تعلیم ایک پیچیدہ عمل ہے جو نہ صرف معاشرتی تبدیلیوں سے متاثر ہوتا ہے بلکہ معاشرے پر اپنے دیرپا اثرات بھی چھوڑتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں تعلیمی سرگرمیوں‘ طریقہ ہائے تدریس اور نظامِ تعلیم میں خاطر خواہ تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ شعبہ تعلیم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بہت سے معاشی‘ سماجی اور سیاسی اثرات نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک تازہ ترین رجحان جس نے تعلیم کو متاثر کیا ہے وہ نیو لبرل ازم ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک معاشی تصور ہے جس کے اجزا میں کھلی منڈی‘ حکومت کی عدم مداخلت‘ لامتناہی منافع اور ملازمین کا استحصال شامل ہیں کیونکہ نیو لبرل ازم کا اولین مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کماناہے اس لیے تمام تر توجہ عمل (Process)کے بجائے پیداوار (Product) پر رہتی ہے۔ نتیجتاً اقدار اور اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
نیو لبرل ازم کا براہِ راست اثر ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظاموں پر ہوا۔ ٹیکنالوجی اور نیو لبرل ازم کے نتیجے میں سامنے آنے والی ثقافت کا تعلیم کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ تکنیکی ذرائع نے تعلیم کے ایک خاص برانڈ کو جنم دیا اور تعلیم کا یہ مخصوص برانڈ تکنیکی عقلیت (Technical Rationality) کی وکالت کرتا ہے۔ کاروباری افراد اور صنعتکاروں کا بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ بننا بظاہر ایک خوش آئند امر نظر آتا ہے لیکن کیا یہ اتنا ہی خوش آئند عمل ہے؟ معروف ماہرِ تعلیم ہل (Hill, 2009) کے مطابق ان صنعتکاروں کے پاس ایک تعلیمی منصوبہ بھی تھا اور تعلیم سے حاصل ہونے والے کاروباری مقاصد بھی۔
پاکستان میں نیو لبرل ازم کے اثرات گزشتہ چار عشروں میں زیادہ واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس دوران نجی تعلیمی اداروں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ملک میں نجی تعلیمی اداروں کی تعداد کم تھی اور انہیں سماجی‘ فلاحی اداروں اور افراد کی سرپرستی حاصل تھی۔ ان اداروں کا مقصد تعلیم عام کرنا تھا نہ کہ مالی فائدہ حاصل کرنا۔ پاکستان میں ایسے نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں جن کا معیار اعلیٰ ہے ‘ لیکن پچھلے کچھ عرصے میں زیادہ تر نجی ادارے کاروباری مقاصد کیلئے بنائے گئے۔تعلیم ایک بڑی صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے جس کی کثیر پیداوار ان اداروں سے کامیاب ہونیوالے طلبہ ہیں۔ نیو لبرل ازم کے اس تعلیمی ماڈل میں اقدار اور اخلاقیات کو اہمیت نہیں۔ کچھ نجی اداروں کا طرۂ امتیاز ان کی ذیلی شاخوں کی تعداد ہے۔ یہ مخصوص صنعتی ماڈل ہے جہاں معیار کا تعین ذیلی کارخانوں‘ زیادہ پیداوار‘ کم خرچ اور زیادہ منافع کی بنا پر ہوتا ہے۔اداروں کی زیادہ شاخیں ہونے کی وجہ سے یکسانیت برقرار رکھنے کیلئے ان اداروں کے مرکزی دفاتر میں سبقی خاکے (Lesson Plans) اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ تیار کیے جاتے ہیں اور تمام ذیلی برانچوں میں جوں کے توں پڑھائے جانے کیلئے بھیج دیے جاتے ہیں۔ مرکزی دفتر کے نمائندے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان سبقی خاکوں کو بغیر رد و بدل کے لاگو کیا جائے۔ اس قدر سخت پیروی اساتذہ کی تخلیقی سوچ کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ اس کار گزاری کا اولین نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اساتذہ اپنی فکری صلاحیتیں استعمال نہیں کر سکتے‘ ان کی حیثیت ایک تکنیکی میکینک جیسی ہوتی ہے جس کی اپنی سوچ اور غور و فکر کا تدریسی عمل میں دخل باقی نہیں رہتا۔
اساتذہ کے اس میکانکی کردار سے محض یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اگلی نسل کو ایسا علم ہی منتقل کریں گے جو اس دور کی تکنیکی سوچ کے لیے معاون ثابت ہو۔ اس تکنیکی سوچ کے مطابق تعلیم کا مقصد اچھی نوکری ہے اور اچھی نوکری سے مراد ہے ایک منافع بخش نوکری۔ اسی لیے کمپیوٹر اور بزنس مینجمنٹ مقبولِ عام تعلیمی پروگرام ہیں۔ اس تکنیکی اور میکانکی سوچ بچار میں سماجی علوم (Social Sciences) کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ منافع بخش مضامین نہیں۔ اس تکنیکی سوچ کو بڑھاوا دینے کے لیے ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کا بہترین استعمال کیا جاتا ہے اور یہ ذرائع ابلاغ ایک خاص طرح کے سماجی روابط کو پروان چڑھاتے ہیں۔
ایک زمانے میں سکول‘ معاشرہ اور گھر سماجی روابط کے اہم ذرائع مانے جاتے تھے۔ آج کل میڈیا سوچ اور بیانیہ بناتا اور بدلتا ہے اور مخصوص رویوں اور متعصب تصورات کو پروان چڑھاتا ہے۔ اسی عمل میں نظریات جنم لیتے ہیں اور نظریات کے ذریعے بتدریج ایک رائے عامہ قائم کی جاتی ہے۔ یہ رائے عامہ زبان زد ِعام تو ہو جاتی ہے لیکن افراد کی اپنی سوچ نہیں ہوتی اور وہ یہ نہیں جانتے کہ مخصوص گروہ اپنی متعصبانہ سوچ کو کس طرح ایک خاص منصوبہ بندی سے ان کے ذہنوں میں اتار دیتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی نے اس عمل کو آسان اور تیز تر بنا دیا ہے اور زیادہ سے زیادہ افراد کے ذہنوں کو بھرپور طریقے سے متاثر کرنا ممکن ہو گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سکول اپنا وہ معاشرتی کردار ادا نہیں کر پائے جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کام کا بیڑا ذرائع ابلاغ نے اٹھا لیا اور وہ ایک مخصوص طرز کی معلومات‘ تجزیات اور ثقافت کو پروان چڑھانے لگے۔ معروف ماہرینِ سماجیات‘ ہورخیمر اور اڈورنو (Horkheimer & Adorno) نے اسے کلچر انڈسٹری کا نام دیا جو ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک خاص طرز کی ثقافت کو فروغ دے رہی ہے۔ پاکستان میں بھی اب یہ سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ عام انسان کی حیثیت ایک صارف کی ہے جو اس غلط فہمی میں رہتا ہے کہ وہ اپنی پسند اور ناپسند میں خود مختار ہے؛ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ کھلی منڈیوں میں بھی یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ تمام مصنوعات انسانی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے بنائی اور بیچی جا رہی ہیں جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔ اڈورنو نے کلچر انڈسٹری کے بارے میں اپنی تحریر میں واضح کیا ہے کہ کلچر انڈسٹری میں صارف کو بادشاہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ صنعتکاری کے عمل میں فاعل نہیں مفعول کی حیثیت رکھتا ہے۔ سکولوں میں جس طرز کی تعلیم دی جا رہی ہے وہ بھی سوچ کی یکسانیت کو فروغ دیتی ہے‘ ایک ایسی سوچ جو تکنیکی سوچ سے ہم آہنگ رہے۔ مارکوس (Marcuse) نے صنعتی ترقی حاصل کر لینے والے ممالک کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے اسے پُرآسائش‘ آرام دہ‘ قابلِ قبول‘ جمہوری غلامی قرار دیا جو صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اسی ذہنی غلامی کا پرچار ترقی پذیر ممالک میں تعلیم کے ذریعے ہو رہا ہے۔
تعلیمی اداروں کیلئے سب سے بڑا چیلنج شخصی آزادی کا مقدمہ ہے۔ یہ آسان عمل نہیں۔ اس کیلئے مقاصد‘ حرکیات اور امتحانات کے طریقوں میں ایک جامع تبدیلی کی ضرورت ہو گی۔ ہمیں تعلیمی ادارے اور فیکٹری میں فرق کرنا سیکھنا ہو گا۔ نجی ادارے کھلی منڈیوں کی مانند کام کر رہے ہیں۔ کئی حوالوں سے حکومتی دخل اندازی عوام کے مفاد میں بہتر ہو گی جیسا کہ اساتذہ کے کام اور تنخواہ میں توازن اور ان کے استحصال کی روک تھام۔ تعلیم اور انڈسٹری میں تعلق ہونا چاہیے لیکن تعلیمی اداروں کو محض کاروباری سوچ کے زیرِ سایہ نہیں چلنا چاہیے۔ سماجی علوم بظاہر بہت کار آمد مضامین نہیں لگتے لیکن انسانی سوچ کو پروان کو چڑھانے کیلئے بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمیں تعلیمی نظام کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ہم جس ماڈل کے تحت یہ کام کر رہے ہیں اسے مشہور ماہرِتعلیم فریررے (Freire) نے تعلیم کا بینکاری نظام (Banking Concept of Education) قراردیا ہے۔ اگر ہمیں شخصی آزادی کے مقدمے کے تحت تعلیم دینی ہے تو پھر اس ٹیکنالوجی کے تحت پنپنے والی سوچ کی جگہ تنقیدی سوچ کو دینا ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved