تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     13-11-2013

ضیاء شہید ، بھٹو قاتل

بھارت اور پاکستان کے آزاد ہونے کے 66 برس بعد آج مہاتما گاندھی کے ملک پر نریندر مودی اور قائداعظم کے ملک پر طالبان کے حامیوں نے قبضہ جما لیا ہے۔ چرچل برطانوی پارلیمنٹ میں چِلّاتا رہا کہ ان غلاموں کو آزادی مت دو، یہ ابھی تیار نہیں ہوئے۔ چرچل کا منہ بند کرانے کے لیے لیبر پارٹی کے وزیراعظم کو کہنا پڑا حضور! ہندوستان کو غلام رکھیں یاپھر برطانیہ کو جنگ عظیم دوم کے بعد ہونے والی تباہی سے نکالیں ۔ ایک ہی کام ہوسکتا تھا۔ انگریز سمجھدار نکلے اور برطانیہ بچانے کا فیصلہ کیا۔ آج ہندوستان اورپاکستان میں کیا ہورہا ہے؟ اگر وہاں جنتا گاندھی کے اقوال بھول کر انتہا پسندی کی طرف چل نکلی ہے تو ہم پاکستانی بھی کسی سے کم نہیں رہے۔ آج پارلیمنٹ میں جا کر اپنے منتخب نمائندوں کی تقریریں سنیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں اور ہمارا کیا بنے گا! شاید طالبان بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ کہیں پاکستانی سیاستدان انہیں امریکہ دشمنی نعرے پر بیروزگار نہ کردیں ۔ قائداعظم کاپاکستان تو ان کی وفات کے بعد ہائی جیک ہوگیا تھا لیکن گاندھی کے ہندوستان کو ہائی جیک ہونے میں کچھ وقت لگا یا پھر کہہ سکتے ہیں کہ گاندھی کا ملک بھی اس وقت ہائی جیک ہوگیا تھا جب انہوں نے پاکستان کو آزادی کے بعد اُس کے حصے کے 72 کروڑ روپے نہ دینے پروزیراعظم نہرو کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی اور ایک ہندو نے انہیں اس جرم پر گولی ماردی۔ پاکستان کی نئی نسل کو علم نہیں کہ گاندھی نے گولی پاکستان کے لیے کھائی تھی۔ ہم سب کو منافق سمجھتے ہیں اس لیے گاندھی جیسے کرداروں کے کچھ اچھے کام بھی ہمیں متاثر نہیں کرتے۔ گاندھی کے بعد نہرو نے پھر بھی ہندوستان کو سنبھال لیا تھا جب کہ ہمارا ملک سول ملٹری بیوروکریسی اور جاگیرداروں نے سنبھال لیا۔ اب دونوں ملکوں کے عوام میں مقابلہ چل پڑا ہے کہ کس نے بہت جلد اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں دینا ہے جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی اور پاکستانی اس معاملے میں ایک ہیں کہ ہندو اگر نریندر مودی کو پسند کرتے ہیں جس نے گاندھی اور قائداعظم کے آبائی شہر گجرات میں مسلمانوں کا خون بہایا تو ہم طالبان کے دیوانے ہیں جنہوں نے ہمارے چالیس پچاس ہزار بے گناہ قتل کر ڈالے اور ہم ان کے حق میں بھنگڑ ے ڈال ڈال کر بے ہوش ہو رہے ہیں اور انہیں شہید کا درجہ دے رہے ہیں۔ ایک چیز کی ہمیں داد دیں ہم پلان بی پر یقین نہیں رکھتے۔ مارو یا مر جائو یا پھر جو اللہ کو منظور۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک سابق جرنیل سے‘ جو کبھی امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں ہونے والے فساد میں ہمارے عظیم قائد تھے اور آج کل اسی امریکہ کے بڑے نقاد ہیں، یہ پوچھ بیٹھا تھا کہ کبھی ہماری فوجی قیادت نے سوچا تھا کہ اگر روس کو افغانستان میں شکست ہوگئی تو دنیا کا نقشہ کیا ہوگا اور ہم مسلمان اس نئی دنیا میں کیسے فٹ ہوں گے؟ بولے یہ کیا بات ہوئی ، ہمارا مقصد روسیوں کو شکست دینا تھا‘ دے دی اور اس مقصد کے لیے ہم نے امریکیوں کو استعمال کیا ۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو استعمال کیا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ خوش کہ ایک دوسرے کو استعمال کیا۔ جس نے بھی استعمال کیا آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ روس کی شکست کے بعد‘ امریکیوں نے دنیا اور پاکستان کا جو حشر کیا اس کا کبھی سوچا بھی نہ گیا ہوگا ۔ اب تاریخ دہرائی جارہی ہے کہ اگر امریکہ افغانستان سے چلا جاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟ اگر نیٹو سپلائی روک دی گئی اور معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر کیا ہوگا؟ سب حیران ہوتے ہیں یہ کیا سوال ہے اور یہ پلان بی کیا ہوتا ہے ؟ سب کہتے ہیں یہ سوال کرنے والا بے غیرت اور بزدل ہے ۔ شیخ رشید نے پیر کو قومی اسمبلی میں افغان غیرت مندوں کی کہانی سنائی تھی کہ کیسے اسامہ کو بچانے کے لیے دس لاکھ افغانی مروائے اور آج تک ان غیرت مندوں کی عورتیں اور بچے سڑکوں پر بیٹھے بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہ ہے وہ غیرت جس کے ہم سب دیوانے ہیں۔ شاید بھٹو نے بھی پلان بی تیار کر کے نہیں رکھا تھا کہ اگر امریکہ دشمنی کا نعرہ کامیاب نہ رہا تو پھر وہ کیا کریں گے ؟ شاید تارا مسیح کے ہاتھوں پھانسی لگنے سے قبل انہیں خیال آیا ہو کہ انہیں امریکہ دشمنی کی طرف دھکا دینے والے اب جنرل ضیاء کی کابینہ میں بیٹھ کر گُل چھرے اڑا رہے تھے۔ وگرنہ بھٹو تو 1971ء میں صدر نکسن سے مل کر آئے تھے اور بروس ریڈل کی نئی تہلکہ خیز کتاب کے بقول وہ امریکیوں کو گوادر پر فوجی اڈوں کی پیشکش بھی کر چکے تھے لیکن تب امریکہ کو اس میں دلچسپی نہ تھی ۔ نکسن کو بھٹو پسند آیا تھا اور انہوں نے موصوف کا انٹرویو کرنے کے بعد آل کلیئر کا پیغام جنرل یحییٰ خان کو بھیج دیا تھا ۔ تاہم دھیرے دھیرے بھٹو کو جوش دلانے کا عمل شروع ہوا تو یہ کام کرنے والے اور کوئی نہیں یہی لوگ تھے۔ بھٹو کا خیال تھا کہ مذہبی لوگوں کی خوشنودی کے لیے انہیں بڑھ چڑھ کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے پتہ چلے کہ وہ کتنے بہادر، غیرت مند اور محب وطن پاکستانی ہیں ۔ بھٹو نے ہی فیصلہ کیا کہ اب ریاست فیصلہ کرے گی کہ عوام کا مذہب کیا ہوگا ۔ انہوں نے ہی شراب، جوئے، گھڑ دوڑ اور جمعہ کی چھٹی کے فیصلے کیے کہ مذہبی پارٹیاں خوش ہوں گی۔ آخر ی کام امریکہ کے ساتھ ٹکر لینا باقی تھا جو انہوں لے لی اور آخر اسی ہنری کسنجر کو‘ جو بھٹو سے صدر نکسن کے انٹرویو میں موجود تھے‘ کہنا پڑ گیا کہ حضور یہ توکچھ زیادہ ہوگیا ہے۔ اتنا تو طے نہیں ہوا تھا۔ امریکہ نے انہی پاکستانی قوتوں کو کرائے پر لیا جنہیں خوش کرنے کے لیے بھٹو کام کر رہے تھے اور انہی مذہبی لوگوں کے چیف‘ جنرل ضیاء نے انہیں پھانسی کے پھندے پر پہنچایا۔ امریکہ کے خلاف سٹینڈ لینے والے بھٹو کو جب پھانسی پر لٹکایا جارہا تھا تو وہی جماعت اسلامی ضیاء کی کابینہ میں حلف اٹھارہی تھی اور عوام مست سو رہے تھے۔ شیخ رشید کے بقول اگر پاکستان میں اینٹی امریکہ ہونا بِکتا ہے تو پھر جب وہ لیڈر اپنوں کے ہاتھوں پھانسی لگتے ہیں تو عوام سامنے کیوں نہیں آتے؟ وہی امریکہ کا دشمن بھٹو ججوں کے سامنے سپریم کورٹ میں چِلّاتا رہا کہ اس نے اسلام کے لیے کیا کیا کارنامے سرانجام دیے تھے تو بھی کسی کو اس پر رحم نہ آیا ۔ بھٹو کہتا رہا کہ سفید ہاتھی اس کا دشمن ہوگیا ہے پھر بھی عوام باہر نہ نکلے اور یہ آج کے ہمارے‘ طالبان کے دیوانے گھروں میں بیٹھے بھٹو کو پھانسی لگتے دیکھتے رہے۔ اگر طالبان امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں تو پھر سب سے بڑا جہاد تو بھٹو کر رہا تھا۔ وہ تو ملک کا وزیراعظم ہوتے ہوئے امریکہ سے لڑ گیا تھا۔ اس کو بچانا تو سب پر فرض تھا ۔ پھر یہ فرض ادا کیوں نہ ہوا ؟ ایک ٹی وی شو پر جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن جنرل ضیاء کو شہید کہہ رہے تھے کہ ان کے بقول اسے امریکہ نے مروایا تھا لیکن بھٹو کو وہ قاتل کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔ تو کیا صلہ ملا بھٹو کو امریکہ کے خلاف نعرہ بلند کرنے کا؟ اسی جماعت اسلامی اور جنرل ضیا نے‘ جو اب شہید کہلاتے ہیں‘ امریکہ کے ساتھ سودا کیا اور افغانستان جنگ میں ہمارے بچے مروائے۔ آج جماعت کہتی ہے کہ طالبان شہید اور ہمارے فوجی نہیں کیونکہ طالبان امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ بھٹو امریکہ سے لڑا تو وہ قاتل، طالبان لڑیں تو وہ شہید۔ پھر اسی بھٹو کی سمجھ دار بیٹی اور داماد زرداری ساری عمر امریکہ کو مناتے رہے کہ انہیں اس ملک اور عوام کی منافقت کی سمجھ آگئی تھی کہ یہاں وہی کرو جو عوام پسند کرتے ہیں جو اب موجودہ لیڈر کر رہے ہیں۔ نعرے امریکہ دشمنی کے مارو لیکن اندر کھاتے جنرل ضیاء اور جماعت اسلامی جیسا کھیل کھیلو۔جس جنرل ضیاء نے اینٹی امریکہ بھٹو کو پھانسی لگایا ، وہ قوم کا شہید ٹھہرا اور اس کے پیروکار غازی اور سپریم کورٹ میں اپنی جان بچانے کے لیے ثبوتوں کے ساتھ اپنے اسلامی کارناموں اور امریکہ دشمنی کی طویل داستان سنانے والا بھٹو قاتل…!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved