تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     02-07-2025

زندگی کی حقیقت

انسان عام طور پر یہ تصورکرتا ہے کہ شاید وہ موت سے بچ کر اپنی مرضی کی زندگی گزارتا رہے گا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ موت ہر وقت انسان کے تعاقب میں رہتی ہے اور انسان کو کسی بھی وقت فنا کا جام پینا پڑ سکتا ہے۔ انسان درحقیقت اللہ کی تقدیر کی وجہ سے بظاہر کئی مرتبہ بڑے حادثات کے دوران موت سے بچ جاتا ہے لیکن جب اس کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تو بغیر کسی حادثے کے بھی وہ فنا کے گھاٹ اُتر جاتا ہے۔ ہم اپنے گرد ونواح میں بہت سے ایسے لوگوں کو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں جو کمزوری اور بڑھاپے کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں‘ ان کے ضعف اور پیرانہ سالی کو دیکھ کر انسان اس بات کا تصور بھی نہیں کر پاتا کہ طاقتور اور جوان لوگ بھی اچانک اس دنیا سے رخصت ہو سکتے ہیں۔
27 جون کو سوات میں ایک انتہائی المناک سانحہ رونما ہوا۔ ایک ہی خاندان کے 15 لوگ دریائے سوات کی بپھری ہوئی لہروں کی نذر ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والے لوگ بہت دیر تک حکومت اور انتظامیہ کے تعاون کے منتظر رہے لیکن کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہ پہنچا اور خونی رشتہ دار ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے پانی کی تیز رفتار لہروں کی نذر ہوتے رہے۔ اس سانحہ کی وجہ سے ملک بھر میں ایک دکھ اور کرب کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس موقع پر جہاں انتظامیہ اور حکومت کی بے بسی اور غفلت پر تبصرے کیے گئے وہیں عین شباب کے عالم میں بہت سے لوگوں کی دنیا سے اچانک رخصتی پر ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔ اسی قسم کے ایک اور واقعے کی وڈیو بھی اس وقت سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ ایک استاد کو لیکچر کے دوران اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ آناً فاناً اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اس وڈیو نے بھی لوگوں کے اذہان وقلوب اور سوچ وفکر پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں کہ انسان تو اپنی زندگی کے لیے طویل انتظامات کرتا ہے لیکن نجانے کیوں موت کے بارے میں وہ بالعموم غافل نظر آتا ہے۔ وہ جس حقیقت سے دوسروں کو دوچار ہوتے ہوئے دیکھتا ہے‘ نجانے اس حقیقت کو اپنے لیے قبول کرنے پر کیوں آمادہ وتیار نہیں ہوتا۔
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکارکسی بھی طور ممکن نہیں اور یہ دنیا کی واحد ایسی سچائی ہے جس کو جھٹلانا ممکن نہیں۔ تمام ادیان اور مذاہب کے ماننے والوں کا اتفاق ہے کہ دنیا میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو موت کے شکنجے سے فرار ہو سکے۔ اس دنیا میں بسنے والا کوئی بھی انسان خواہ وہ نیک ہو یا بد‘ اس کو بالآخر موت کی وادی میں اُترنا ہی پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر انسان کی غفلت اور سوچ کی پسماندگی کا ذکر کیا کہ وہ ہر وقت کثرت کی طلب اور ہوس میں مبتلا رہتا ہے اور اپنی موت کے دن کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التکاثر میں اس حقیقت کوکچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''کثرت کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔ ہرگز نہیں! تم عنقریب معلوم کر لو گے۔ ہرگز نہیں! پھر تمہیں جلد علم ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں! اگر تم یقینی طور پر جان لو۔ تو بیشک تم جہنم دیکھ لو گے۔ اور تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔ پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا‘‘۔ سورۂ تکاثر میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہر شخص کر سکتا ہے۔ انسان کا قیام زمین پر اوسطاً ساٹھ‘ ستر برس کا ہوتا ہے اور اس کی ساری تعلیم اور منصوبہ بندی اسی مختصر سی زندگی کو سنوارنے کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس یہاں سے گزر کر انسان کو جس جہان میں منتقل ہونا ہے‘ وہاں اس کا قیام لافانی ہے لیکن اس لافانی زندگی کے لیے انسان کچھ بھی تیاری نہیں کرتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۃ الاعلیٰ کی آیات: 16 تا 19 میں یوں بیان فرمایا ''لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ اور آخرت بہت بہتر اور بہت بقا والی ہے۔ یہ باتیں پہلی کتابوں میں بھی ہیں۔ (یعنی) ابراہیم اور موسیٰ کی کتابوں میں‘‘۔
یہ انسان کی کوتاہ بینی ہے کہ وہ اس عارضی دنیا کی زندگی کے لیے کی جانے والی تگ ودو ہی کو ایک مثبت اور بہترین عمل کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ فقط دنیا داری کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو بہترین عمل سمجھنا ایک بہت بڑی کوتاہی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ الکہف کی آیات: 103 تا 106 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''کہہ دیجیے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ بہ اعتبارِ اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ (لوگ) ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا‘ اس لیے ان کے اعمال غارت ہو گئے؛ پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔ حال یہ ہے کہ ان کا بدلہ جہنم ہے کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں (کی تعلیمات) کو مذاق میں اڑایا‘‘۔
اس کے مدمقابل ایمان اور عملِ صالح کے راستے کو اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فردوسِ بریں کو تیار کر رکھا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ الکہف کی آیات: 107 تا 108 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی اچھے کیے یقینا ان کے لیے فردوس کے باغات کی مہمانی ہے۔ جہاں وہ ہمیشہ رہا کریں گے اور جس جگہ کو بدلنے کا کبھی ان کا ارادہ ہی نہ ہوگا‘‘۔
دنیا داری کی نذر ہو کر سرکشی کا راستہ اختیار کرنے والے لوگوں کی ناکامی کا ذکر سورۃ النازعات کی آیات: 37 تا 39 میں کچھ یوں کیا گیا ہے ''تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی) اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی (ہوگی)‘ اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے‘‘۔ اس کے مدمقابل جو لوگ اللہ کے خوف سے اپنی خواہشات سے اجتناب کرتے ہیں‘ ان لوگوں کے لیے اللہ نے جنتوں کو تیار کر رکھا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ النازعات کی آیات: 40 تا 41 میں بیان فرماتے ہیں ''ہاں! جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔ تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے‘‘۔
اگر انسان موت کی حقیقت کو بھانپ جائے تو کامیابی کے معیار بدل جاتے ہیں۔ پھر کامیابی کا معیار فقط دنیا کی ہیبت وحشمت‘ جاہ وجلال‘ مال ومتاع اور یہاں کا عہدہ ومنصب ہی نہیں رہتا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے جب انسان اللہ کے عذاب سے بچ کر جنت میں داخل ہو جاتا ہے تو ہی وہ خود کو کامیاب لوگوں میں شمار کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۂ آلِ عمران کی آیت: 185 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جائو گے‘ پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بیشک وہ کامیاب ہو گیا‘ اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے زاویۂ نگاہ کو درست کرنا چاہیے اور موت کے بعد آنے والی زندگی کے لیے بھرپور تیاری کرنی چاہیے۔ جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ سے ملاقات کے لیے اس زندگی میں تیاری کرتا ہے وہ حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل بے پایاں کو حاصل کرکے اس کی ناراضی اور غضب سے بچنے کے لیے اپنے وقت‘ وسائل اور توانائیوں کا صحیح طریقے سے استعمال کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved