تحریر : محمد حسن رضا تاریخ اشاعت     02-07-2025

پنجاب میں تبدیلی‘ مگر کیسے؟

وفاقی اور صوبائی بجٹ اسمبلیوں سے منظور ہو کر نافذ ہو چکے ہیں ۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ آج ہم پنجاب کے نئے مالی سال کے بجٹ کے خدوخال کا جائزہ لیں گے۔ پنجاب میں پہلی بار ایک خاتون وزیراعلیٰ صوبے کی حکمران ہیں۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان سے پہلے یہاں بزدار جیسے حاکم تھے؛ چنانچہ ذرا سی کارکردگی دکھانے کی ضرورت تھی‘ انہوں نے نمایاں ہو ہی جانا تھا۔ ان کی دوسری خوش قسمتی یہ کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں اب تک ناکام ہیں۔ صرف سندھ میں کچھ ہلچل ہے مگر پنجاب اپنی پرفارمنس‘ پروجیکٹس‘ ان کی تشہیر اور دیگر کاموں میں آگے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ناقد بھی اسے تسلیم کر رہے ہیں اور ان پارٹیوں کے روایتی سیاستدان پریشان ہیں کہ اب ان کی سفارش کے فون نہیں چلتے۔
پنجاب اسمبلی نے نئے مالی سال کا بجٹ منظور کر لیا ہے۔ یہ ٹیکس فری بجٹ تھا۔ عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ کسان پریشان تھے کہ شاید ان پر زرعی ٹیکس عائد کیا جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کسان دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ بجٹ کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کی تقریر جامع اور مدلل تھی‘ جس میں نئے مالی سال کے تقریباً تمام مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اب وہ دور نہیں جب بجٹ تقریر صرف پختہ عمر کے لوگ یا بوڑھے افراد ہی سنتے ہوں‘ ملک کے اور اپنے مالی حالات میں نوجوانوں کی دلچسپی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا؛چنانچہ نوجوان جو کہ ملک عزیز کی آبادی کا سب سے بڑا طبقہ ہیں‘ وفاقی اور صوبائی بجٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہیں کیونکہ ان کے مستقبل کے حوالے سے اہم معاشی فیصلے بجٹ سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اس لیے صوبائی اور وفاقی سطح پر بجٹ تقریر کا جامع اور بامعنی ہونا ضروری ہے۔ جو چیز تقریر سے بھی زیادہ اہم ہے وہ ان دعوؤں پر زمینی سطح پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے جو حکومت کی طرف سے بجٹ میں کیے جاتے ہیں۔ یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب حکومتی دعوے محض زبانی جمع خرچ تک محدود نہ ہوں بلکہ اُن پر عملدرآمد کے لیے مکمل روڈ میپ بھی تشکیل دیا جائے اور ہر سیکٹر کو ضروری فنڈز بھی مہیا کیے جائیں۔
پنجاب میں صحت اور تعلیم کے شعبوں کا بجٹ بڑھانا خوش آئند ہے۔ دونوں سیکٹرز پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت تھی۔ تیسرا اہم شعبہ زراعت ہے جس کیلئے رقم مختص تو کی جاتی ہے مگر عموماً سبسڈیز بڑے کاشتکار تک تو پہنچ جاتی ہیں جو تھوڑا خواندہ بھی ہے مگر اسی فیصد غریب کسان کو اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔ حکومت یقینی بنائے کہ عام کسان جو ایک دو ایکڑ اُگا کر اپنی روزی کما رہا ہے‘ اس کو بھی سپورٹ ملے۔ اس کی فصل کی قیمت بھی اس کو ملے۔ اس کیلئے سب سے اہم کام کھادوں کو سستا کرنا ہے۔ کسانوں کو بجلی اور فصلوں کی بوائی کے اخراجات میں مدد دی جائے تاکہ پیداواری لاگت کم ہو۔پیداواری لاگت کم ہو گی تو بیرونی ممالک میں ہم اپنی زرعی پیداوار بیچ کر زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ ہماری مٹی زرخیر ہے اوردنیا بھر میں ہماری زرعی پیداوار کی خاصی طلب ہے اور یہ اجناس دیگر ممالک کی زرعی اجناس سے مہنگے داموں بکتی ہیں اس کے باوجود ذائقے کی وجہ سے لوگ بھارتی اور بنگلہ دیشی اجناس پر پاکستانی اجناس کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر کسان کو سبسڈی ملے‘ پیداوار میں اضافہ ہو‘ سٹوریج سستی ہو تو پاکستان زرعی شعبے میں ایکسپورٹ کو بڑھا سکتا ہے‘۔ پنجاب پیداواری حب ہے لہٰذا حکومت اس جانب توجہ دے۔
سکولوں اور ہسپتالوں کی نجکاری پر جو تحفظات ہیں ان کو دورکئے بغیر ایسے اقدامات سے پرہیز کرنا چاہیے جو عوام کے دلوں میں حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ کسی کا روزگار متاثر کرنے سے پہلے اس کو متبادل دیں۔ یہ بھی حکومت ہی کا فرض ہے۔ صحت کے شعبے میں بھی بجٹ کسی منطق کے تحت خرچ ہو تو مناسب ہے۔ حکومت پنجاب کے 'کلینک آن ویلز‘ پروجیکٹ سے ڈاکٹر سخت پریشان ہیں۔ ڈاکٹر‘ جس نے علاج کرنا ہے ‘ اگر وہ اپنی جاب ہی سے مطمئن نہیں تو اس کی کارکردگی کا متاثر ہونا یقینی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کو پھیری والا بنا دیا گیا ہے۔ ہسپتالوں میں سہولتوں کو بہتر کر کے لوگوں کو وہاں علاج دیا جائے تو بہتر ہے‘ بجائے اس کے کہ وہ کیری ڈبے میں دوائیاں لئے گھر گھر جائیں‘ جس کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ مریض آئیں یا نہ آئیں‘ فیول تو روزانہ کی بنیاد پر خرچ ہو گا۔ ایک کیری ڈبہ کلینک تو پہلے ہی روز حادثے کا شکار ہو گیا جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھی گئیں۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام کا پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کرے۔ بجٹ میں بہت سے پروجیکٹس قابلِ تعریف ہیں لیکن جب تک بجلی‘ گیس جیسی بنیادی سہولتیں عوام کیلئے حد سے زیادہ مہنگی ہیں‘ تب تک ان منصوبوں کے ثمرات واضح طور پر نظر نہیں آئیں گے۔ صرف یہ کہہ دینے سے جان نہیں چھوٹے گی کہ بجلی اور گیس صوبائی شعبے نہیں۔ بلوں کی وجہ سے کسی نے خودکشی کی تو حاکم وقت ہی اس کا ذمہ دارہے‘ چاہے صوبائی ہو یا وفاقی۔
پنجاب کے لیے یہ خوش آئند ہے کہ اس صوبے کی حکمران ایک درد دل رکھنے والی خاتو ن ہیں۔ ان کو عوام کے بجلی کے بلوں کا بھی احساس ہے۔ اگرچہ یہ وفاقی معاملہ ہے مگر گزشتہ برس وزیراعلیٰ پنجاب نے پنجاب کے عوام کو بجلی بلوں میں سبسڈی دے کر بڑی سہولت پیدا کی۔ اب بھی ان کی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ کسی طریقے سے عوام کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے روٹی مزید سستی فراہم کرنے کی بات کی ہے۔ جیسے انہوں نے باقی وعدے پورے کئے ہیں‘ امید ہے کہ روٹی کی قیمت کم کرنے کے اقدامات بھی کریں گی۔پنجاب کے سکولوں کا نظام بھی بہتر ہونا چاہیے۔ پنجاب بھر میں صفائی کے نظام پرجو توجہ دی جا رہی ہے اس کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔صفائی نصف ایمان ہے اور ہمارے دین کا اس حوالے سے خصوصی حکم ہے مگر کسی حکومت نے اس کام پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی کہ موجودہ حکومت دے رہی ہے۔وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اپنی تقریر میں بالکل درست کہا کہ بیٹیاں گھروں کی صفائی یقینی بناتی ہیں‘ اب پنجاب کی بیٹی پنجاب کو صاف‘ شفاف اور نکھار کر رکھ دے گی۔ مریم نواز بطور لیڈر پنجاب ہی نہیں پاکستان کا مثبت چہرہ ہیں۔ دنیا میں پاکستان کا منفی تشخص قائم ہو چکا تھا مگر دنیا اب مریم نواز جیسی لیڈر کو دیکھتی ہے تو پاکستان کے بارے اس کے خیالات میں ضرور تبدیلی آئے گی کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں خواتین کھل کر نہ صرف کام کرتی ہیں بلکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ کامیابی سے چلا رہی ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس کارکردگی کو پانچ سال یونہی جاری رکھیں گی اور پنجاب کے عوام سکھی ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved