لاہور میں گرمی سخت ہوا کرتی ہے‘ سو ہو رہی ہے۔ 15جون کے بعد ہاڑ کا مہینہ شروع ہو جاتا ہے۔ عجب نہیں کہ یہ لفظ بھاڑ یعنی تنور سے نکلا ہو۔ سو ہم اب ہاڑ میں مکئی کے دانوں کی طرح بھن رہے ہیں۔ مکئی کے دانے بھی کچھ منٹوں میں پھول بننے لگتے ہیں لیکن ہم سخت جان بہت جلد نرم بھی نہیں ہو پاتے۔ ان دانوں کے پھول بنتے بنتے ساون آ پہنچے گا لیکن ابھی ساون میں دیر ہے۔ ساون سورج کی تندی اور تیزی پر کچھ گہرے سرمئی اور کالے پردے ڈال ضرور دیتا ہے‘ بارش ہوتی رہے تو ٹھنڈے جھونکے چہروں اور پودوں کو بھیگے موسم سے شاداب ضرور کرتے رہتے ہیں لیکن بارش سے پہلے اور بعد کا حبس‘ الامان۔ امان کہیں نہیں ملتی۔ ملتی ہے تو صرف یخ بستہ کمروں میں اور بجلی کی اس مہنگائی میں یخ بستہ کمرے بھی کتنوں کو نصیب ہو سکتے ہیں۔ سو لوگ بار بار آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہتے ہیں کہ سورج بھیا! بس کردو۔ لاہور ملک کے شمالی حصے میں ہے سو خوش قسمت ہے کہ دس پندرہ دن بھاڑ جلنے کے بعد شمالی ہوائیں نم آلود ہوائیں لے کر آ پہنچتی ہیں۔ لیکن ملک کے جنوبی علاقے جو ہمالیہ اور قراقرم کی بلندیوں سے کافی دور ہیں‘ کئی مہینے تنور ہی بنے رہتے ہیں۔ ساون بھادوں کے چھینٹے بھی یقینی نہیں ہوتے۔ پڑ گئے تو پڑ گئے‘ نہیں پڑے تو سوکھا تو پڑے گا ہی۔ دو تین سال پہلے جو بارشیں ہوئیں اور سیلاب آئے وہ تو پورے ملک کو ہلا دینے والے تھے سو خدا کرے برسات اس بار سب تک پہنچے لیکن معتدل پہنچے۔ سیلابی صورت اختیار نہ کرے۔
عجیب نظامِ قدرت ہے۔ ایک طرف آپ اس گرمی سے پناہ مانگتے ہیں۔ دوسری طر ف یہی سورج آپ کیلئے رزق فراہم کرنے کا کام کرتا رہتا ہے۔ فصلیں گرمی کے آغاز میں پکتی ہیں۔ بیش قیمت سبزیاں اسی دھوپ میں پل کر جوان ہوتی ہیں۔ اعلیٰ پھل اسی کڑکتی دھوپ میں خود میں رس بھرتے اور میٹھے ہوتے بازار میں آتے ہیں۔ کسی موسم میں اتنے لذیذ‘ شیریں پھل بیک وقت بازار میں نہیں پہنچتے جتنے مئی جون جولائی اگست کی شدید تپش میں آتے ہیں۔ بڑی دکانوں پر ہی نہیں‘ ریڑھیوں اور ٹھیلوں پر پھلوں کے انبار لگ جاتے ہیں۔ یہ کوئی تھوڑی نعمت نہیں ہے کہ مالدار ترین افراد سے لے کر مزدور اور دیہاڑی دار تک سب کسی نہ کسی طرح ان پھلوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اتنے پھل ہوتے ہیں اور اتنے وافر کہ کسی بازار میں نکل جائیں‘ ریڑھیاں اور ٹھیلے کسی نہ کسی پھل سے لدے نظر آئیں گے۔ ان کی قدر پوچھنی ہو تو صحرائی ممالک سے پوچھیں۔ عرب ممالک میں یہی تربوز‘ خربوزے اور سردے گرمے کس قیمت پر بکتے ہیں‘ ذرا پوچھئے تو سہی۔ یہ تربوز جو آپ کے گھر کے قریب پورا کھیت ایک جگہ ڈھیر ہوا پڑا ہوتا ہے‘ اسی کا چوتھائی حصہ جاپان میں کس قیمت پر بڑے سٹورز پر بکتا ہے‘ کبھی جانیے گا۔ یہی فالسے اور جامن جنہیں ہم دیکھ کر گزر جاتے ہیں‘ انہیں کتنے ملکوں کے لوگ ترستے ہیں‘ کبھی معلوم تو کیجئے۔ مجھے اپنے کچھ دوستوں کی حسرت یاد آتی ہے جو برطانیہ اور یورپ میں رہتے ہیں‘ کہتے ہیں کہ کتنے سالوں سے فالسے کے ذائقے کو ترسے ہوئے ہیں۔ فالسے ان ملکوں میں ملتے ہی نہیں اور ان دوستوں کا سردیوں میں پاکستان آنا ہوتا ہے جب فالسوں کا موسم ہی نہیں ہوتا۔
آج کل لاہور اور ملک بھر میں دیکھ لیجیے۔ فالسوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ صرف فالسے ہی نہیں‘ اس بار بہت سے وہ پھل بھی فراوانی سے دستیاب ہیں جو سرد خطوں کے پھل ہیں۔ آڑو‘ خوبانی‘ آلو بخارا اور کمال یہ ہے کہ چیری بھی اس سال بہت نظر آرہی ہے۔ وہ چیری جو کبھی ایک سوغات تھی‘ اب لاہور میں چھ سات سو روپے کلو بک رہی ہے۔ اچھا اور بڑا آڑو تین سو روپے‘ رسیلی میٹھی خوبانی اور آلو بخارا بھی کم و بیش اسی قیمت میں ہے۔ شاید اس فراوانی کی وجہ یہ ہو کہ سڑکیں اور ذرائع آمد و رفت بہتر ہو گئے ہیں اور اب راستوں میں وقت کم لگتا ہے۔ البتہ لیچی جو گرمیوں کا خاص تحفہ ہے‘ اس سال کم نظر آرہی ہے اور قیمت بھی آٹھ سو روپے کلو سے کم نہیں۔ ایک بات یہ کہ صراحی لیچی جو ذرا لمبوتری‘ زیادہ میٹھی اور رسیلی ہوتی ہے‘ اب کئی سالوں سے بہت کم نظر آتی ہے۔ یہ ہری پور وغیرہ کے اطراف میں زیادہ ہوتی ہے۔ لاہور میں گولا لیچی کا راج ہے جو گول ہے اور زیادہ اچھی نہیں۔ ہری پور اور ہزارہ کے دوست توجہ کریں کہ صراحی لیچی کو لاہور ترسا ہوا ہے۔
جنوبی پنجاب اور سندھ کے خطے گرمی کی شدت میں جھلستے ضرور ہیں لیکن یہی گرمی انہیں پھلوں کے بادشاہ آم سے جس طرح مالامال کرتی ہے‘ اس کا کوئی مقابلہ کہیں نہیں ہے۔ پھلوں کا یہ بادشاہ اسی گرمی میں تخت پر بیٹھتا اور حکمرانی کیا کرتا ہے۔ وہ کیا واقعہ ہے کسی حکیم صاحب کا جو آم کے عاشق تھے۔ کوئی مریض آیا جو خود آم کے عاشقوں میں تھا۔ حکیم صاحب نے دوائی دی اور کہا کہ اس موسم میں میٹھے پھلوں سے پرہیز کرنا ہے۔ مریض نے کہا: حکیم صاحب! سب پھل تو خیر‘ مگر کیا آم بھی نہیں؟ بولے: کہا تو ہے‘ میٹھے پھل سب منع ہیں۔ وہ پھر بولا: حکیم صاحب ! کیا آم بھی؟ حکیم صاحب آم سے اپنے عشق کی وجہ سے یہ لفظ زبان پر لانا نہیں چاہتے تھے۔ جھنجھلا کر بولے: کم بخت! اب کیا کفر بکوں؟
ایک ہفتے سے سفید چونسا نظر آنے لگا ہے‘ ورنہ سندھڑی اور دسہری ہی کی چودھراہٹ جاری تھی۔ سندھڑی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‘ سندھڑی نامی گاؤں میں پہلے پہل لگایا گیا تھا۔ یہ اپنی مٹھاس‘ خوشبو‘ وزن اور ذائقے کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ سندھڑی آم کی ابتدا 1909ء میں ہوئی۔ جب انڈیا کے شہر مدراس سے سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں سندھڑی آم کے چار عدد پودے منگوا کر دو پودے سابق وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کے والد جناب دین محمد جونیجو کو دیے‘ دو پودے مقامی زمیندار کو دیے۔ جس کے بعد اس آم کا نام سندھڑی رکھا گیا۔ آموں کے یہ نام پڑے کیسے۔ یہ خود ایک مزے دار تحقیق ہے۔ لنگڑا آم کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے ماہر نباتات بتاتے ہیں کہ آج سے ڈھائی تین سو سال پہلے بھارت کے شہر بنارس میں ایک لنگڑا کسان آموں کا بڑا شوقین تھا۔ وہ مختلف آموں کی بہترین افزائش کرتا اور اس کے باغ سے طرح طرح کے آموں کی پیداوار ہوتی۔ انہی درختوں میں سے ایک کے آم خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے بڑا مقبول ہوئے۔ یہ کسان اپنے یار دوستوں میں لنگڑا کے نام سے مشہور تھا۔ جب اس کے آم کی شہرت آس پاس کے علاقوں میں پھیلی تو لوگ اس آم کو بھی لنگڑا کہنے لگے۔ یہی وہ لنگڑا ہے جو اکبر الہ آبادی نے اقبال کو بھیجا تو رسید میں اقبال نے لکھا:
اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا
انور رٹول کی بات بھی دلچسپ ہے۔ انوارالحق نامی زمیندار نے یہ آم بھارتی ریاست یوپی کے علاقے رتاول میں لگایا تھا۔ بھارت میں یہ آم انور رتاول کہلاتا تھا لیکن پاکستان میں یہ انور رٹول کے نام سے بہت مقبول ہے۔ اور میرے خیال میں انور رٹول سفید چونسا کے بعد سب سے خوشبودار اور ذائقے دار آم ہے۔ چند سال پہلے یہ اچھی خبر بھی سنی تھی کہ سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور مقامی باغبانوں نے آموں کے کچھ ایسے درخت کاشت کیے ہیں جو سال میں دو سے تین بار فصل دیں گے‘ جسکے بعد آئندہ چند برسوں میں ان شاء اللہ پورے سال آم دستیاب ہو گا۔ ان آموں کی اقسام کو سدا بہار‘ بارہ ماہی‘ مہران‘ بھرگڑی اور سرخ طوطا پری کے نام دیے گئے ہیں۔ معلوم نہیں ان کا کیا ہوا اور کب یہ آم ذائقے چکھائیں گے۔ آم کے بارے میں یہ مزیدار جملہ بھی تو اقبال سے منسوب ہے کہ ''آم نہ کھا کر مرنے سے آم کھا کر مر جانا بہتر ہے‘‘۔ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ ہم لوگ گرمی کی شدت کو بیان کرتے ہیں‘ اسکے رس کی بات نہیں کرتے۔ ہمارے منہ میں گرمیوں کا رس بھی تو ٹپکتا جاتا ہے۔ کبھی اسکا شکر بھی تو کرنا چاہیے۔ رس سے بھری زبان صرف شکایت کیلئے تھوڑی ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved