دنیا کے کئی شہر ہیں جو دائمی خوشبو کی مانند ہمارے دل میں بستے ہیں۔ نیویارک ان میں سرفہرست ہے۔ دنیا کا ہر بڑا شہر منفرد ہے‘ اس کی اپنی تاریخ‘ ثقافت‘ علمی اور ادبی رنگ ہیں۔ کبھی شہروں کے درمیان ہم نے مقابلے بازی نہیں کی۔ آج کے جدید شہروں پر کسی ایک نسلی‘ لسانی یا مذہبی گروہ کی اجارہ داری نہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں آزادی اور روزگار کی تلاش میں دور دراز کے دیہی علاقوں سے لوگ نئی معیشت کی ضرورت پوری کرنے کی غرض سے آباد ہونے لگے۔ امریکی شہر تو شروع میں کسی ایک لسانی گروہ نے آباد کیے تھے یا ان کا تعلق کسی مخصوص یورپی ملک‘ علاقے یا فرقے سے تھا۔ نیویارک کو ڈچ آباد کاروں نے بسایا تھا‘ اور اس کا پہلا نام نیو ایمسٹرڈیم رکھا گیا‘ بعد میں انگریزوں نے غلبہ حاصل کیا تو یہ نیویارک میں تبدیل ہو گیا۔ بڑے بڑے شہر گوروں کی کالونیاں تھیں اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے سیاہ فام اور ہسپانوی جنوبی اور جنوب مغربی ریاستوں کے مضافات میں گوروں کی زمینوں پر کاشت کاری کرتے تھے۔ یہ زنجیریں 19ویں صدی کی آخری دہائی میں ٹوٹیں تو ان کا رخ شمالی ریاستوں کے شہروں کی طرف ہو گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب نیویارک‘ فلاڈیلفیا اور دیگر شہروں کی نسلی آبادیوں کے درمیان توازن تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ یورپی آبادکار امریکی باشندوں کو تشدد‘ جنگوں اور طاقت کے قانونی حربوں سے اپنی آبادیوں سے دور رکھنے کی غرض سے انہیں مغرب کی طرف صحراؤں میں دھکیلتے گئے۔ تب ایک امریکی صدر نے کہا تھا کہ غیر مہذب لوگ مہذب آبادیوں کے قریب نہیں رہ سکتے۔ سیاہ فام اور دیگر‘ جنہیں وہ رنگ دار کہتے ہیں‘ اگرچہ سب کی آبائی ملکوں کے حوالے سے اپنی شناخت بھی ہے اور بڑے جغرافیائی خطوں سے بھی نسبت ہے‘ نیویارک میں آنا شروع ہوئے تو متمول سفید فام آبادیوں نے مضافات میں اپنی کالونیاں بنانا شروع کر دیں۔ جائیدادوں‘ بڑے کاروباروں‘ صنعت وتجارت اور شہری سیاست پر ان کی اجارہ داری قائم رہی۔
شہری جمہوریت‘ جسے یہاں عام طور پر ہم مقامی حکومتیں کہتے ہیں‘ جمہوریت کا بنیادی ستون اور روح ہے۔ امریکہ میں تو جمہوریت اور حکمرانی کی ابتدا ہی بلدیاتی اور دیہی حکومت سے ہوئی ہے۔ وہاں شہروں پر ہمارے وزرائے اعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور موروثی خاندان‘ سیاسی وڈیروں کا غلبہ نہیں بلکہ شہری حکومت ریاستی اور وفاقی حکومت کی طرز پر اپنا وجود رکھتی ہے۔ اس کا میئر‘ سٹی کونسل‘ سکولوں اور کالجوں کا نظام‘ پولیس‘ عدالتیں شہر کی طے شدہ حدود کے اندر حکومتی فرائض انجام دیتے ہیں۔ ہماری سیاست اوپر سے نیچے تک بہت ہی سادہ اور آسان فہم ہے۔ آپ کا تعلق ایک تگڑے سیاسی خاندان سے ہو یا آپ متوسط طبقے سے ہیں‘ خوشامدی بن جائیں‘ ہرکاروں کا کردار ادا کریں تو آپ کے لیے گنجائش نکل سکتی ہے کہ بادشاہوں کو پیادوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اس سے بھی آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ کے پاس دولت ہے اور اس کا تحفظ اور کچھ اپنی شناخت چاہیے تو اس کو سیاسی کاروبار میں لگائیں‘ پارٹی فنڈ میں حسبِ فرمائش چندہ جمع کروائیں‘ بڑھ چڑھ کر بولی لگائیں اور آپ کسی اعلیٰ ایوان میں اپنی جگہ بنا لیں۔ ہمارے ہاں ایک سو سال سے‘ اگر ہم انگریز دور کی ذمہ دار حکومتوں کے تجربے کو شامل کریں‘ تو اس گرتے پڑتے اور زخمی جمہوری نظام میں کسی بھی عہدے کے لیے نامزدگی ووٹرز نہیں‘ سیاسی وڈیرے کرتے ہیں۔ ہم جیسے طبقے سے تعلق رکھنے والوں اور ہم سے اہل لوگوں کے لیے وہاں کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
کچھ باتیں اپنے آسان باش نظام کی طرف اشارہ کر کے اس لیے کہی ہیں کہ آپ کو کچھ اندازہ ہو کہ امریکی شہری‘ ریاستی اور وفاقی حکومتوں کے میدان سب کے لیے کھلے ہیں۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ کوئی سیاہ فام اور ایک یتیم بچہ بڑا ہو کر اپنا نام صدر براک حسین اوباما لکھے گا‘ اگرچہ بعد میں یہ مڈل نام سیاست میں دب کر رہ گیا۔ جب سے یہ خبر آئی کہ ظہران ممدانی پہلے مسلم ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے میئر کے عہدے کے لیے نامزد ہوئے ہیں‘ نیویارک واقعی ایک زندہ شہر ثابت ہوا۔ اس شہر سے ہماری برسوں کی محبت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ وہاں بادشاہو‘ شہنشاہو اور میرے عزیز ہم وطنو کی آواز کبھی سنائی نہیں دی۔ اور جمہوریت ایسی کہ جہاں مسلمانوں اور جنوبی ایشیائی باشندوں کی آبادی آٹے میں نمک کے برابر ہو‘ وہاں یہ 33 سالہ نوجوان نیویارک ریاست کے سابق گورنر اینڈریو کومو کو شکست دیتا ہے۔ گورنر کومو کے والد بھی اس ریاست کے گورنر رہے اور ان کی اطالوی آبادی اس شہر میں کئی حوالوں سے طاقتور خیال کی جاتی ہے۔ ایک اور اہم بات کہ نامزدگی کی مہم کے دوران ظہران ممدانی نے کھل کر غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کی مخالفت کی ہے۔ پورے وثوق اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنی مخالفت انہوں نے صہیونیت اور اس کی فلسطینیوں کے خلاف درندگی کی کی ہے‘ دنیائے اسلام کے کسی حکمران نے نہیں کی۔ ہمارے ہاں جو درباری دانشور منہ سے جھاگ اڑاتے کہتے رہتے ہیں کہ سیاست میں اخلاقیات کا کوئی دخل نہیں‘ وہ صرف اپنے آقاؤں کے مظالم اور غلط کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسا کہتے ہیں۔ ظہران کی اخلاقی جرأت کو دیکھیں کہ یہودی آبادی‘ جو اطالویوں سے بھی زیادہ نیویارک میں طاقتور ہے‘ کے سامنے کسی مصلحت سے کام نہیں لیا۔
جہاں ظہران ممدانی کی نظریاتی ساخت‘ جس پر ان کے والد محترم پروفیسر محمود ممدانی‘ جو کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں‘ اور ان کی والدہ میرا نائر‘ جو ایک معروف فلمساز ہیں‘ کی گہری چھاپ اور ان کا گہرا اثر ہے وہاں نیویارک کے آزاد رو شہریوں کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ ہر تعصب سے ہٹ کر انہوں نے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ یہودیوں میں سے بھی بہت سوں نے ظہران کی حمایت کی ہے۔ خدا کے لیے اپنے قنوطی فتوے اپنے پاس رکھیں‘ کہیں ظہران ممدانی کو بھی یہودیوں کا ایجنٹ نہ قرار دے دینا کہ ہماری روایت یہی ہے کہ جسے عوام کی تائید حاصل ہو اسے گندا کرنے کے لیے کوئی بھی الزام دھرنا ہماری سیاست میں جائز ہے۔ یہ تو دور کی بات ہے کہ ظہران‘ جس کے خلاف پوری کنزرویٹو نظریاتی اور سیاسی طاقتیں اکٹھی ہو رہی ہیں‘ نیویارک کے میئر منتخب ہوں گے یا نہیں۔ یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی خبر سنتے ہی اسے پاگل کمیونسٹ کہہ کر گولا باری شروع کر دی ہے۔ کیا بات ہے کہ کوئی مسلمان خاندان ہندوستان کے کسی کونے سے اٹھتا ہے‘ مشرقی افریقہ میں آباد ہوا‘ تعلیم کی روشنی کے لیے نیویارک کولمبیا یونیورسٹی آیا اور اب اس مقام پر پروفیسر محمود ممدانی پوسٹ کالونیل سٹڈیز میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے علم کی روشنی نے ہمیں بھی کچھ منور کیا ہے۔ ان کی کتا ب ''Good Muslim, Bad Muslim: America, the Cold War, and the Roots of Terror‘‘ میرے سیاسی اسلام کے کورس کے نصاب میں پہلے نمبر پر رہی ہے۔ یہ فتح خود سادات خاندان اور نیویارک کی آزاد سیاست کی ہے۔ آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved