میجر (ر) عامر نے کافی عرصے بعد اپنے گھر پر دو درجن مہمان بلا کر ضیافت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ اس پشتون کا دستر خواں کافی وسیع ہے۔ اُن کے ہاں ہر قسم کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ بھی یہاں ایک دوسرے سے ملتے ہیں جو عام حالات میں شاید ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا پسند نہ کرتے ہوں۔ اس دفعہ کافی عرصے بعد ایسی بیٹھک ہو رہی تھی۔ کچھ میجر صاحب کی اپنی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی‘ پھر خاندان میں بھی کچھ سانحات ہوئے۔ یوں ایک بڑا وقفہ پڑ گیا۔اس محفل میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی بھی شریک تھے۔ ان کی موجودگی محفل کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ قسمت دیکھیں کہ ملکی تاریخ کے ہر اہم موقع پر موجود تھے۔ بھٹو کی پھانسی ہو یا بارہ اکتوبر کا مارشل لاء‘ وہ اس کے عینی شاہد ہیں۔ اپنی آنے والی یادداشت کا عنوان انہوں نے Witness رکھا ہے۔ میرا خیال تھا اس کا نام The Last Witness ہونا چاہیے تھا‘ خصوصاً بھٹو صاحب کی پھانسی کے وقت جو چار پانچ اہم سول اور عسکری حکام وہاں گھاٹ پر تارا مسیح کے ساتھ موجود تھے‘ ان میں اب سعید مہدی ہی حیات ہیں۔ خیر انہیں Last witness عنوان پسند نہیں آیا۔ ان کے پاس بتانے کو بہت کچھ ہے اور مجال ہے کہ وہ بول رہے ہوں اور آپ بور ہو جائیں۔ مجھے انہیں سنتے ہوئے ہمیشہ لگتا ہے کہ وہ ایک عظیم قصہ گو ہیں۔ ہزاروں کہانیاں اور قصے ان کے سینے میں دفن ہیں۔
ان کے علاوہ اس ضیافت میں سابق وفاقی وزیر بابر اعوان‘ مشاہد حسین سید‘ عبداللہ بابر‘ سلیم صافی‘ قدوائی صاحب‘ حامد میر‘ عدیل وڑائچ‘ طارق پیرزادہ‘ سابق سفیر آصف درانی‘ فواد چودھری‘ فیصل چودھری‘ پروفیسر طاہر ملک اور دیگر بھی مدعو تھے۔ جب کھانا میز پر چُنا جانے لگا تو میجر عامر نے اپنے بیٹے عمار کو اشارہ کیا کہ ملازموں سے ڈش لے کر سب کو خود سَرو کرو۔ بہت کم لوگ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کرتے ہیں۔ عمار اپنے باپ کے سب دوستوں کیساتھ جہاں عزت و احترام سے پیش آتا ہے وہیں وہ کھانا بھی خود سرو کرتا ہے۔ آج کل کے نوجوان بچے کب اپنے باپ کے دوستوں کی تین چار گھنٹے تک کھڑے ہو کر خدمت کرتے ہیں‘ لیکن میجر عامر کے گھر اب بھی یہ کلچر موجود ہے۔
خیر جب اتنے شعبوں کے لوگ موجود ہوں تو پھر بھلا کون سا موضوع ہو گا جس پر بات نہ ہوتی ہو۔ آصف درانی‘ جو ایران میں پاکستان کے سفیر رہ چکے‘ نے ایران اسرائیل جنگ پر اچھی گفتگو کی۔ مشاہد حسین سید کا کمال یہ ہے کہ انکے پاس ہر موقع کیلئے کوئی نہ کوئی واقعہ یا برجستہ جملہ موجود ہوتا ہے۔ بابر اعوان نے اٹک قلعے میں پرانے مقدمات کی دلچسپ کہانیاں سنائیں۔ فیصل چودھری نے پی ٹی آئی کی سیاست کے حوالے سے اہم گفتگو کی۔ خود میجر عامر ملکی تاریخ کے اہم گواہ ہیں۔ ایسی محفل میں کوشش ہوتی ہے کہ آپ زیادہ سمجھدار یا دانشور بننے کی کوشش نہ کریں اور دوسروں کو سنیں۔ میری بھی اس خوبصورت محفل میں یہی کوشش تھی لیکن میری کوشش اس وقت ناکام ہو گئی جب وہاں کینیڈا سے آئے ایک اوورسیز پاکستانی مہمان نے پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں اپنی رائے پیش کی۔ ان کی گفتگو سے لگا کہ پاکستان سے برا ملک شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔ ان کے بچے پاکستان کے حالات پر بہت برا محسوس کرتے ہیں جس پر وہ شرمندہ ہوتے ہیں۔
اکثر بیرونِ ملک پاکستانیوں سے یہ گفتگوسننے کو ملتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ جنت میں رہ رہے ہیں اور ہم پاکستانیوں کا برا حال ہے۔ وہ ہم پر طنز کریں گے اور جعلی ہمدردی بھی دکھائیں گے۔ دراصل وہ ہماری خرابیوں میں اپنی بیرونِ ملک منتقلی کا جواز تلاش کرکے سکون پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینا سب اوورسیز ایسے نہیں لیکن اکثریت کا اب یہی رویہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کو ذلیل کرو۔ اس اوورسیز نے بھی ہم سب کا یہی حال کیا۔ سب چپ رہے کہ وہ مہمان ہیں کہ انہیں کیا کہا جائے لیکن میں چپ نہ رہ سکا اور معذرت کرکے بول پڑا کہ مان لیا ہمارے اندر بہت برائیاں ہیں مگر کیا آپ کو دنیا بھر کی برائیاں یا ہنگامے صرف پاکستان میں ہی نظر آتے ہیں؟ آپ کینیڈا کے لاء اینڈ آرڈر کو دیکھ لیں۔ بھارت نے وہاں کینیڈا کے شہری قتل کرائے ہیں‘ وہاں کئی دہشت گرد کارروائیاں بھی ہو چکی ہیں۔ نسل پرستی اور نفرت بڑھ رہی ہے۔ ٹرمپ روز کہتا ہے کہ کینیڈا کی کوئی حیثیت نہیں‘ اسے ہم امریکہ کی ایک ریاست بنائیں گے۔ اس پر آپ کے بچے پریشان نہیں ہوتے کہ ہمارے کینیڈا کا کیا بنے گا؟ آپ کو پریشانی پاکستان بارے زیادہ ہے‘ امریکہ بارے کیا خیال ہے جہاں لاس اینجلس سمیت سبھی ریاستوں میں امریکی صدر کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی جلوس نکلے ہیں۔ امریکی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ یورپ اب مسلمانوں کو امیگریشن دینے کو تیار نہیں بلکہ وہاں نسل پرستی بڑھ رہی ہے اور دائیں بازو کی جماعتیں جیت رہی ہیں۔ برطانیہ میں گرومنگ گینگز کی خوفناک کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ کیا ان کی وجہ سے آپ اوورسیز شرمندہ نہیں ہوتے؟ کیا پاکستان کی حالت اس وقت ایران‘ یوکرین‘ اسرائیل اور روس سے بھی بری ہے جہاں اس وقت جنگیں لڑی جارہی ہیں‘ شہروں پر میزائل گر رہے ہیں اور سویلین مررہے ہیں۔ غزہ کی حالت ہی دیکھ لیں۔
ہم نے ابھی جنگ میں بھارت کو شکست دی ہے۔ دنیا حیران ہے کہ پاکستان نے اپنے سے پانچ گنا بڑے ملک کا حشر نشر کر دیا۔ صدر ٹرمپ روز ہماری تعریفیں کررہا ہے۔ دنیا نے ہمیں سنجیدہ لینا شروع کر دیا ہے‘ پاکستانی پاسپورٹ کی عزت بڑھی ہے۔ ہماری قوم اور نوجوانوں کا اعتماد بڑھا ہے اور پاکستان کا مستقبل روشن لگنے لگا ہے۔ آپ پاکستان میں کسی ریستوران پر چلے جائیں آپ کو بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ پاکستان ڈوب گیا ہے‘ برباد ہوگیا ہے؟ حال ہی میں برطانیہ میں پندرہ سو ایسے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا جنہوں نے وہاں نسلی فسادات میں مساجد اور گھر جلائے تھے۔ وہاں جرائم بڑھ رہے ہیں۔ فرانس اور جرمنی میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں‘ وہ آپ کو نظر نہیں آتے۔
اسوقت ہم سب آرام سے ایک چھت کے نیچے بیٹھے ہیں‘ جب بیچارے ایرانی مارے جارہے ہیں۔ اسرائیلی پہلی دفعہ اپنے گھروں پر بم اور میزائل گرتے دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کا مودی نے حشر نشر کر دیا ہے۔ یوکرین کے زیلنسکی نے بڑے شوق سے روس سے جنگ شروع کی تھی اور اب آدھا ملک گنوا چکا ہے۔ ابھی اگلے روز اس نے اپنے بارہ سو فوجیوں کی لاشیں ماسکو سے واپس لی ہیں۔ کچھ اوورسیز کو تو باہر کی حکومتوں کو بھی شکایات رہتی ہیں کہ وہ وہاں بینک کارڈز اور دیگر کئی طرح کے فراڈوں میں ملوث ہوتے ہیں‘ کاغذی شادیاں کرتے ہیں۔ اُن چند لوگوں کی وجہ سے پاکستان کا نام خراب ہوتا ہے اور ایئر پورٹس پر تمام پاکستانیوں کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہم نے تو کبھی آپ سے شکایت نہیں کی کہ خرابیاں چند لوگ کرتے ہیں اور اس کی قیمت سب پاکستانی یہاں بیٹھ کر ادا کرتے ہیں۔ آپ کے بچے یہ سب نہیں پوچھتے؟ وہ کینیڈا میں رہتے ہیں‘ انہیں کینیڈا کی فکر کرنا سکھائیں۔
میں نے کہا: یہاں دو درجن لوگ بیٹھے ہیں‘ کوئی ایک کہہ دے کہ کبھی اس کے علاقے میں کوئی بندہ بھوکا مرا ہو۔ ہم اتنے برے بھی نہیں جتنا آپ لوگوں نے ہمیں بنا دیا ہے۔ ہم جتنے بھی خراب حال ہوں کم از کم ہمارے ساتھ جنگ میں چار ملک کھڑے تھے۔ بھارت کے ساتھ ایک بھی ملک نہیں کھڑا ہوا۔ بھارت اکیلا رہ گیا اور ہمارے ساتھ چین سے امریکہ تک سبھی تھے۔ ہم نے بھارتی غرور کو شکست دی ہے لیکن آپ اب بھی ہمیں برا سمجھتے ہیں؟ آپ اپنے بچوں کو ہماری یہ اچھائیاں کیوں نہیں بتاتے؟ ان باتوں کے بعد میجر عامر کے ڈرائنگ روم میں پِن ڈراپ خاموشی تھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved