لاہور ہائی کورٹ کے 7 نومبر کے فیصلے کے مطابق پنجاب میں مقامی حکومتوںکے انتخابات اب جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے حکمران جماعت پنجاب میں انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر چاہتی تھی۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس فیصلے سے یہ معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طے پا چکا ہے اور آئندہ کوئی بھی طبقہ یا جماعت غیر جماعتی انتخابات کا نام نہیں لے گی۔ سیاسی اور جمہوری نظام عوام کی شرکت سے بنتے اور فعال ہوتے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی نظام عوام کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شہری بھی سیاسی اور جمہوری نظام سے الگ ہوکر نہیں رہ سکتے۔ درحقیقت ایک اچھا شہری انسانی حقوق، قانون سازی اور جمہوری عمل سے لاتعلق نہیں ہو سکتا۔ جدید انسانی تہذیب کو جن اقدار نے فروغ دیا ہے، ان کے پیچھے بہت سے نظریات کارفرما ہیں۔ یہ نظریات ساکت وجامد نہیں بلکہ متحرک اور فعال ہیں۔ انسانی تہذیب کے ارتقا کے ساتھ ان میں بھی تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔ سیاسی جماعتیں جدید جمہوری نظام کی روح و رواں ہیں۔ وہ عوامی خواہشات کو انتخابی عمل کے ذریعے مینڈیٹ میں تبدیل کرتی ہیں۔ یہ ایسا منظم عمل ہے جس میں معاشرے کی انفرادی جہتیں اجتماعیت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر ہم جمہوری عمل کے ارتقائی دور کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس نظام کے بہت سے حامی افراد نے، جن میں بہت سے نامی گرامی دانشور بھی شامل ہیں، سیاسی جماعتوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سیاسی جماعتیں معاشرے کو کمزور کریں گی۔ ہماری موجودہ سیاسی جماعتیں، چاہے ان کا تعلق دائیں بازو سے ہو یا بائیں بازو سے یا پھر کسی جغرافیائی خطے سے، وہ دراصل ایک خاندان ، جو عام طور پر اس کا بانی خاندان ہوتا ہے، کی جماعتیں بن چکی ہیں۔ ان میں داخلی طور پر جمہوری قدروں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ سچ پوچھیں تو اُنہیں کاروبار ی اداروں کی طرح چلایا جا رہا ہے جو ایک افسوس ناک حقیقت ہے ۔ ایک مفروضہ یہ ہے بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں معاشرے کو تقسیم کرتی ہیں۔ یہ بات اتنی غلط نہیں ہے لیکن اگر سیاسی جماعتیں نہ بھی ہوں تو بھی ایک معاشرے میں مختلف معاملات پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس میں دھڑے بازی کا عمل جاری رہتا ہے اور یہ تقسیم درتقسیم کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ چنانچہ سیاسی جماعتوں پر معاشرے میں اختلافات اور دھڑے بازی پیدا کرنے کا الزام غلط ہے۔ اس کے علاوہ جمہوری عمل کی پختگی کے ساتھ ساتھ اختلاف ِ رائے دھڑے بازی اور سماجی نفرت کی جگہ رواداری اور سیاسی برداشت میں ڈھل جاتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں انفرادی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک فکری جہت پیدا کرتی ہیں۔ اس طرح معاشرہ انفرادی انتشارسے بچ جاتا ہے۔ 1787ء میں امریکی ریپبلک کا ڈھانچہ تشکیل دینے والوں کے ذہن میں سیاسی جماعتوں کے لیے نرم گوشہ موجود نہ تھا۔ وہ ان کو مخالف فرقوں کے تناظر میں دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کا وجود قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر دے گا۔ تاہم جلد ہی وہ، اور باقی دنیا بھی، اس حقیقت کا فہم کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ سیاسی اور جمہوری عمل جماعتوں کے بغیر نامکمل ہے۔ ان کے بغیر انفرادیت اجتماعیت کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی۔ چنانچہ اب دنیا میں غیر جماعتی انتخابات کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ اس ضمن میںپاکستان کے حکمران طبقوں میں ایک طرح کا تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ قومی سطح پر سیاسی عمل میں جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن مقامی حکومتوںکے انتخابات میں ان کا کردارضروری نہیں سمجھتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے وہ عوام کی بہتر طور پر خدمت سرانجام دے رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس منطق، اگر اسے منطق کا نام دیا جا سکے، کے پیچھے عوامی خواہشات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے سوا کوئی محرک کارفرما نہیں ہے۔ اگر مقامی حکومتیں غیر جماعتی ہوں تو منتخب ہونے والے نمائندے صوبے میں حکمران جماعت کے رحم و کرم پر ہوں گے اور عوام کو ان انتخابات کا براہ راست فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ چنانچہ یہ بات خوش آئند ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے بروقت فیصلہ سنا دیا ہے۔ اگر سچ پوچھیں تو ہمیں اپنے کلچر اور سماجی ڈھانچے میں سیاسی جماعتوں کا وجود دکھائی نہیں دیتا۔ دراصل ہم نے انہیں دیگر ممالک سے مستعار لیا ہے۔ اس لیے گاہے بگاہے یہ ہمیں ’’بدیسی ‘‘ دکھائی دیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابات، چاہے قومی سطح کے ہوں یا مقامی، جماعتی بنیادوں پر ہی ہونے چاہئیں۔ دراصل مقامی انتخابات قومی انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کو ’’خام مال ‘‘فراہم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان انتخابات سے عوام تربیت کے مرحلے سے گزر کر قومی سیاست کے رموز و اقدار سیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی حکومتوںکے انتخابات سے اہل اور باصلاحیت افراد کے قومی سطح پر آنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح سیاسی عمل میں جمود پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں انتخابات کو اکثر ’’باری تبدیل ‘‘ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انتخابی عمل میں تازہ خون شامل نہیں ہوتا۔ مقامی حکومتوں کے نمائندوں کے پاس موقع ہوتا ہے کہ وہ اچھے کام کرتے ہوئے عوامی خواہشات پر پورا تریں۔ اس طرح سیاسی جماعتیں اُنہیں صوبائی اور قومی انتخابات کے لیے بھی ٹکٹ دے سکتی ہیں۔ درحقیقت صرف اسی طریقے سے ہی روایتی سیاسی خاندانوں کا سحر توڑا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہی روایتی سیاسی خاندانوںکے ’’قابل ِ انتخاب‘‘ افراد ہی مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لیں، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ عام افراد بھی سیاسی میدان میں قدم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوںکے مخلص کارکن عام طور پر درمیانے طبقے کے افراد ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اُنہیں روایتی طور پر قومی سطح پر ہونے والے انتخابات کے لیے قابل ِ انتخاب نہیں سمجھتیں، اس لیے ان افراد کے پاس ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ مقامی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ جب مقامی طور پر کسی بھی جماعت کو عوام کا سامنا کرنا پڑے گا تو پارٹی کا حکمران خاندان بھی زیادہ معقول رویہ اپنانے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس طرح ہماری جمہوریت میں سے آمریت کے جامد رویوں کی تطہیر شروع ہو جائے گی۔ چنانچہ مقامی حکومتوں کے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات ہی جمہوریت کے لیے بہتر ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved