تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     26-06-2025

جنگ بندی سے جنگ بندی تک

جس طرح پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کی اچانک جنگ بندی ہوئی یا کرا دی گئی‘ اسی طرح اب ایران اسرائیل جنگ کی بھی اچانک جنگ بندی ہو گئی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں کا کہنا ہے کہ جنگ کے مقاصد حاصل کر لیے گئے ہیں‘ یعنی ایران سے ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت چھین لی گئی ہے۔ پہلے یہ سننے میں آیا تھا کہ ایران میں نظام حکومت کی تبدیلی بھی اس جنگ کا ایک ہدف ہے اور اس مقصد کے لیے ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے‘ لیکن اب اس کے بالکل برعکس خبر آئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ رجیم چینج ہدف نہیں تھا۔ ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ ایران نے جوہری تنصیبات بحال کرنے کی کوشش کی تو دوبارہ حملہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب اسرائیل ایران جنگ بندی پر اچھے طریقے سے عمل ہو رہا ہے‘ سیز فائر کے بعد میرے کہنے پر اسرائیلی طیارے واپس آ گئے تھے۔ انہی ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہفتہ پہلے یہ بیان دیا تھا ''اس وقت اسرائیل سے ایران پر حملے روکنے کی درخواست کرنا 'بہت مشکل‘ ہے‘ جب کوئی فریق جیت رہا ہو اور دوسرا ہار رہا ہو تو معاملہ کچھ زیادہ ہی پیچیدہ ہو جاتا ہے‘ لیکن ہم تیار اور ایران سے بات چیت کر رہے ہیں‘‘۔ یعنی ایک ہفتہ پہلے ان کے لیے اسرائیل سے ایران پر حملے روکنے کا کہنا مشکل تھا لیکن اب ان کے کہنے پر اسرائیلی طیارے واپس آ گئے۔ ایک اور مثال دیکھیے: ایران پر اسرائیل کے پہلے حملے کے بعد امریکی حکومت کا اولین مؤقف یہ تھا کہ امریکہ اس کارروائی میں شریک نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وائٹ ہاؤس کے توسط سے جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف یک طرفہ کارروائی کی‘ ہم ان حملوں میں شامل نہیں اور خطے میں تعینات امریکی افواج کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ امریکی طیاروں نے خود ایران کی سرزمین پر مہلک بموں سے حملہ کیا۔ کتنی عجیب بات ہے؟ کیسا دہرا پن ہے؟
یہ تو تھی جنگ کی حقیقت کہ یہ کس کے کہنے پر شروع ہوئی‘ کس وجہ سے روکی نہیں جا سکتی تھی اور پھر کیسے یکایک سیز فائر بھی ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ سیز فائر کے بعد اب کیا ہو گا؟ اس سیز فائر کے بعد کے امکانات کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب میں اس سے پہلے جو دو سیز فائر ہو چکے ہیں‘ ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ غزہ میں پہلا سیز فائر 19 جنوری 2025ء کو ہوا تھا۔ طے پایا تھا کہ سیز فائر کے ابتدائی چھ ہفتوں میں اسرائیلی فوج کا مرکزی غزہ سے بتدریج انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی ہو گی۔ سیز فائر کے دوران روزانہ غزہ میں 600ٹرکوں پر مشتمل انسانی امداد کی اجازت دی جائے گی جن میں سے 50ٹرک ایندھن لے کر آئیں گے اور 300ٹرک شمال کے لیے مختص ہوں گے۔ حماس 33اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی‘ جن میں تمام خواتین (فوجی اور شہری)‘ بچے اور 50سال سے زیادہ عمر کے مرد شامل ہوں گے۔ حماس پہلے خواتین قیدیوں اور 19سال سے کم عمر بچوں کو رہا کرے گی‘ جس کے بعد 50سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو رہائی دی جائے گی۔ یہ بھی طے پایا کہ اس دوران اسرائیل اپنے ہر سویلین قیدی کے بدلے 30فلسطینیوں اور ہر اسرائیلی خاتون فوجی کے بدلے 50فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ اس کے علاوہ بھی کئی شرائط تھیں‘ لیکن ان میں سے چندایک ہی پوری ہو سکیں کیونکہ اسرائیل کے پاس طاقت ہے اور اس کے استعمال کے بغیر اسے چین نہیں آتا۔ یہ سیز فائر حقیقی طور پر چند روز ہی جاری رہ سکا۔ اس کے بعد اسرائیل نے مختلف حیلوں بہانوں سے پھر غزہ پر حملے شروع کر دیے جو اَب تک جاری ہیں۔ اس دوران کئی بار اسرائیل اور حماس میں دوبارہ سیز فائر کی کوششیں کی گئیں‘ جو کامیاب نہیں ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں بے گناہوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اس کے بعد سیز فائر ہوا پاکستان اور بھارت کے مابین اور اس سیز فائر کو ڈیڑھ مہینہ ہو چکا ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ نہ تو پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کا ڈول ہی ڈالا گیا اور نہ ہی بھارت کی جانب سے پہلگام وقوعہ کے بعد سندھ طاس معاہدے پر اختیار کیے گئے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی۔ ابھی چند روز پہلے بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کریں گے اور وہاں جانے والے پانی کا رُخ اپنے استعمال کے لیے موڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو پانی پاکستان کو جا رہا تھا‘ ہم ایک نہر بنا کر اسے راجستھان تک لے جائیں گے۔ پاکستان پانی کا پیاسا رہے گا جو اسے بلا جواز مل رہا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت کے لیے دو آپشنز ہیں‘ یا تو سندھ طاس معاہدہ مان لے‘ اگر وہ نہیں مانتا‘ ڈیمز اور کینال نکالے گا تو پاکستان جنگ کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا غیر قانونی ہے‘ پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے‘ اگر بھارت اس دھمکی پر عمل کرتا ہے تو ہمیں ایک اور جنگ بھارت سے لڑنا پڑے گی‘ ہماری افواج نے بھارت کو شکست دی‘ آئندہ بھی دیں گے۔ اس طرح جنگ بندی کے باوجود جنگ کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے۔
اب ایران اسرائیل جنگ بندی کرائی گئی ہے لیکن کیا دونوں ممالک کے مابین جو اختلافات ہیں اور جن ایشوز کو بنیاد بنا کر جنگ چھیڑی گئی ان کو طے کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی؟ امریکہ اور اسرائیل کا ماننا ہے کہ ان کے پے در پے حملوں نے ایران کو جوہری پروگرام سے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے‘ لیکن حالات یہ ہیں کہ بعد از جنگ بندی منظر نامے میں نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایران کی پارلیمنٹ نے جوہری تنصیبات کی سلامتی کی ضمانت ملنے تک اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی منظوری دے دی ہے اور بل پر عمل درآمد کے لیے اب اسے صرف ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کی منظوری درکار ہو گی۔ روس نے آئی اے ای اے سے ایران کے تعاون کی معطلی کو اسرائیلی حملے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ کی جانب سے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا اقدام تشویشناک ہے‘ لیکن ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کا 'اشتعال انگیز حملہ‘ اس کی وجہ ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اصل مسئلہ سیز فائر نہیں ہوتا‘ جب جنگ کے شدت اختیار کر جانے کا اندیشہ ہو تو تھوڑی سی کوشش سے متحارب ممالک جنگ بندی پر رضا مند ہو ہی جاتے ہیں۔ اصل ضرورت جنگ بندی کے بعد معاملات کو سنبھالنے اور ان شقوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہوتی ہے جن کو بنیاد بنا کر جنگ بندی عمل میں لائی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایران اسرائیل جنگ بندی کو بھی پاک بھارت جنگ بندی اور اس سے پہلے اسرائیل حماس جنگ بندی کی طرح حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا یا درپیش مسائل کے حل کی طرف کوئی سنجیدہ توجہ دی جائے گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved