تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     01-07-2025

ارقم بن عبد مناف رضی اللہ عنہ…(2)

حضرت ارقمؓ نے مال وجان سے ہر جہاد میں حصہ لیا۔ آپؓ خود صاحبِ استطاعت تھے اور آپ کے پاس جہاد کے لیے سارا سامانِ حرب موجود تھا۔ پھر بھی آنحضورﷺ نے اپنی خصوصی محبت کی وجہ سے آپؓ کو ایک تلوار عطا فرمائی۔ حضرت ارقمؓ نے اسی تلوار کے ساتھ ہر معرکے میں حصہ لیا۔ یہ تلوار آپؓ کے بچوں کے پاس بطور تبرک محفوظ رہی۔ بدر واحد‘ خندق وخیبر اور مکہ وحنین کے معرکوں میں آپؓ کی شرکت تاریخ میں منقول ہے۔ غزوۂ عسرہ یعنی جنگ تبوک میں بھی آپؓ نے بھرپور شرکت کی اور رومی فوجوں کے بھاگ جانے کے بعد آنحضورﷺ کے ساتھ وہیں قیام فرمایا۔ ان دنوں میں گرد ونواح کے قبائل کے ساتھ دوستی کے معاہدے بھی ہوئے اور تجار صحابہؓ نے کسی نہ کسی حد تک خرید وفروخت بھی کی۔ آپؓ نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔
حضرت ارقمؓ کو آنحضورﷺ نے جو تلوار عطا فرمائی تھی اس کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ وہ بدر کے مال غنیمت میں سے دی گئی تھی۔ دوسری رائے مؤرخین نے یہ دی ہے کہ وہ آنحضورﷺ کی طرف سے آپؓ کی خدمات کی وجہ سے ہدیہ تھا۔ ہماری رائے میں یہ تلوار آنحضورﷺ کی طرف سے حضرت ارقمؓ کی آغازِ اسلام کے دور سے لے کر ہجرت تک کی خدمات کی وجہ سے آپ کو عطا کی گئی تھی۔ آپ اپنی زندگی میں اس تلوار سے ہر جہاد میں شریک رہے۔ جب بھی اس تلوار کا تذکرہ ہوتا تو آپؓ مسرت محسوس کرتے۔ کبھی کبھار فرطِ جذبات سے آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے تھے۔ آپؓ کی زندگی کے بعد آپ کے بیٹوں کے پاس یہ تلوار آئی تو انہوں نے بھی اسے متبرک ہدیہ سمجھ کر محفوظ رکھا۔
حضرت ارقمؓ ان پچاس صحابہ کرام کے ناموں کا تذکرہ کیا کرتے تھے جو دار الارقم میں آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ ان میں غلام اور مساکین بھی تھے اور بڑے بڑے خاندانوں کے فرزندان بھی۔ عمار بن یاسر اور بلال و خباب سے لے کر مصعب بن عمیر‘ حمزہ بن عبدالمطلب اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم جیسی عظیم قریشی شخصیات نے اسی گھر میں آ کرآنحضورﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے نکال کر جنت کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہونے کی سعادت حاصل کی۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے اس صدقۂ جاریہ کو جو دارِ ارقم کی بدولت عمل میں آیا صاحبِ دار کو بھی بہت اجر عطا فرمایا ہو گا۔
حضرت ارقمؓ حساب کتاب کے بہت ماہر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو انتظامی امور کو ٹھیک انداز میں چلانے کی صلاحیت بھی بخشی تھی۔ نبی اکرمﷺ کو آپ پر بہت اعتماد تھا۔ آپﷺ نے تحصیل زکوٰۃ اور عشر جمع کرنے اور اس کا حساب رکھنے کی ذمہ داری حضرت ارقمؓ کو سونپی۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ارقم کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی حسنات اپنے نامۂ اعمال میں جمع کرنے کا اعزاز بخشا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی رحلت کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ کی بیعت ہوئی تو خلیفۂ رسول نے بھی آپؓ کو اس منصب پر قائم رکھا جو آنحضورﷺ نے آپ کو عطا فرمایا تھا۔ رسول اللہﷺ دارِ ارقم کو جب بھی یاد کرتے تو حضرت ارقمؓ کو دعائوں سے نوازتے۔ ہجرت کرکے جب حضرت ارقمؓ مدینہ منورہ میں آئے تو رسول اللہﷺ نے آپ کو بنی زریق کے محلے میں ایک قطعۂ زمین عطا فرمایا اور کہا کہ آپ اپنا گھر یہاں تعمیر کر لیں۔ یہاں بھی انہوں نے اپنا بہت خوبصورت گھر تعمیر کیا جس میں آنحضورﷺ اور صاحبینؓ اکثر تشریف لاتے تھے۔
حضرت ارقمؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت کے نتیجے میں اسلام قبول کیا تھا۔ عمر میں تفاوت کے باوجود دونوں اصحاب میں مکی دور سے لے کر آخر تک بہت اچھے دوستانہ تعلقات قائم رہے۔ مختلف مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ ابن سعد نے طبقات میں حضرت ارقمؓ کو ساتواں مسلمان قرار دیا ہے۔ ابن حجر نے آپؓ کو دس افراد کے بعد اسلام میں داخل ہونے والے صحابی شمار کیا ہے۔ بہرحال اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آپؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ قبولِ اسلام کے وقت آپؓ کی عمر سولہ سال تھی۔ آپ کی والدہ کا نام امیمہ تھا‘ وہ بھی آپ کے ساتھ مسلمان ہو گئی تھیں جبکہ والد عبد مناف حالتِ کفر ہی میں دنیا سے رخصت ہوا۔
صحابہ کرامؓ میں سے سترہ صحابہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ مختلف اوقات میں انہوں نے قرآن کی آیات لکھیں۔ ان کو کاتبین وحی کہا جاتا ہے۔ حضرت ارقمؓ بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ابتدائی دور میں وحی کو لکھنے کا اعزاز آپؓ کو حاصل ہوا۔ اس دور میں تین چار صحابہ ہی لکھنے کی مہارت رکھتے تھے۔ بعد میں نئے لوگ اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے تو تعداد بڑھتی رہی۔ حضرت ارقمؓ کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ قرآن کے بیشتر حصوں کے حافظ تھے۔ حضرت ارقمؓ کے حالات میں مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مکہ فتح ہونے کے بعد اپنے گھر کے بارے میں آپؓ نے فرمایا کہ یہ اللہ کے نام وقف ہے۔ آنحضورﷺ نے سنا تو فرمایا کہ نہیں! اسے اپنے ورثا کے لیے اپنے پاس رکھو۔ دارِ ارقم کی تاریخ بھی دلچسپ ہے۔ یہ گھر جب تک مسجد حرام کا حصہ نہیں بنا‘ اہلِ ایمان کی زیارت کا مرکز رہا۔ 140ھ میں اس وقت کے عباسی حکمران ابوجعفر منصور نے حضرت ارقمؓ کے پوتوں سے یہ گھر خرید لیا ۔ آپؓ کے پوتے عبداللہ بن عثمان بن ارقم نے یہ سودا کیا اور قیمت میں ملنے والا زر کثیر تمام ورثا کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم کر دیا۔ یہ تاریخی گھر عباسی ملکہ الخیزُران جو ہارون الرشید کی والدہ تھی‘ کو اس کے شوہر خلیفہ مہدی عباسی نے تحفے میں دیا۔ جب یہ گھر ملکہ کے قبضے میں آیا تو پہلی بار اس نے پرانے گھر کو منہدم کرکے وہاں شاندار نیا محل تعمیر کیا۔ بعد میں یہ گھر حرم شریف کے اندر شامل ہو گیا۔ آج بھی واقفانِ حال زائرین حرم کے سامنے اس جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
حضرت ارقم ؓ نے حضور اکرمﷺ کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ادوار میں بھی جہاد میں حصہ لیا۔ پھر اپنی کبر سنی کا زمانہ مدینہ منورہ ہی میں گزارا۔ آپؓ نے تقریباً 84 برس کی عمر میں 53ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ آپؓ نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی کہ آپ کا جنازہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص پڑھائیں۔ اس وقت عشرہ مبشرہ میں سے صرف حضرت سعد ؓبن ابی وقاص ہی زندہ تھے۔ باقی سبھی صحابہ دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ مدینہ سے کچھ فاصلے پر وادیٔ عقیق میں انہوں نے بعض دیگر صحابہ کی طرح اپنا مکان بنا کر وہاں سکونت اختیار کر لی تھی۔ انہیں اطلاع بھیجی گئی تو وہ اپنے گھر سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس دوران جنازہ تیار ہو چکا تھا۔ بنو امیہ کے گورنر مدینہ مروان بن حکم نے حضرت ارقمؓ کے بیٹوں سے کہا کہ جنازے اور تدفین میں تاخیر کیوں کر رہے ہو؟ میں نماز جنازہ پڑھا دیتا ہوں مگر آپؓ کے بیٹے حضرت عبیداللہؓ بن ارقم نے اس کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ جب اس نے دوبارہ اپنی گورنری کے زعم میں یہ بات دہرائی تو بنو مخزوم کے تمام صحابہ اور تابعین حضرت عبیداللہؓ کی تائید میں کھڑے ہو گئے اور سب نے یک زبان کہا کہ حضرت ارقم ؓ کا جنازہ کوئی دوسرا فرد نہیں بلکہ سعد ؓبن ابی وقاص ہی پڑھائیں گے۔ اس دوران حضرت سعدؓ بھی مدینہ پہنچ گئے۔ انہوں نے اپنے دینی بھائی کا جنازہ پڑھایا۔ اس کے بعد اس عظیم صحابیٔ رسول کو مدینہ کے قبرستان جنت البقیع میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
حضرت ارقمؓ کے بعض بچے بچپن میں فوت ہو جاتے رہے۔ آپؓ کی وفات کے وقت آپ کے دو بیٹے عبیداللہ بن ارقم اور عثمان بن ارقم موجود تھے۔ آپؓ کی تین بیٹیوں کا تذکرہ بھی تاریخ میں ملتا ہے۔ ابن ہشام نے ان کے نام حضرت صفیہؓ‘ حضرت امیہؓ اور حضرت مریمؓ بیان کیے ہیں جو سبھی صحابیات تھیں۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved