تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     02-07-2025

سوات کے بہادر نوجوان کہاں گئے؟

سوات میں ڈسکہ کے خاندان کے ساتھ جو حادثہ ہوا ہے‘ وہ اتنا خوفناک اور دل دہلا دینے والا ہے کہ لمبے عرصے تک عوام کے ذہنوں سے نہیں نکلے گا۔ جس طرح پورے خاندان کو دریا نگل گیا وہ مناظر اتنی آسانی سے مٹنے والے نہیں ہیں۔ لیکن پھر مجھے لگتا ہے کہ میں شاید زیادہ ہی حساسیت کا مظاہرہ کر رہا ہوں ورنہ اس ملک میں تو روزانہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جہاں لمحوں میں خاندان اُجڑ جاتے ہیں۔
ملتان کے دوست ناصر محمود شیخ کو ہمیشہ روڈ سیفٹی کا رونا روتے دیکھا کہ کیسے ہر ماہ سینکڑوں نوجوان موٹر بائیک یا دیگر ٹریفک حادثات میں قبروں میں جا لیٹتے ہیں یا پھر عمر بھر کی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں‘ اور گھر الگ تباہ ہوتے ہیں۔ان کے پاس اس حوالے سے جو اعداد و شمار ہیں‘ آپ کے ساتھ شیئر کروں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور آپ اپنے بچوں کو موٹرسائیکل کو ہاتھ تک نہ لگانے دیں۔ وہ یہ اعداد و شمار ہر مہینے کے اختتام پر پنجاب کے ریسکیو ڈپارٹمنٹ سے لیتے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے لگتا ہے کہ سڑکوں پر جو قتل و غارت ہورہی ہے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ لیکن وہی بات کہ اکثر ان حادثات کی وڈیوز نہیں بنتی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو جائیں یا یہ حادثات اچانک ہوتے ہیں اور لوگ مارے جاتے ہیں لہٰذا اس کا اثر کم ہوتا ہے۔ اور پھر جہاں ایک ایسے ملک میں جہاں طالبان کے ہاتھوں اسی‘ نوے ہزار بندے قتل ہونے کے باوجود لوگوں دلوں میں اب بھی ان کے لیے نرم گوشہ ہو تو وہاں سڑکوں پر لوگ مارے جائیں یا دریا میں ڈوب جائیں‘ اس سے کیا فرق پڑے گا۔
اس تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے‘ اسے بھی دیکھنا چاہیے۔ چند برس قبل بہاولپور کے قریب ایک آئل ٹینکر اُلٹ گیا تھا تو لوگ برتن اٹھا کر پٹرول اکٹھا کرنے پہنچ گئے ۔ لاکھ منع کیا گیا کہ آگ لگ جائے گی لیکن وہ نہ مانے۔ پھر وہی ہوا کہ ٹینکر کو آگ لگی جس سے وہاں گرے پٹرول نے آگ پکڑ لی‘دھماکے ہوئے اور دو سو سے زائد افراد موقع پر ہی مارے گئے ۔ یہ بات طے ہے کہ لوگ بھی منع نہیں ہوتے‘ جس کام سے پولیس یا انتظامی ادارے منع کریں وہ ہم نے ضرور کرنا ہے کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ شاید اس کام میں کوئی فائدہ ہے جو پولیس والے ہمیں اٹھانے نہیں دے رہے۔ خیبرپختونخوا انتظامیہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ سیاح ہماری بات نہیں سنتے اور اگر ہم سختی کریں تو وڈیو کلپ بن جاتے ہیں کہ پولیس سیاحوں کو تنگ کررہی ہے۔ لیکن ڈسکہ کے خاندان کے ساتھ پیش آنے والے حادثے میں اور بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ اب تو یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ جائے حادثہ کے قریب ہی دریا کنارے اور کئی ہوٹلوں کی غیرقانونی تعمیر کی اجازت دی گئی۔ نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ ان کا افتتاح کرنے پشاور سے بڑے اہم مشیر وہاں تشریف لائے۔ اب اس کام میں سیاستدان اور بیوروکریٹس ملوث ہوں تو پھر کسی کا کیا بگاڑا جا سکتا ہے۔
ہمارے صحافی دوست عقیل یوسفزئی کے پاس ہوشربا کہانیاں ہیں کہ سوات میں کیسے دریا کھود کر بجری نکالی جاتی ہے اور ان کے پیچھے کون کون طاقتور لوگ ہیں۔ وہ تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کون سے بڑے بڑے ناموں نے سوات میں غیرقانونی ہوٹل تعمیر کر رکھے ہیں جو دریا کے کنارے ہیں۔ دریا کنارے قائم ہوٹلوں کی آمدن دوسرے ہوٹلوں سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ سیاح زیادہ تر وہیں رہنا یا رک کر کھانا پسند کرتے ہیں اور یوں ان کے ریٹ بھی زیادہ ہیں۔ دیکھا جائے تو سوات میں زیادہ سے زیادہ تین ماہ کا سیاحتی سیزن ہوتا ہے۔ کیا وہاں کا ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران تین ماہ کے لیے بھی اپنی ڈیوٹی ٹھیک طور پر سر انجام نہیں دے سکتے؟ وہاں پر ریلیف یا ریسکیو کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ اب یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ سوات سے ریسکیو کی گاڑیاں اور سامان وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے گزشتہ برس نومبر میں پشاور منگوا لیا تھا جسے وہ اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے ساتھ لے گئے تھے۔ وہ سارا سامان اسلام آباد پولیس کے قبضے میں پڑا زنگ آلود ہو رہا ہے۔
ذرا ترجیحات دیکھ لیں کہ ایک طرف گنڈاپور کہتے ہیں کہ ان کے پاس بہت پیسہ ہے اور ان کا صوبہ اب وفاقی حکومت کو قرضہ دے سکتا ہے۔ جناب! آپ کسی کو قرضہ نہ دیں بس سوات اور دیگر علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کی سروسز عالمی معیار کی کر دیں تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں انسانی جانیں بچائی جا سکیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو 2022ء میں آنے والے سیلاب میں سوات میں ہی تقریباً سات نوجوان گھنٹوں دریا میں پھنسے رہنے کے بعد ڈوب گئے تھے۔ انہیں نکالنے کے لیے کوئی ہیلی کاپٹر نہ مل سکا ۔ اگر آپ کو یاد ہو تو امریکی ٹی وی پر ایک سیریز چلتی تھی جو پاکستان میں بھی دیکھی گئی۔ اس کا نام تھا Baywatch۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ سمندر کے قریب ہر جگہ کوسٹ گارڈز تعینات ہوتے ہیں‘ ہیلی کاپٹرز ہوتے ہیں‘ موٹر سے چلنے والے چھوٹی کشتیاں اور ماہر تیراک ہوتے ہیں جو وہاں آئے لوگوں کو مشکل صورتحال میں ریسکیو کرتے ہیں۔ کیا ایسا کوئی تصور ہمارے ہاں آپ نے دیکھا ہے؟ کراچی کے ساحل پر لوگ ڈوب جاتے ہیں یا دریائے سوات میں بہہ جاتے ہیں۔ سب اللہ کی مرضی کہہ کر معاملہ ٹھپ کر دیتے ہیں۔
عقیل یوسفزئی نے تو کھل کر کہا کہ سوات سے ہونے کے ناتے وہ شرمندہ ہیں کہ ایک پورا خاندان سب کی نظروں کے سامنے ڈوب گیا اور سب دیکھتے رہے‘ کھڑے وڈیوز بناتے رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ پشتونوں کے مہمان تھے اور پشتون مہمان نوازی کیلئے مشہور ہیں لیکن اس دفعہ وہ سب ناکام رہے اور ان ڈوبتے بچوں اور خواتین کو کسی نے ریسکیو نہیں کیا۔ ایک اور صاحب طیب علی شاہ نے سوشل میڈیا پر اس واقعہ کے حوالے سے بہت اچھا تبصرہ کیا جو آپ کے دل کو چھو جائے۔وہ لکھتے ہیں کہ کبھی سوات کے نوجوان بہادر اور ماہر تیراک ہوتے تھے۔ زیادہ تراسی دریا کے کنارے رہتے تھے اس لیے وہ تیراکی سیکھ جاتے تھے۔ تیراکی میں ان کی روزی روٹی بھی تھی کیونکہ دریائے سوات بالائی علاقوں سے گزرتا جنگلات کی قیمتی لکڑی بھی اپنے ساتھ بہا کر لے آتا تھا۔ وہ نوجوان دریا میں چھلانگیں لگا کر وہ قیمتی لکڑی نکال کر لاتے اور بعد میں مہنگے داموں بیچتے تھے۔ یوں جہاں اُن بہادر تیراکوں کا یہ مشغلہ تھا وہیں اس میں آمدن بھی ہو جاتی تھی۔ یہ ماہر نوجوان تیراک کسی بھی سیاح کو اس طرح سیلاب میں پھنسا دیکھتے تھے تو بغیر سوچے سمجھے دریا میں کود جاتے اور لہروں سے لڑ کر انہیں نکال لاتے تھے۔ یہ ان کی روایات تھیں جو وہ برسوں سے نبھا رہے تھے۔ لیکن اس دفعہ ایسا کیا ہوا کہ سینکڑوں افراد دریا کنارے اُس خاندان کو موت کے منہ میں جاتا دیکھتے رہے لیکن کسی نے بھی وہ ہمت نہیں دکھائی جو اُن کے بزرگ برسوں سے دکھاتے آئے تھے؟کیا جدید ٹیکنالوجی نے انہیں سست اور بزدل بنا دیا ہے‘ یا ان کا خیال ہے کہ ان لوگوں کو ریسکیو کرنا ان کی ذمہ داری نہیں تھی؟ یہ کام سوات کی ضلعی انتظامیہ کا تھا یا ریسکیو ٹیموں کا‘ ہمیں اس سے کیا لینا دینا‘ ہم تو صرف یہاں وڈیوز بنا کر ٹک ٹاک پر ان مرتے ہوئے انسانوں کی لاشوں پر ویوز لیں گے۔
سوال وہی ہے جو طیب علی شاہ نے پوچھا ہے کہ سوات کے وہ بہادر تیراک نوجوان کدھر گئے جو کبھی پانی کے ہاتھوں یرغمال بنے پردیسیوں کے لیے اپنی جان پر کھیل جاتے تھے؟ شاید موبائل فونز اور ویوز کے کھیل نے بہادروں کا دور ختم کر دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved