس سے نہ صرف اربوں ڈالر کا ملکی زرمبادلہ خرچ ہو گا بلکہ آئندہ گندم بھی بین الاقوامی قیمت پر‘ جو ظاہر ہے بہت زیادہ ہو گی‘ عوام کو مہنگی ملے گی۔ لیکن کم نظر حکمرانوں کو صرف حال سے غرض ہے‘ مستقبل کی منصوبہ بندی ہماری ترجیحات میں ہی نہیں ہیں۔
بات پھلوں کی ہو رہی تھی اور فصلوں پر چلی گئی۔ گزشتہ سال تک ملتان میں چیری گتے کے ڈبوں میں بلوچستان سے آتی تھی۔ چند سال قبل تک ان گتے کے ڈبوں میں آنے والی چیری کا وزن آدھ کلو سے کچھ زیادہ ہوتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ان ڈبوں میں پھل کے نیچے گھاس پھوس رکھ کر چیری کم ہونا شروع ہوئی۔ پھر ڈبہ بھی نسبتاً چھوٹا ہوتا گیا۔ آدھ کلو سے زیادہ چیری والا ڈبہ ڈیڑھ پائو پر آ گیا۔ تاہم قیمت ہر سال بڑھتی رہی۔ یہ پہلا سال ہے کہ اس عاجز نے ملتان میں چیری ڈبوں کے علاوہ بھی ڈھیروں کی صورت میں ریڑھیوں پر بکتی دیکھی ہے۔ کوئٹہ‘ لورالائی اور زیارت کی جانب سے آنے والی یہ کھلی چیری اتنی وافر مقدار میں ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس کھلی چیری کی قیمت پر تو مزیدحیرانی ہوتی ہے۔ ڈیڑھ پائو ڈبے والی چیری کی قیمت میں ایک کلو کھلی چیری عام دستیاب ہے۔ اب اس کارنامے کو بھی پنجاب حکومت کے کھاتے ڈال دیں تو بھلا کون پوچھنے والا ہے؟
پھلوں سے یاد آیا کہ ملتان اور آم لازم وملزوم ہیں۔ ملتان کی گرمی کے ساتھ ہی ملتان کے آم یاد آ جاتے ہیں۔ پاکستان کا کوئی اور شہر اپنے کسی بھی پھل کی وجہ سے مشہور ہو یا نہ ہو مگر تحفہ میں پھل بھیجنے کی جو روایت اور ریکارڈ اہلِ ملتان نے بنا رکھا ہے اسے توڑنا تو رہا ایک طرف‘ کوئی اسے برابر بھی نہیں کر سکتا۔ آم بطور تحفہ بھیجنا اہلیانِ ملتان کی قدیم روایت ہے جو آج بھی قائم ہے۔ تاہم اس سال صورتحال یہ ہے کہ پہلے پھول سے بُور بننے کے عمل میں بہت سے پھول اگلے مرحلے میں نہ پہنچ سکے۔ پھر بُور سے پھل بننے کے دوران معمول سے زیادہ بُور ضائع ہو گیا۔ رہی سہی کسر دو نہایت ہی شدید آندھیوں نے پوری کر دی۔ صورتحال یہ ہے کہ آم کے باغات سے تعلق رکھنے والے دوستوں اور زرعی ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سال آم کی فصل گزشتہ سال کی بھرپور فصل کے مقابلے میں شاید آدھی سے بھی کم ہو۔ ملتان سے دوستوں کو آم بھجوانے والے ایک دوست نے دبے لفظوں میں اس سال آم کی فصل کے خراب حالات کے پیشِ نظر قیاس ظاہر کیا کہ اس سال ممکن ہے ہم اہلیانِ ملتان اپنے دوستوں کو آم نہ بھجوا سکیں۔
اس کالم کو ملتان سے آمدہ آموں کے منتظر لوگ اطلاع سمجھیں اور آم نہ آنے کی صورت میں صبر سے کام لیں۔ جب آم ہی نہیں تو ملتان والوں کی مروت‘ خلوص‘ محبت اور دوست نوازی بھلا کیا کر سکتی ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved