ٹرمپ اسرائیل پر برہم‘ ایران پر امریکی پابندیوں میں نرمی اور بہتر تعلقات کا عندیہ‘ عالمی جنگ کے خطرات کا ڈرامائی ڈراپ سین‘ کہیں مضحکہ خیز تو کہیں معنی خیز دکھائی دیتا ہے۔ دانشوری اور تجزیے برابر جاری ہیں۔ ایرانی قیادت کے قتل کے خواہاں اور رجیم چینج کے خواہشمند جنگ بندی اور خطے میں امن کے علمبردار بن بیٹھے ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والے وائٹ ہاؤس کے بند کمروں کے راز و نیاز سے لے کر اسرائیل اور ایران کے اہم ٹھکانوں سمیت عرب ممالک کے فرمانرواؤں کے بارے ایسی ایسی خبریں بریک کیے جا رہے ہیں جیسے سبھی کچھ انہی کی مشاورت سے چل رہا ہے۔ نمائشی بیان بازیوں سے لے کر سفارتی قلابازیوں اور بدلتے پینتروں کے ڈی کوڈ کی جمع تفریق کا حاصل یہ ہے کہ ''گل فیر تے پہ گئی اے‘‘۔
امن کی فاختائیں اڑانے والے ایسے ایسے کریڈٹ سمیٹے چلے جا رہے ہیں کہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان کے چند روز قبل جنگی جنون میں لتھڑے بیانات پر دھیان دیں یا آج کل جاری امن کی بھاشاؤں پر۔ ہمارے ہاں 'بھائی لوگ کلچر‘ میں ایک مخصوص رنگ بازی کی اصطلاح سے واقفانِ حال بخوبی آگاہ ہیں جس میں اپنے کارندے یا کن ٹُٹے کو شامتِ اعمال سے بچانے کے لیے 'بھائی‘ کی انٹری اس وقت ہوتی ہے جب بھائی کو اپنا بھرم بکھرنے کا خدشہ لاحق ہو جاتا ہے اور فیس سیونگ کے لیے اپنے ہی بندے کو دوچار گالیوں سمیت ایک آدھ نمائشی تھپڑ بھی لگا ڈالتے ہیں۔ عالمی رنگ بازی میں صدر ٹرمپ نے نئی جہتیں متعارف کرائی ہیں۔ اپنے مصمم ارادوں اور ضد سمیت سبھی بڑھکوں کے برعکس گھوم کر ایران سے ہمدردی جتاتے ہوئے اسرائیل کے لتے لینا بس انہی کا خاصہ ہے۔ اسے معاملہ فہمی سمجھ لیں یا دور اندیشی‘ عالمی منڈی میں اپنا بھرم بچانے کے علاوہ نہ صرف اندرونی مزاحمت کو منٹوں میں ختم کر ڈالا بلکہ قطر سمیت اُن دیگر ملکوں کو بھی بروقت بچا لیا جہاں امریکہ کے فوجی اڈے ہیں۔ اس جنگ بندی پر شادیانے بجانے والے ہوں یا بغلیں بجانے والے‘ سبھی خاطر جمع رکھیں! یہ جنگ بندی محض ایک وقفہ ہے جو مصلحتوں سے مجبور ہو کر لیا گیا ہے۔ اس وقفے کے دوران ایران کی جنگی حکمتِ عملی اور ٹیکنالوجی سمیت ان سبھی پہلوؤں پر غور و خوض کیا جائے گا جن کی وجہ سے ایران کا دفاع ناقابلِ تسخیر بن کر سامنے آیا ہے۔
ایرانی حملوں سے اسرائیل میں ہونے والی تباہی و بربادی کے علاوہ شدید عوامی ردِعمل اس جنگ کو بڑھاوا دینے میں بدستور حائل ہے۔ ان سبھی ناموافق حالات کے پیش نظر ہوش مندی اور عقل و دانش کا یہی تقاضا تھا۔ ممکن ہے صدر ٹرمپ نے سرزنش کے دوران نیتن یاہو کے کان میں سرگوشی بھی کر ڈالی ہو‘ اپنی عزت اور میرا بھرم دونوں مزید داؤ پر لگانے کے بجائے خاموشی اختیار کرو‘ اگلی بار سارا حساب چکائیں گے۔ ایران نے امریکہ کو جنگی معاونت فراہم کرنے والے ممالک کی طرف میزائلوں کا رُخ کیا کِیا خلیجی ممالک میں کہرام مچ گیا۔ سائرن بجا کر ریڈ الرٹ جاری کر دیے گئے‘ ان ملکوں کے حکمرانوں کا واویلا اور شدید ردِعمل بھی ٹرمپ کیلئے اضافی دردِ سر بننے جا رہا تھا۔ ایسے میں جنگی وقفے کے بعد نئی حکمتِ عملی اور نئی تیاری کے ساتھ نئے روپ بہروپ کے لیے تیار رہیں۔
تیسری عالمی جنگ کو ٹالنے کا سہرا سر پہ سجائے ٹرمپ بہادر کے اردگرد کافی شہ بالے بھی نازاں اور شاداں ہیں۔ شہباز شریف نے سعودی ولی عہد اور ایرانی صدر کو خیرسگالی کا فون کر کے پاکستانی کردار کی تعریف وصول کی ہے۔ فیلڈ مارشل کے امریکی دورے کے بعد کابینہ اور پارلیمان کا کردار غیرمتعلقہ اور دھندلا سا گیا ہے۔ ایسے میں خیر سگالی ٹیلیفونک رابطے اور تعریفیں سمیٹنا ہی دِل بہلانے کا اچھا مشغلہ ہے۔ اس جنگی کہانی کا عارضی خلاصہ بس یہ ہے کہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ اس عارضی خوشی کا دورانیہ تو جیسے تیسے بڑھایا جا سکتا ہے لیکن اس کے حتمی انجام کو کیسے ٹالنا ہے یہ ایک معمہ اور کڑا سوال ہے۔
جنگی محاذ پر مملکتِ خداداد کی مصروفیات اور کارکردگی کا گراف تو بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ کچھ احوال سیاسی پینتروں سمیت بدلتے تیوروں اور طرزِ حکمرانی کا بھی ہو جائے۔ کئی دہائیوں سے سیاسی اُفق پر اہم کردار کے حامل جہانگیر ترین کے ایک بار پھر اہم ترین ہونے کی خبریں گرم ہیں۔ اپنے برادرِ نسبتی اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کے ساتھ نئے سیاسی سفر کے آغاز کا عندیہ برابر مل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں صدر آصف علی زرداری کے لاہور میں طویل قیام کے دوران پاور شو کا منصوبہ ادھورا رہ گیا تھا‘ جس میں ایک مخصوص جماعت سے تعلق رکھنے والے الیکٹ ایبل سمیت کئی دیگر کی پیپلز پارٹی میں شمولیت طے تھی لیکن پھر کسی مصلحت کے تحت بات اشاروں کنایوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ دوسرے مرحلے میں بہتر حکمت عملی کے ساتھ جہانگیر ترین کو کوئے سیاست میں واپس لاکر پیپلز پارٹی پنجاب میں میدان گرما سکتی ہے۔ حکومتی حلیف ہونے کے باوجود سیاست کو خیرباد کہنے والے جہانگیر ترین کی جانب سے مخدوم احمد محمود کی فرمائش کو رد کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں رحیم یار خان اور لودھراں سمیت جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی پیپلز پارٹی کی پوزیشن نہ صرف مستحکم ہو گی بلکہ آئندہ انتخابی معرکے میں بہتر نتائج کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے تختِ پنجاب میں نقب لگانے کی خبر بھی اُڑا رہے ہیں لیکن لمحۂ موجود تک اس میں دم نظر نہیں آتا۔ آنے والے کل تک ان بے جان خبروں میں جان پڑ جائے تو جہانگیر ترین اہم ترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سیاست کے اَسرار و رموز سے لے کر جوڑ توڑ اور حکومت سازی کے لیے جادوئی مہارت رکھنے والے ترین صاحب پیپلز پارٹی کا پنجاب میں حکمرانی کا دیرینہ خواب پورا کر سکتے ہیں۔ سیاست کی ہانڈی کے سبھی آزمودہ مسالے اور ترکیبیں ان کے پاس پہلے ہی موجود ہیں۔ یہ بریک تھرو عین اس وقت ہونے جا رہا ہے جب آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے حکومتِ پنجاب پر کھربوں روپوں کی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا کڑا سوال اٹھایا گیا ہے جبکہ حکومت اپنے دفاع میں تاحال لاجواب دکھاتی دیتی ہے۔ ایوانوں اور ٹاک شوز میں اپوزیشن اس آڈٹ رپورٹ کو لے کر خوب واویلا مچائے ہوئے ہے۔ کرپشن کی ریڈ لائن کا رنگ کب بدلا‘ کس نے بدلا یہ معمہ تو حکومت ہی حل کر سکتی ہے کیونکہ کھربوں کی بے ضابطگیوں پر طوفان اٹھانے والے ماضی کے اوراق پلٹیں تو انہیں معلوم پڑے کہ یہ واردات نہ اَنہونی ہے اور نہ ہی کوئی نئی۔ ہمارے ہاں بد ترین طرزِ حکمرانی اور لوٹ مار کے سابقہ ریکارڈز ریکارڈ مدت میں توڑنے کی بدعت ہر دور میں دوام پکڑتی چلی آئی ہے۔ انصاف سرکار نے خادمِ اعلیٰ کے ریکارڈ چکنا چور کیے تو نگرانوں نے انصاف سرکار کے سبھی ریکارڈوں کی دھول پہلے سو دِن میں اُڑا ڈالی تھی۔ اور اب تو سبھی پرانے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ شوقِ حکمرانی میں ایسے ریکارڈز ہمیشہ سے بنتے اور ٹوٹتے چلے آئے ہیں اور آئندہ بھی بنتے اور ٹوٹتے رہیں گے۔ سرخ لکیر سبز اور نیلی پیلی ہو کر رنگ بدلتی رہے گی۔
اَکھ دا چانن مر جاوے تے
نیلا‘ پیلا‘ لال برابر
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved