تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-06-2025

ایتھے رکھ

میرے کالم کے قارئین کو اب تک بخوبی اندازہ ہو چکا ہوگا کہ شاہ جی بنیادی طور پر ایک شر پسند آدمی ہیں اور اپنی دانائی کے پردے میں اپنی شر پسندی یا اپنی شر پسندی کی آڑ میں اپنی دانائی چھپائے پھرتے ہیں۔ ان کو جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی دونوں خوبیوں کے امتزاج سے کوئی نہ کوئی پھلجھڑی چھوڑ دیتے ہیں۔ گزشتہ تین چار ہفتوں سے وہ ملک سے باہر تھے اس لیے میں ان کے خیالاتِ عالیہ سے مستفیض ہونے سے محروم رہا۔ جب وہ واپس تشریف لائے تو میں برطانیہ جا چکا تھالیکن وٹس ایپ کی خیر ہو جس کے طفیل یہ عاجز شاہ جی کی تمام تر شر پسندیوں سے واقف ہو نے کے باوجود اپنی نائقیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے تمام لاینحل مسائل اور سوالات ان سے پوچھتا رہتا ہے۔ میں نے شاہ جی سے فون پر حکومت کی جانب سے امریکی صدرکو امن کے نوبیل انعام کیلئے نامزد کرنے کے متعلق پوچھا تو شاہ جی پہلے تو دیر تک ہنستے رہے پھر خاموش ہو گئے۔ میں نے دوبارہ سوال کیا تو کہنے لگے‘ یہ جو نوبیل انعام ہے نا یہ بہرحال فارم سینتالیس کی بنیادپر تو ہر گز ہرگز نہیں ملتا‘مزید آگے میں کیا کہنا چاہتا ہوں تم کافی سے زیادہ سمجھدار ہو لہٰذا خالی جگہیں خود پُر کر لو۔ مگر یہ بات طے ہے کہ ہماری اور بہت سی خواہشات کی مانند اس کو بھی رد ہی سمجھو۔
بھارت کو سندھ طاس معاہدہ معطل بلکہ مسترد کیے آج دو ماہ سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ بھارت نے یہ بین الاقوامی طور پر منظور شدہ معاہدہ مورخہ 23اپریل کو یعنی آج سے دوماہ پہلے یکطرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔ اس بے ایمانی اور عالمی سطح کی خلاف ورزی پر یا تو ہماری حکومت کو چاہیے کہ اسے آبی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس معاہدے کے خلاف کیے جانے والے تمام بھارتی اقدامات از قسم پانی روکنا‘ پانی کا رخ موڑنا‘ ان پر ڈیم بنانا وغیرہ پر بالکل اسی طرح حملہ کر دے جس طرح بھارت نے پہلگام واقعے کو دہشت گردی سے جوڑ کر خود ساختہ مدعی اور منصف کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان میں مختلف شہروں میں میزائل حملے کرتے ہوئے جواز پیش کیا کہ دہشت گردی کے مراکز پر حملہ کرنا اور تباہ کرنا اس کا حق ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے لیے مختص دریاؤں کا پانی روکنا ایسی آبی دہشت گردی ہے جس سے کروڑوں افراد کی زندگی وابستہ ہے۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدہ ختم کر دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب کے تین دریاؤں بیاس‘ راوی اور ستلج کے پانی پر اب معاہدے کے تحت بھارت کا نہیں بلکہ پاکستان کا حق ہے اور بھارت کا ان تین دریاؤں کا پانی روکنا اب پانی کے طے شدہ عالمی قوانین کے منافی ہے‘ لیکن حکمرانوں کی غفلت‘ نااہلی اور ریاست کے مفادات سے لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ دو ماہ سے وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے کہ ان کو اس صورتحال سے کس طرح نپٹنا ہے۔ سرکار یہ کہہ کر ایک طرف ہو گئی ہے کہ اسے بھارت کی جانب سے معاہدہ ختم کرنا قبول نہیں۔ بندہ پوچھے کہ اگر پاکستان قبول نہیں کرتا تو کیا کرے گا؟ صرف قبول نہ کرنا تو کسی مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستان نے اب تک کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو قبول نہیں کیا تو اس سے کیا ہو گیا ہے؟ پاکستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بھارتی اقدام قبول نہیں کیا تو اس سے کیا فرق پڑ گیا ہے؟ جب تک کسی زیادتی کے خلاف کوئی عملی قدم نہ اٹھایا جائے اس وقت تک کسی چیز کو رَتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ سوال یہ ہے کہ بھارت نے نہ صرف سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ خبریں یہ ہیں کہ اس نے پاکستان کے حصے کے باقی ماندہ دریاؤں کا پانی روکنے کیلئے بھی عملی اقدامات شروع کر دیے ہیں اور جواب میں پاکستان نے زبانی جمع خرچ‘ بیان بازی اور قبول نہ کرنے کے اعلان کے علاوہ کیا کیا ہے؟
کیا پاکستان نے اب تک کسی بین الاقوامی فورم میں یہ مسئلہ اٹھایا ہے؟ کیا پاکستان نے اس یکطرفہ بھارتی فیصلے کے خلاف کسی متعلقہ فورم پر اپنا احتجاج اور مؤقف تحریری طورپر جمع کروایا ہے؟ کیا حکمرانوں نے ورلڈ بینک کو اس سلسلے میں باضابطہ طور پر آگاہ کیا ہے؟ کیا حکومت پاکستان نے عالمی عدالت کو کوئی خط لکھا ہے؟ میرا خیال ہے درج بالا کوئی ایک کام بھی سرانجام نہیں دیا گیا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ ریاست کا پانی بند کیا جا رہا ہے اور حکومت سو رہی ہے۔ کسی کو مراسلہ لکھنے‘ احتجاج ریکارڈ کرانے اور عالمی اداروں کو باضابطہ طور پر مطلع کرنے کی نہ فرصت ہے اور نہ خیال آیا ہے لیکن امریکی صدر ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کا خیال بھی آیا اور انہوں نے فوراً سے پیشتر اس پر عمل فرماتے ہوئے ایک عدد سفارشی خط برائے نامزدگی لکھ مارا۔ادھر ہمارے حکمرانوں نے اعلیٰ حضرت ڈونلڈ ٹرمپ کی امن کے نوبیل انعام کیلئے نامزدگی بارے خط لکھا اور ادھر چار دن بھی نہ گزرے تھے اور نامزد امیدوار نے ایران پر یکطرفہ حملہ کر دیا۔ میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ قبلہ یہ بتائیں اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کرنا تھا تو اپنے امن کے نوبیل انعام کے سلسلے میں رونا رو کر اس نے ہمیں کیوں اکسایا؟ عقل کے اندھوں کو بھی علم ہے کہ غزہ میں محصور فلسطینیوں پر گزشتہ کئی ماہ سے جو غیر انسانی حالات مسلط ہیں وہ امریکی اشیر باد کے بغیر ممکن نہیں۔ پچپن ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت گو کہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہوئی ہے مگر اس کا سہولت کار امریکہ ہے۔ ایران پر اسرائیلی حملہ بھی امریکی شہ اور مدد کے بغیرممکن نہیں تھا۔ اسرائیل کے ہر ظلم و ستم کی پشت پر امریکہ غیر مشروط طور پر کھڑا ہے۔ ایسے میں امریکی صدر کو امن کے نوبیل پرائز کیلئے کس طرح نامزد کیا جاسکتا ہے؟ اس عمل سے حکمرانوں کی ملک میں جو اوئے توئے ہوئی ہے وہ الگ ہے لیکن ہماری عالمی سطح پر اور نوبیل انعام دینے والوں کی نظر میں جو بھد اُڑی ہے اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں۔شاہ جی کہنے لگے‘ صدر ٹرمپ کی یہ آخری مدتِ صدارت ہے اور وہ اپنے اس دور کو صدر نہیں بادشاہ کی مانند گزارنے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے یوکرین کے صدر کو وائٹ ہاؤس بلا کر نہ صرف ذلیل و خوار کیا بلکہ اس عمل پر اظہارِ مسرت بھی کیا۔ پھر انہوں نے فرانسیسی صدر میکرون کو بھی جی بھر کر ذلیل و رسوا کیا اور اس سے لطف لیا۔ تاہم ہمارے ساتھ وہ شغل میلہ کر رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے ہمیں آگے لگایا اور پھر ایران پر حملہ کر کے ہمارے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی۔ وہ صرف شغل میلہ کر رہے اور تم ہو کہ ان کو سیریس لے رہے ہو۔ جس طرح وہ ایسے کاموں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تم بھی دل پر مت لو اور مزے کرو۔ تم جہاں ہو ادھر موسم کافی بہتر ہے۔ ادھر ادھر کی فکر لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ نہ پہلے تم سے کسی نے پوچھ کر کچھ کیا ہے اور نہ ہی اب کوئی پوچھے گا۔ سمجھ آئی ؟ میں نے کہا: جی شاہ جی سمجھ آ گئی ہے۔ شاہ جی نے خوش ہو کر کہا ''ایتھے رکھ‘‘ اور بلا کسی پیشگی نوٹس یا سلام دعا فون بند کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے طرزِ عمل کی مانند میرے لیے شاہ جی کا یہ طرزِ عمل بھی اچنبھے یا حیرانگی کی بات نہیں۔ وہ اکثراسی طرح کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved