تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     14-11-2013

بانگ درا ؟یا صحرا کی اذان؟

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کے اہم انٹرویو کی اشاعت روک کر میں آج کا کالم‘ گزشتہ کل کے زیادہ اہم واقعات پر لکھ رہا ہوں۔ نوازشریف نے ایک ہی دن میں دو بڑے اور بنیادی فیصلے کر کے تقریباً 5 ماہ کی عدم کارکردگی کے سب گلے دور کر دیئے۔ زندگی تو ہماری عشروں تک ایسی ہی رہے گی۔ شاید اس سے بری ہو جائے۔ لیکن بڑے فیصلوں پر پہنچنے سے گریز‘ ان ساری چیزوں سے بڑا مرض ہے۔ روٹی مہنگی ہو گئی‘ تو کم کھائی جا سکتی ہے۔ مہنگی بجلی اور اندھیروں کے ہم عادی ہو چکے ہیں۔ مہنگے پٹرول کی کمی کے ساتھ گزارہ کرنے کے طریقے ہم نے ایجاد کر لئے۔ حد یہ ہے کہ دہشت گردی کا خراج ادا کرنابھی اب ہم نے مقدر سمجھ لیا ہے۔ لیکن بڑے فیصلوں سے گریز یا فرار کے نتیجے میں جو ناگہانی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں‘ ان کا نہ پتہ ہوتا ہے اورنہ ہم اس کے لئے تیار ہو پاتے ہیں۔ سب سے بڑا فیصلہ محاذ جنگ پر شہید ہونے والوں کو‘ جی ایچ کیو جا کر خراج عقیدت پیش کرنے کا تھا۔ یہ فیصلہ کرنے کے لئے نوازشریف کو گھر کے اندر‘ پارٹی کے اندر‘ پارلیمنٹ کے اندر اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر‘ ہر جگہ منتشر خیالات اور تصورات سے جنگ کرنا پڑی ہو گی۔ مجھے تو و ہ سال اور مہینے بھی یاد نہیں رہ گئے‘ جب ہمارے درمیان بنیادی قومی معاملات پر اتفاق رائے ہوا کرتا تھا اور ہم ایک متحد قوم کی حیثیت میں اپنے مسائل حل کیا کرتے تھے۔ اس طرح کی یکجہتی آخری بار 1965ء میں دیکھنے کو ملی تھی۔ اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے مذہبی سیاستدانوں نے راستوں کو اتنا دھندلا دیا کہ ہمیں دوبارہ اتفاق رائے نصیب نہیں ہوا۔ جو ہوا‘ وہ بنیادی طور پر مزید تقسیم اور مزید انتشار کا باعث بنا۔ مثلاً حکومت مخالف عناصر جب اکٹھے ہوئے اور کوئی نہ کوئی متحدہ محاذ بنا کر سامنے آئے‘ تو ان کا ہدف حکمران ہوا کرتے تھے اور حکومتوں کو نکالنے کے لئے جو احتجاجی تحریکیں برپا ہوتیں‘ وہ حکومت کو نکالنے میں کامیاب ہوتیں یا ناکام؟ ملک کے بخیے ادھیڑ دیا کرتی تھیں۔ انہی تحریکوں کی وجہ سے مذہبی عناصر کو پھولنے پھلنے اور بااثر ہونے کا موقع ملا اور آخر کار وہ اقتدار کی سیاست کا پہلے ہتھیار بنے اور اب خود سٹیک ہولڈر بن چکے ہیں۔ یہی عناصر تھے‘ جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوا۔ یہی عناصر تھے‘ جن کے بل بوتے پر حکومتیں ‘ افغان طالبان کی دہشت گردی کی لپیٹ میں آتی چلی گئیں اور پھر افغانستان کی دہشت گردی سرحدیں پار کر کے‘ ہمارے ملک میں گھس آئی اور اب نکلنے کا نام نہیں لے رہی۔ میں تو کئی دنوں سے لکھ رہا ہوں‘ مجھے پاکستان میں دوبارہ معمول کے حالات پیدا ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ حکومت اور معاشرے پر دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے اثرات اتنے زیادہ گہرے ہو چکے ہیں کہ معاشرہ ان کی مزاحمت کرتے کرتے اب تھکاوٹ محسوس کر رہا ہے۔ جب حکومت پاکستان کی طرف سے برسرزمین کوئی کامیابی حاصل کئے بغیر اور دہشت گردوں کو کنٹرول کئے بغیر ‘ انہیں مذاکرات کی اچانک پیش کش کی گئی‘ تو صاف ظاہر ہو گیا کہ حکومت میں دم خم باقی نہیں رہ گیا۔ کیونکہ یہ پیش کش کرنے کا فیصلہ آل پارٹیز کانفرنس میں کیا گیا تھا۔ سول سوسائٹی کی وہ تمام طاقتیں‘ جو معاشرے میں پرامن تبدیلیاں لانے کا ذریعہ ہوتی ہیں اور ریاستی طاقت کو موثر رکھنے کی ذمہ دار۔ اگر کوئی زمینی کامیابی حاصل کئے بغیر مذاکرات کی درخواستیں کرنے لگیں‘ تو اس کا کھلامطلب یہ ہوتا ہے کہ ’’ہم میں ہمت نہیں رہ گئی۔‘‘ جن حضرات نے یہ خوفناک فیصلہ کیا‘ انہیں شاید اندازہ ہی نہ ہو کہ اس فیصلے کا اعلان سامنے آتے ہی ساری دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔ دنیا سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ 18کروڑ عوام کا یہ ایٹمی ملک‘ دہشت گردوں کے سامنے بے بسی کا اظہار کرنے پر مجبور ہو گیا ہے‘ تو پھر اسے کون بچائے گا؟ پاکستان میں دہشت گرد غلبہ پانے میں کامیاب ہو گئے‘ تو مہذب دنیا غیرمستحکم ہو کے رہ جائے گی اور اگر ہمارے رہے سہے طاقتور ادارے ایٹمی اثاثوں کو محفوظ رکھنے میں کامیاب بھی ہو گئے‘ تو کب تک ایسا کر سکیں گے؟ اور اگر دہشت گردوں نے‘ ان اثاثوں پر قابو پا لیا‘ تو پھر دنیا پر کیا گزرے گی؟ جو لوگ زندہ انسانوں کو بارود میں بھون کر لطف اٹھاتے ہیں۔ مجمع لگا کر تڑپتے انسانوں کی گردنیں کاٹتے ہیں۔ بسوں میں آ گ لگاکر ان کے اندر بیٹھے نوعمر بچے بچیوں کو آگ کے شعلوں میں جھلساتے ہیں‘ ان کے لئے تو شہروں پر ایٹم بم پھینک کر‘ ان میںجلتے اور پگھلتے ہوئے انسانوں کو دیکھنا اور ان کی چیخ پکار سننا کسی تماشے سے کم نہ ہو گا۔ کبھی آپ توجہ سے دہشت گردوں کے حامیوں کی گفتگو سنیں اور ان کی تحریریں پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ان کے الفاظ میں انسانیت سے کتنی نفرت‘ ان کے ذہنوں میں کتنی بے رحمی اور ان کے خیالات میں کتنی پر تعفن جارحیت پائی جاتی ہے؟ اس طرح کے لوگ ہمارے معاشرے پر غالب آ گئے‘ تو ہم پورے عالم انسانیت کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن جائیں گے اور دنیا ہمیں بچانے کے لئے ہر ممکن طریقے اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کل صبح تک میں اسی طرح کے خیالات اور تفکرات کے نرغے میں آیا ہوا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اب ہمارے حکمران طبقے بھی دل چھوڑنا شروع کر چکے ہیں۔ 10 نومبر کواچانک شام کے وقت ہر ٹی وی چینل پر آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کی سرخیاں جلی حروف میں فلیش ہونے لگیں۔’’جماعت اسلامی کے امیر کا بیان گمراہ کن اور ذاتی فائدے کے لئے ہے۔فوجیوں میں اس حوالے سے شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ عوام جانتے ہیں‘ ریاست کے وفادار کون اور دشمن کون ہیں؟ شہدا اور ان کے اہل خانہ کو منور حسن کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔‘‘یہ سرخیاں نہیں‘ تشویش اور فکرمندی سے مضمحل پڑے ہوئے لوگوں کے لئے بھرپور توانائی کا ایک جام تھا۔ منور حسن کے بیان کے فوراً بعد چند علمائے کرام اور مجھ جیسے کچھ لکھنے والوں نے اعتراض اور احتجاج کا حوصلہ کیا۔ ورنہ باقی تو یوں نعرے لگاتے ہوئے نکل آئے جیسے طالبان نے فتح حاصل کر لی ہو اور اقتدار کا مرکزجاتی عمرہ سے منصورہ میں منتقل ہو چکا ہو۔منور حسن کا بیان 4نومبر کو آیا تھا۔ شہید ہونے والے فوجی افسروں اور جوانوں کے ساتھیوں اور پسماندگان پر یہ خاموش سات دن کیسے گزرے؟ اس کا اندازہ اہل درد ہی کر سکتے ہیں۔ مجھ جیسے لوگ پریشان تھے کہ حکومت ‘انتہاپسندی کے اس بھیانک مظاہرے اور مسلح افواج کی تذلیل پر خاموش کیوں ہے؟ سیاسی اور مذہبی جماعتیںچپ کیوں سادھ گئی ہیں؟ اور پھر 10 نومبر کو آخرکار جب فوج نے پورے اعتماد اور بھرپور عزم کے ساتھ حقیقی شہدا کو درجہ شہادت سے باہر نکالنے اور انسانیت کے مجرم دہشت گردوں کو شہادت کے درجے پر فائز کرنے کی مذموم کوشش کا نوٹس لیا‘ تو ماند پڑتی ہوئی امیدوں کی توانائی بحال ہونے لگی۔ منورحسن کے سفاکانہ بیان پر ردعمل سامنے آنا شروع ہوا اور پھر 12نومبر کو پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف ‘ فوج کے شہیدوں اور غازیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے جی ایچ کیو گئے‘ تو دنیا کو دکھائی دیا کہ پاکستان ابھی تک اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑا ہے۔ قوم نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف متحد ہے بلکہ ان کامقابلہ کرنے کا عزم بھی رکھتی ہے اور ہمت بھی۔ جو خوفزدہ سیاستدان‘ دہشت گردوں کے ڈر سے بزدلانہ تجویزیں اور بیانات دے رہے ہیں‘ عوامی حوصلے کی بلند لہریںیا تو انہیں پیروں پر کھڑا کر دیں گی یا اٹھا کر پھینک دیں گی۔عوام کے بڑھے ہوئے حوصلے دیکھ کر ہمارے فوجی بھائیوں کی طاقت دوگنا ہو جائے گی اور شہدا کے وہ پسماندگان جواپنے ہی ایک مذہبی لیڈر کے عقب سے کئے گئے وار کے زخم سے تڑپ رہے تھے‘ اپنے غم کی طاقت سے اس دکھ پر غالب آ جائیں گے‘ جو فطری طور پر جان کی قربانی پیش کر کے اپنوں کی جدائی میں جنم لیتا ہے۔نوازشریف نے اس وقت سپاہ پاکستان کے درمیان جا کر ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا‘ جب سپاہ پاکستان کو اس کی ضرورت تھی۔اس اقدام کا منطقی نتیجہ دہشت گردوں کو للکارنا ہو گا اور ایوب خان کی اس تقریر کا ماحول پیدا کرنا ہو گا‘ جو انہوں نے ستمبر 1965ء میں بھارتی حملے کے موقع پر کی تھی۔ ’’ہمارا دشمن نہیں جانتاکہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے؟‘‘ نوازشریف کے یہ دو بڑے فیصلے ہماری تاریخ بدل سکتے ہیں۔ اگر وہ انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کر لیں۔ ورنہ فالو اپ نہ ہوا‘ تو یہ صحرا کی اذان ثابت ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved