تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     29-06-2025

بے رحم موجیں‘ بے حس حکمران

سوات میں سیاحوں کے ساتھ پیش آنے والے المناک واقعے نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا۔ حادثے کی شب بالائی سوات میں رات بھر موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے دریائے سوات بپھرگیا۔ دریا کے اندر ایک ٹیلے پر موجود سیاح اس صورتحال سے بے خبر تھے کہ اچانک پانی کی سطح تیزی سے بلند ہوئی جس نے لمحوں میں سیلابی شکل اختیار کر لی۔ مقامی لوگ تو پہاڑی علاقوں میں ہونے والی بارشوں سے واقف ہوتے ہیں مگر سیاحوں کو اس کی شدت کا اندازہ نہ تھا۔ فضا گٹ کے قریب سوات بائی پاس پر ایک ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے 18سیاحوں کا ایک گروپ دریا کی دلکش فطرت کا نظارہ کرنے اور تصویریں لینے کیلئے گیا۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات ثابت ہوں گے۔ اچانک دریا میں ایک خوفناک سیلابی ریلا آ گیا جو اپنے ساتھ ہر چیز بہا لے گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اور منظر عام پر آنے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس ریلے کی زد میں آنے والے سیاح‘ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے‘ لمحوں میں دریا کی بے رحم موجوں کے بیچ پھنس گئے۔ وہ ایک ٹیلے پر بے بس کھڑے تھے اور موت کو اپنی طرف بڑھتا محسوس کر رہے تھے۔ ذرا اس خوف اور دہشت کا تصور کیجیے جب آپ کی آنکھوں کے سامنے زندگی کی آخری امید بھی پانی کی نذر ہو رہی ہو اور آپ مدد کے لیے پکار رہے ہوں لیکن آپ کی آواز پانی کے شور میں دب جائے اور کوئی مدد کو نہ پہنچے۔ بالآخر وہ ٹیلہ سیلابی ریلے کی طاقتور لہروں کی تاب نہ لا سکا اور ان تمام افراد کو اپنے ساتھ لے کر دریا کی گہرائیوں میں غرق ہو گیا۔ سیاحوں کی چیخیں‘ ان کی آہیں‘ سب کچھ سیلاب کی بے رحم موجوں میں کھو گیا۔ انتظامیہ اور سرکاری مشینری متحرک ضرور ہوئی مگر سیاحوں کو بچانے کیلئے نہیں بلکہ اس سانحے کے بعد ان کی لاشیں تلاش کرنے کیلئے۔ جب یہ افسوسناک حادثہ پیش آیاصوبے کے وزیراعلیٰ اسلام آباد میں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ جب پری مون سون بارشوں اور سیلاب سے متعلق ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے برملا کہا کہ ان کا کام تمبو دینا نہیں‘ متعلقہ ادارے کام کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ریسکیو ادارے نے بھی مایوس کیا۔ اس ادارے کا عملہ‘ گاڑیاں حتیٰ کہ ایمبولینسز سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کی جاتی رہی ہیں مگر اس ادارے کا جو اصل مقصد ہے اس کیلئے نہ عملہ دستیاب ہے‘ نہ ہی شہریوں کے ریلیف کیلئے اس ادارے کے پاس وسائل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ حادثات کو روکا نہیں جا سکتا لیکن تدبیر کر کے حادثات اور ان کے نقصانات کو کم تو کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہم نے حادثات کو کم کرنے کی حد تک کوئی تدبیر کی؟ ہر سانحہ اپنے پیچھے کچھ سوالات چھوڑ جاتا ہے جس کے جواب تلاش کرکے آئندہ حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ کیا ہم نے پہلے حادثات کی وجوہات جاننے اور اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی؟ قومیں حادثات سے سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں مگر ہم ایک حادثے سے سیکھنے اور بچاؤ کے اقدامات کرنے کے بجائے بیان بازی تک محدود رہتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی آمدن میں سیاحت اہم ذریعہ ہے مگر سیاحوں کی حفاظت اور آگاہی کیلئے اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے؟ سوات جیسے علاقوں میں‘ جو اس سے پہلے بھی قدرتی آفات کا شکار ہو چکا ہے‘ غیرقانونی تعمیرات حادثات کی بڑی وجہ ہیں۔ قدرتی آبی گزرگاہوں اور خاص طور پر دریا کے پاٹ میں ہوٹل‘ ریسٹورنٹس اور دیگر عمارتوں کی تعمیر سیلاب کی صورت میں تباہی کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ جب شدید بارشوں کے باعث دریاؤں میں پانی کا بہاؤ بڑھتا ہے تو یہ غیرقانونی ڈھانچے جانی و مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان غیر قانونی عمارتوں کی دریا کی حدود میں تعمیر کی اجازت کس نے دی؟اس کا سیدھا جواب حکومت اور مقامی انتظامیہ کی نااہلی اور بدعنوانی ہے۔ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور بعض اوقات ملی بھگت سے ان تعمیرات کی اجازت دی جاتی ہے یا ان پر آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔ اس نااہلی کی سب سے بڑی سزا عوام اپنی قیمتی جانوں اور املاک کی صورت میں بھگتتے ہیں۔
دوسری غلطی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے سیاح کرتے ہیں‘ انہیں مناسب آگاہی فراہم کرکے نقصانات سے بچایا جا سکتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں سیلاب میدانی علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ تباہ کن ہوتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں سیلابوں کی شدت کی بنیادی وجہ یہاں کا جغرافیہ ہے۔ پہاڑی ڈھلوانوں کے باعث پانی انتہائی تیز رفتاری سے نیچے آتا ہے جس سے اس کا بہاؤ تباہ کن حد تک بڑھ جاتا ہے۔ یہ تیز بہاؤ اپنے ساتھ بڑے پتھر‘ مٹی اور ملبہ بہا کر لاتا ہے جو راستے میں آنے والی ہر چیز کو پاش پاش کر دیتا ہے۔ شمالی علاقوں کی طرف جانے والے سیاحوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پہاڑی علاقوں میں اچانک سیلاب آتے ہیں جن کی پیشگوئی مشکل ہوتی ہے اور یہ اتنی تیزی سے آتے ہیں کہ انسان کو سنبھلنے کے لیے بسا اوقات چند سیکنڈ کا وقت بھی نہیں ملتا۔ میدانی علاقوں کے سیاح اکثر پہاڑی علاقوں کے اس خطرناک فرق کو سمجھ نہیں پاتے اور دریا اور ندی نالوں کے بہت قریب چلے جاتے ہیں یا موسمیاتی تبدیلیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں‘ جو ان کی جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
سوات میں سیاح فیملی کے ساتھ پیش آنے والے سانحے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے بروقت کوششیں کیوں نہیں کی گئیں؟ یہ بات حیران کن ہے کہ 2022ء کے تباہ کن سیلابوں کے باوجود‘ جنہوں نے سوات سمیت پورے صوبے میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی تھی‘حکومت نے حفاظتی انتظامات اور ریسکیو صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ برسوں سے صوبے میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے‘ اس دوران سیاسی سرگرمیوں کو عوامی تحفظ اور فلاح پر فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ صوبائی حکومت اس ضمن میں وسائل کا رونا روتی ہے۔ لیکن کیا وسائل کی کمی کا جواز پیش کر کے اپنے فرائض سے بری الذمہ ہواجا سکتا ہے؟ یہ درست ہے کہ عوام کیلئے ریسکیو اور ریلیف کے انتظامات کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے لیکن اگر صوبائی حکومتیں اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہیں یا وسائل کی کمی کا شکوہ کریں تو کیا وفاق ایسی مشکل صورتحال میں شہریوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا؟ اس اہم سوال‘ جو کہ ایک آئینی اور اخلاقی فرض بھی ہے‘ کا جواب ریاست کو دینا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری‘ چاہے وہ کسی بھی صوبے یا علاقے سے تعلق رکھتا ہو‘ اس کی جان کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ ایسے میں وفاق کو عملی کردار ادا کرنا چاہیے۔ سیاحوں کے ساتھ پے در پے ناخوشگوار واقعات پیش آنے کے بعد یہ انتہائی ضروری ہے کہ وفاق کی سرپرستی میں ایک ایسی قومی ٹاسک فورس تشکیل دی جانی چاہیے جو ہر قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس ٹاسک فورس کی اولین ذمہ داری ملک بھر میں شہریوں کی جانوں کو محفوظ بنانا ہو۔ اس فورس کو جدید ترین آلات اور انتہائی تربیت یافتہ افرادی قوت سے لیس کیا جائے تاکہ کسی بھی آفت کی صورت میں فوری اور مؤثر کارروائی ہو سکے۔ جب کوئی صوبائی حکومت وسائل کی کمی کا شکار ہو یا کسی اور وجہ سے ناکام ہو جائے تو یہ وفاقی ٹاسک فورس بغیر کسی تاخیر کے ایکشن میں آئے تاکہ آئندہ کسی بھی شہری کو صرف حکومتی غفلت یا وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ نہ دھونا پڑیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved