دو مئی 1860ء کو پیدا ہونے والا تھیوڈور ہرتزل ایک آسٹریائی صحافی‘ ڈرامہ نگار‘ سیاسی کارکن اور مصنف تھا‘ جو بابائے جدید سیاسی صہیونیت بھی کہلاتا ہے۔ ہرتزل نے ایک صہیونی تنظیم قائم کی اور یہودی ریاست کے قیام کیلئے فلسطین کی جانب یہود کی ہجرت کی بھر پور حمایت اور تائید کرتا رہا۔ اگرچہ وہ اس ریاست کے قیام سے پہلے تین جولائی 1904ء کو مر گیا لیکن وہ بابائے ریاست اسرائیل کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ تھیوڈور ہرتزل نے 1897ء میں زیورخ میں پہلی صہیونی کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس میں واضح طور پر کہا گیا کہ ہمیں دنیا میں ایک یہودی ریاست قائم کرنی ہے اور فلسطین ہمارا قدرتی حق ہے۔ یہ نظریہ یورپ اور خاص طور پر برطانیہ کی پشت پناہی سے ایک سیاسی تحریک میں تبدیل ہو گیا۔ 1917ء میں برطانیہ نے بالفور ڈکلیئریشن جاری کیا‘ جس کے بدلے ہی یہودیوں نے عالمی جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ بالفور ڈکلیئریشن میں کہا گیا تھا کہ ہم فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک قومی وطن کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک سادہ کاغذ پر لکھے گئے انگریزی کے 67 الفاظ پر مشتمل اس ایک پیرا گراف نے یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کرکے عرب دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل ڈالی۔ مشرق وسطیٰ میں ایک ایسے تنازع کا آغاز ہوا جو اَب تک حل نہیں ہو سکا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تاحال جاری اس تنازع کے دوران ہزاروں اسرائیلی ہلاک‘ لاکھوں فلسطینی شہید اور فلسطین کھنڈر بن چکا ہے۔
آج بالفور اعلامیہ کو 108 سال بیت چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کو جنم دیا اور عرب اس دستاویز کو 'برطانوی دغا‘ سمجھتے ہیں کیونکہ سلطنتِ عثمانیہ کو شکست دینے میں انہوں نے بھی برطانیہ کا ہی ساتھ دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کے فوری بعد تقریباً ایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے۔ یہودیوں کی ریاست کے قیام کیلئے سرمایہ کاری اور زمین کی خریداری کا سب سے بڑا ذریعہ ''چائلڈ کاخاندان‘‘ تھا۔ اس یہودی خاندان کے ذریعے فلسطین میں بڑی تعداد میں زمین خریدی گئی اور اس سے 19ویں صدی کے اختتام تک یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے میں مدد ملی۔ برطانیہ سمیت دنیا بھر میں یہودی کمیونٹی معاشی اثر و رسوخ رکھتی تھی اور خصوصاً عالمی سرمایہ کاری میں بااثر ہونے کی وجہ سے برطانیہ کو ان کی مدد درکار تھی۔ برطانیہ نے جنگ عظیم کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کیلئے یہ اقدام کیا۔ اس دستاویز میں فلسطینیوں کا نام تک نہیں لیا گیا اور انہیں فلسطین کی 'غیر یہودی آبادی‘ کے نام سے پکارا گیا۔
خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلم دنیا قیادت سے محروم ہو چکی تھی اور مردِ بیمار بن کر گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔ یورپ بھر سے یہودی یہاں آکر آباد ہونے لگے۔ یہودی فلسطین کو اپنے لیے مقدس سرزمین سمجھتے تھے۔ فلسطین میں یہودیوں کی دھڑا دھڑ آمد پر 1930ء میں عرب آبادی نے تشویش کا اظہار کیا تو برطانیہ نے یہودیوں کی آمد پر چند پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب یورپ میں ہٹلر کی جرمن نازی فوج کے ہاتھوں لاکھوں یہودیوں کا قتلِ عام (ہولوکاسٹ) ہوا۔ زندہ بچ جانے والے یہودی یورپ سے فلسطین میں آباد ہو رہے تھے۔ مصر‘ عراق اور اردن پر برطانیہ اور شام پر فرانس کا قبضہ تھا‘ باہمی اختلافات‘ مسلکی تقسیم اور حکمرانوں کی عیش پرستی نے انہیں اس قابل ہی نہ چھوڑا تھا کہ وہ فلسطین کے مسئلے پر متفق ہو سکتے۔ 1920ء سے 1947ء تک‘ فلسطین میں یہودی آبادی کا تناسب 10فیصد سے بڑھ کر 33فیصد تک پہنچ چکا تھا۔
اقوامِ متحدہ نے 1947ء میں فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ گیا۔ یہ تجویز مسلمانوں کیلئے ناقابلِ قبول تھی مگر اسرائیلیوں نے اس منصوبے کو فوراً قبول کر لیا۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم‘ ڈیوڈ بن گوریان نے 14مئی 1948ء کو ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ اس کے اگلے ہی دن اُردن‘ مصر‘ شام‘ عراق اور لبنان کی افواج نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ لیکن جو ہونا تھا وہی ہوا۔ عرب ممالک کی جنگی حکمت عملی بکھری ہوئی تھی‘ افواج جدید اسلحہ سے محروم تھیں۔ اسرائیل نے نہ صرف اس حملے کو روکا بلکہ مزید فلسطینی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ مغربی کنارہ اور غزہ بچا‘ جس پر اُردن اور مصر کا کنٹرول رہا۔ تقریباً آٹھ لاکھ فلسطینی اس دوران اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے۔ ان میں سے اکثر آج بھی اُردن‘ لبنان‘ شام اور دیگر ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ عرب دنیا یہ جنگ ہاری کیوں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ ملک نئے نئے آزاد ہوئے تھے‘ سیاسی نااتفاقی تھی۔ سب کے اپنے مفادات تھے اور کوئی مشترکہ کمانڈ نہیں تھی۔ اسرائیل کے پاس جدید ہتھیار‘ فرانسیسی حمایت اور یورپی اسلحہ تھا‘ جبکہ عرب ممالک نے محض جذباتی نعروں پر جنگ لڑنے کی کوشش کی۔ امریکہ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں صرف 11 منٹ لیے۔ برطانیہ نے فلسطین سے جاتے جاتے اسرائیل کو مکمل انتظامی ڈھانچہ دیا۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے مالی و عسکری امداد فراہم کی۔اسرائیل اور عربوں کے مابین 1948ء کے بعد مزید تین جنگیں 1956ء‘ 1967ء‘ اور 1973ء میں ہوئیں مگر نتیجہ پہلے والا ہی رہا۔ عرب دنیا کو شکست‘ اسرائیل کا پھیلاؤ اور فلسطینیوں کا مزید بکھراؤ۔ 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم‘ مغربی کنارہ‘ غزہ‘ گولان کی پہاڑیوں اور صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ صرف چھ دنوں میں اسرائیل نے تین عرب ممالک کو شکست دی۔ 1973ء میں عربوں نے اسرائیل سے ایک مشترکہ جنگ لڑی‘ جس میں مصری بڑی بہادری سے لڑے‘ شام کے صدر حافظ الاسد اپنی فوج کو مضبوط کرکے گولان کی پہاڑیوں کے ایک حصے کو واپس لینے میں کامیاب ہو گئے لیکن پھر آہستہ آہستہ اسرائیل نے امریکہ کو اپنی دفاعی چھتری بنا لیا اور آج تک اس کی چھاؤں میں بیٹھا ہوا ہے۔
آج اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کی سب سے بڑی غلطی اتحاد کی کمی اور جدید ٹیکنالوجی کا نہ ہونا تھا۔ مسلمان ممالک نے کبھی متحد ہوکر ایک پلیٹ فارم سے اسرائیل کی مخالفت نہیں کی۔ او آئی سی جیسے ادارے صرف بیانات تک محدود رہے۔ کوئی عملی اقدامات نہ ہوئے۔ مغرب نے ایک منصوبہ بنایا اور اسے بڑی حکمت سے آگے بڑھایا۔ پہلے نظریاتی جنگ‘ پھر سیاسی حمایت اور آخر میں بزور طاقت عسکری قبضہ کر لیا جبکہ مسلم اُمہ وسائل کے باوجود جذباتی‘ غیرمنظم اور بکھری ہوئی رہی۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اب اسرائیل فلسطین پر قبضہ کرنے کے بعد برادر مسلم ملک ایران پر چڑھ دوڑا اور دس روز تک مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کرتا رہا۔ ایران سے بھی اپنے دفاع میں جو کچھ بن پڑ رہا‘ کیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان‘ ترکیہ اور سعودی عرب سمیت دیگراسلامی ممالک نے ایران کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ دیر آید درست آید والا معاملہ ہے۔ اللہ کرے باقی مسلم ممالک کو بھی ہمت‘ جرأت اور ہدایت نصیب ہو اور وہ کتابِ ہدایت کی روشنی میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں کیونکہ اسلامی ممالک کے خلاف اسرائیلی پیش قدمی کو روکنے کیلئے اب اتحاد کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کیلئے پاکستان کو آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ اس وقت پاکستان کو خطے میں اللہ کے فضل و کرم سے یہ کردار مل چکا ہے۔ اسرائیل کے اسلامی ممالک کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا ناگزیر ہے۔
ہر لحظہ اس کے پاؤں کی آہٹ پہ کان رکھ
دروازے تک جو آیا ہے اندر بھی آئے گا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved