تمام ریاستیں جنگ کو ایک ناپسندیدہ عمل کے طور پر دیکھتی ہیں اور بین الریاستی تنازعات کے پُرامن حل کی ضرورت پر زور دیتی ہیں‘ تاہم انسانی تاریخ اور ریاستوں میں جنگیں ہوتی آئی ہیں‘ اور جو تنازعات کے امن اور خوشگوار حل کی بات کرتے ہیں وہ بھی اپنی مخالف ریاستوں کے ساتھ جنگوں اور مسلح تنازعات میں ملوث رہے ہیں۔ علاقائی اور دو طرفہ مسلح تنازعات کے علاوہ دنیا نے دو عالمی جنگوں کا تجربہ بھی کیا ہے۔
رواں سال مئی اور جون میں ہونے والی دو چھوٹی جنگوں نے اس بات کو نئی جہتیں دی ہیں کہ ریاستیں کس طرح جنگیں لڑتی ہیں اور اس طرح کی جنگیں مستقبل میں علاقائی سیاست کو کس طرح متاثر کریں گی۔ یہ چھوٹی جنگیں پاک بھارت فوجی تصادم (7 تا 10 مئی) اور ایران اسرائیل جنگ (13 تا 25 جون) ہیں‘ جس میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کیلئے امریکہ نے بھی شمولیت اختیار کی۔ ان دو چھوٹی جنگوں کا دلچسپ پہلو امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی اچانک جنگ بندی تھی۔ پاک بھارت جنگ کے معاملے میں امریکہ نے شروع میں لاپروائی کا مظاہرہ کیا مگر جیسے ہی فوجی محاذ آرائی میں شدت آئی‘ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم فوجی محاذ آرائی کو روکنے کیلئے سرگرم ہو گئی۔ امریکی سرپرستی میں جنگ بندی کو بھارتی قبولیت نے اسے پاکستان کے فوجی حملے سے بچا لیا لیکن اس نے داخلی سطح پر مودی حکومت کو ہزیمت سے دوچار کیا کیونکہ بھارتی حکومت نے خود کو ایک بڑی عسکری طاقت کے طور پر پیش کیا تھا جو خطے کی ریاستوں کے ساتھ اپنے معاملات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت نہیں چاہتی تھی۔ بھارتی قیادت عوامی سطح پر یہ تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہے کہ اس نے امریکی سرپرستی میں جنگ بندی کو قبول کیا ہے۔ بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف سخت بیانات بھی جاری کر رہی ہے تاکہ بھارتی عوام کو یہ دکھایا جا سکے کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ لیکن پاکستان کے حق میں صدر ٹرمپ کے بیانات اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے ساتھ ان کی لنچ میٹنگ سے بھارت ناراض ہے۔
25 جون کو اسرائیل اور ایران کے مابین اچانک جنگ بندی بھی اتنی ہی حیران کن تھی۔ ابتدائی طور پر امریکہ نے ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی کی حمایت کی‘ امریکہ نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر فضائی حملہ بھی کیا‘ تاہم جب ایران نے قطر میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا تو امریکہ نے ایران پر انتقامی فضائی حملے نہ کر کے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بجائے اس نے ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا انتظام کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکہ کے فضائی حملے کے بعد فوجی محاذ آرائی اور امن مذاکرات بیک وقت جاری تھے۔
ایران اور اسرائیل کی جنگ نے ایٹمی ہتھیاروں والی دو ریاستوں (امریکہ اور اسرائیل) کی غیر ایٹمی ہتھیاروں والی ریاست کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی ایک خطرناک مثال قائم کی ہے۔ اس مثال کو مستقبل میں کسی دوسرے ملک کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملوں اور تخریب کاری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی کارروائی سے تابکار مواد کے اخراج کا خطرہ رہتا ہے جو صحت اور ماحول کے سنگین مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے ایرانی جوہری تنصیبات پر فضائی حملوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایرانیوں نے اپنی تینوں جوہری تنصیبات سے فیزائل میٹریل منتقل کر لیا تھا۔
ایک اور قابلِ ذکر پیشرفت یہ تھی کہ مغربی میڈیا نے ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کے منصوبے کے بارے میں بار بار بات کی لیکن شاید ہی اس بات کا ذکر کیا ہو کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ اسرائیل نے ایران کے جوہری ماہرین اور اعلیٰ فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنایا اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو بھی قتل کی دھمکی دی۔ حریف ملک کی اعلیٰ فوجی اور سول قیادت کو قتل کرنے کی یہ ایک خطرناک مثال ہے۔
بھارت اور پاکستان کی مختصر مدتی جنگ نے یہ ظاہر کیا کہ جوہری حد سے نیچے دو جوہری ہتھیاروں کی ریاستوں کے درمیان ایک خطرناک فوجی تصادم ہو سکتا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ دونوں ممالک نے تکنیکی طور پر جدید طیارے‘ ڈرون اور میزائل استعمال کیے۔ بھارت نے پاکستان کے فوجی اور سویلین مقامات پر میزائلوں سے حملہ کیا مگر پاکستان نے پیشہ ورانہ اور مؤثر انداز میں جواب دیا۔ پاک فضائیہ نے بھارت کے فوجی انفراسٹرکچر اور طیاروں کو نشانہ بنانے کیلئے جے 10 سی اور (پاک چین مشترکہ منصوبہ) جے ایف 17 تھنڈر طیاروں‘ چینی میزائلوں اور چینی اور ترک ڈرونز کے استعمال میں پیشہ ورانہ مہارت‘ درستی اور رفتار پر انحصار کیا اور بھارت کی برتری کے استکبار وتکبر کو کچل دیا۔ پاکستان نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے پاس اپنی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی بھارت حکمت عملی کو بے اثر کرنے کیلئے جوہری ہتھیاروں سے پہلے کے مرحلے میں بھی بھر پورصلاحیت ہے۔
یہ چھوٹی جنگ پاکستان اور بھارت کے مابین جدید اور ہائی ٹیکنالوجی کے حامل طیاروں‘ میزائلوں‘ ڈرونز اور مواصلات اور ریڈار ٹیکنالوجی کے ساتھ روایتی سکیورٹی کو اَپ گریڈ کرنے کی دوڑ کا سبب بنے گی۔ سائبر جنگ پر بھی توجہ دی جائے گی۔ اس سب کا مطلب اضافی خرچ ہے۔ اب نئی جنگیں 1965ء اور 1971ء کی جنگوں یا 1999ء کی کارگل جنگ سے بہت مختلف ہوں گی۔ علاوہ ازیں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے خلاف اپنے نقطہ نظر کیلئے عالمی حمایت حاصل کرنے کیلئے سفارت کاری کے میدان میں بھی شدت سے مقابلہ کریں گے۔ دونوں ممالک نے مئی‘ جون میں امریکہ‘ برطانیہ اور کچھ یورپی ممالک میں سفارتی وفود بھیجے تھے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ اس نے بھارت اور دیگر جگہوں پر دہشت گردی کی سرپرستی کی۔ حالانکہ پاکستان نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے تعاون کی پیشکش کی اور بھارت سے پہلگام واقعے کے کچھ ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کو کہا۔ پاکستان نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا‘ خاص طور پر سابقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث غیر ریاستی عناصر کو مالی اعانت فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو دہشت گردی اور کشمیر سمیت تمام متنازع مسائل پر بات چیت کی پیشکش بھی کی۔ پاکستان کشمیر اور دیگر مسائل پر امریکہ کی ثالثی کے خیال کی حمایت کرتا ہے‘ تاہم بھارت نے اب تک متنازع امور پر پاکستان کے ساتھ براہِ راست یا بالواسطہ مذاکرات میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
پاکستان کو دہشت گرد ریاست کے طور پر نامزد کرنے کا بھارتی سفارتی منصوبہ بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والا نہیں ہے کیونکہ بھارت کے رہنما عالمی سطح پر اسی بیانیے کو استعمال کر رہے ہیں جو سخت گیر ہندو حامیوں کیلئے بی جے پی کے گھریلو بیانیہ کا حصہ ہے۔ مگر اس طرح کے سامعین بین الاقوامی سطح پر دستیاب نہیں ہیں جیسے بی جے پی کو اندرونِ ملک مل جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا بیانیہ بھارت اور پاکستان کے مسائل کے بارے میں عالمی سوچ سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے جو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مسائل کے پُرامن اور مذاکرات کے ذریعے حل اور کثیر ریاستی تعاون پر زور دیتا ہے۔
بھارت عالمی سطح پر اپنے پاکستان مخالف مباحثے کی پذیرائی نہ ملنے سے تکلیف محسوس کرتا ہے۔ بھارتی سرکاری حلقوں کے سخت بیانات مئی میں اپنے فوجی دھچکے پر قابو پانے کیلئے پاکستان کو فوجی محاذ آرائی میں دوبارہ شامل کرنے کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں امریکہ کے زیر اہتمام جنگ بندی کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved