ایران پر کیا گیا حالیہ حملہ عسکری نوعیت سے ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ پرانا بین الاقوامی نظام‘ جس میں کسی بھی خود مختار ریاست پر بلا جواز حملہ جرم تصور کیا جاتا تھا‘ اب دم توڑ رہا ہے۔ اس مجرمانہ رویے کا آغاز خود امریکہ نے 2003ء میں عراق پر حملہ کرکے کیا‘ جس کے لیے خطرناک ہتھیاروں کا بہانہ بنایا گیا تھا۔ پیش بندی کا حملہ یعنی Preemptive Strike کی اصطلاح عام ہوئی‘ یعنی جس ملک سے آپ کو خطرہ یا حملے کا اندیشہ ہو‘ اس پر چڑھ دوڑیں اور اس کے لیے اقوام متحدہ سے اجازت لینے کا تکلف بھی ضروری نہیں۔ اسی سوچ کے تحت گزشتہ ماہ بھارت بھی بلا جواز پاکستان پر چڑھ دوڑا تھا اور اس کے لیے پہلگام میں سیاحوں کا قتل محض بہانہ تھا۔ بین الاقوامی قانون اپنا تقدس کھو بیٹھا ہے۔ اب 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ سکہ رائج الوقت بن رہا ہے‘ لیکن دنیا کا نظام ایسے چل نہیں سکتا۔
ایران پر اسرائیلی حملہ بلا جواز ہے۔ اسرائیل کسی بھی صورت ایران کو ایٹمی قوت نہیں بننے دے گا‘ یہ ہمیں معلوم ہے لیکن ایران تو بار ہا کہہ چکا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ ایران امریکہ کے ساتھ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کے پانچ رائونڈ بھی کر چکا ہے لیکن 'خوئے بد را بہانہ بسیار‘ والی بات ہے اور اسرائیل کب سے ایران پر حملے کا تہیہ کیے ہوئے تھا۔ امریکہ نے ہی اسے لمبے عرصے تک روکے رکھا۔ اب امریکہ کی قیادت بدل چکی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اس کی پالیسی بھی بدل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی پہلی ٹرم میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے القدس( یروشلم) شفٹ ہوا تھا اور اب امریکہ کہہ رہا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل اب قابلِ عمل نہیں‘ گویا پورے فلسطین پر ظالم اور سفاک اسرائیل کا تسلط ہوگا۔ فلسطینی عرب اپنی ریاست کہیں اور جا کر بنائیں۔
امریکی قیادت کا کہنا ہے کہ ایران پر حملہ کرنے سے پہلے اسرائیل نے ہم سے مشور ضرور کیا لیکن ہم نے منع کردیا تھا؛ یعنی اسرائیل کا حملہ کرنے کا فیصلہ یکطرفہ تھا‘ مگر زمینی حقائق خاصے مختلف ہیں اور امریکہ کے سفید جھوٹ کی غمازی کر رہے ہیں۔ امریکہ نے حملے سے چند روز قبل خلیجی ممالک میں اپنے سفارتخانوں سے کچھ عملہ واپس بلا لیا تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ اسرائیل کو جنگ سے منع کرے اور وہ اس کے باوجود ایران پر چڑھ دوڑے؟ حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے پہلے رائونڈ میں اسرائیل کی کامیابی کو ستائش کی نظر سے دیکھا اور ساتھ ہی ایران کو دھمکی دی کہ ایٹمی پروگرام پر سمجھوتا کر لو‘ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایران کو کمزور حالت میں دیکھ کر اپنی مرضی کا معاہدہ کرانا چاہتے ہیں۔
اس جنگ میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی حیران کن صلاحیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس حملے کی تیاری مہینوں سے جاری تھی۔ بہت سا حربی سامان ایران سمگل کیا جا چکا تھا۔ اسرائیلی کمانڈوز بھی ایران کے اندر موجود تھے۔ یوں لگتا ہے کہ موساد کا اثر و رسوخ ایران کے احساس اداروں میں قائم ہو چکا ہے‘ بلکہ یہ امربھی بعید از قیاس نہیں کہ اسرائیلی ایجنٹ ایرانی اداروں میں کام کر رہے ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی غیر ملکی تو حساس اداروں میں کام نہیں کر سکتا۔ ایسی صورت میں موساد نے میر جعفر اور میر صادق ایرانی صفوں میں تلاش کر لیے ہوں گے‘ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ ایک دو گھنٹے میں آرمی چیف‘ پاسداران کمانڈر اور متعدد نیو کلیئر سائنسدان شہید کردیے جائیں۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیل نے تہران کے قریب ہی ایک ڈرون بیس قائم کیا‘ تو کیا یہ ایرانی انٹیلی جنس کی بہت بڑی ناکامی نہیں ؟ ہم تو عرصے سے سنتے آ رہے تھے کہ ایرانی خفیہ ایجنسیاں بہت فعال ہیں لیکن وقت آنے پر یہ ریت کا گھروندا ثابت ہوئیں۔ دراصل جب حساس ادارے ریاست کے دفاع کے بجائے حکومت کا دفاع مقدم سمجھیں تو وہ کھوکھلے ہو جاتے ہیں ‘ ایران میں یہی کچھ ہوا ۔ حملے سے چند روز پہلے اسرائیل نے کمال مکاری کے ساتھ ساری دنیا میں یہ تاثر پھیلا دیا کہ اس کی کابینہ میں ایران پر حملے کے حوالے سے شدید اختلافات ہیں اور امریکہ بھی اس جنگ کی سخت مخالفت کر رہا ہے۔ ایران نے اس بیانیے پر یقین کر لیا اور یہ ایرانی فارن سروس اور حساس اداروں کی بڑی ناکامی تھی۔
پاکستان نے اپنے بیان میں ایران کے حقِ دفاع کی کھل کر حمایت کی ہے‘ جو اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 51 تمام ریاستوں کو دیتا ہے۔ بیان میں ایران پر حملے کو بلاجواز اور غیر قانونی جارحیت کہا گیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ سعودی عرب‘ ترکیہ‘متحدہ عرب امارات اورقطر نے بھی بیانات جاری کیے ہیں۔ ترکیہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس اقدام سے خطے میں عدم استحکام آئے گا اور یہ سفارتکاری کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ ترکیہ کا اشارہ امریکہ اور ایران کے مابین جاری مذاکرات کی طرف تھا مگر اس کے باوجود اسرائیل نے جارحیت کو ضروری سمجھا۔ اسرائیل نے اس جنگ کو Operation Rising Lion کا نام دیا ہے؛ یعنی ابھرتا ہوا شیر۔ پچھلے مہینے ایک نام نہاد شیر نے ہمارے مشرق میں دھاڑنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اُسے منہ کی کھانا پڑی؛ البتہ اسرائیل نے پہلے حملے کے اہداف حاصل کر لیے۔ لگتا ہے کہ اسرائیل کی اہمیت خطے میں بڑھ جائے گی اور ایران کا ایٹمی پروگرام کئی سال پیچھے چلا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر کئی پاکستانیوں نے لکھا ہے کہ ہمیں ایران کی کھل کر مدد کرنی چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کھل کر مدد کرنے سے ان کی کیا مراد ہے کیونکہ یہ کوئی روایتی جنگ نہیں ہے۔ ہماری اخلاقی اور سیاسی حمایت ایران کو ضرور حاصل ہے۔ میرا خیال ہے کہ فوری طور پر پاکستان کوسعودی عرب‘ ترکیہ اور انڈونیشیا کے ساتھ مل کر جنگ بندی کی کوشش کرنی چاہیے اور اس سلسلہ میں امریکہ کے ساتھ فوری رابطہ اشد ضروری ہے۔ او آئی سی کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ یہ مؤثر تنظیم نہیں ہے لیکن بہرحال پچاس سے زائد ممالک اس کے ممبر ہیں۔ اگر او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلا کر مسلم ممالک کا مشترکہ مؤقف بیان کردیا جائے تو ایران کو نفسیاتی اور سیاسی تقویت ملے گی۔اگرچہ یہ جنگ ابھی تک ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کی طرف نہیں آئی لیکن اس طرف آ سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ موساد ہماری سرحدوں تک ایکٹو ہو جائے گی۔ اگر جنگ طول پکڑتی ہے اور ایران پاکستان سے کہتا ہے کہ وہ اپنے چند عسکری اثاثے وقتی طور پر پاکستان کے پاس رکھنا چاہتے ہیں تو اس صورت میں ہمارا ردعمل کیا ہوگا؟
جیسے ہی جنگ شروع ہوئی‘ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ ایران اس وقت قدرے کمزور ضرور نظر آتا ہے لیکن اس کے لیے آبنائے ہرمز کو بند کرنا چنداں مشکل نہیں۔ اس صورت میں تیل اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ عالمی معیشت اور تجارت کو شدید دھچکا لگے گا۔ خلیجی ممالک کو اس بات کا ادراک ہے۔
ایران پر حملے کے بعد تہران سے رابطہ کرنے والے اولین ممالک میں سعودی عرب بھی شامل تھا۔ مصر‘ اردن اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں اس لیے ان ممالک کو امن کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ ایران کی حمایت میں پاکستان میں عوامی مظاہرے ہوں تو ہمیں انہیں روکنا نہیں چاہیے۔مڈل ایسٹ کا جیو پولیٹکل نقشہ بدل رہا ہے۔ وہاں عوام میں امریکہ اور اسرائیل مخالف جذبات تقویت پکڑیں گے‘ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ چند خلیجی ممالک اسرائیل کے ساتھ ٹکرائو کا راستہ ترک کردیں۔ ہمیں سوچ سمجھ کر چلنے کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved