تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     03-07-2025

بھارتی فوج اور حکومت، اندرونی تصویر

نقطے ملاتے جائیے‘ تصویر بنتی جائے گی۔ اس تصویر کے خد و خال روز بروز واضح ہوتے جاتے ہیں۔ انڈونیشیا میں بھارتی دفاعی اتاشی نیوی کے کپتان شیو کمار نے ایک سیمینار میں اس کے نقش مزید نمایاں کر دیے ہیں۔ تقریر کرتے ہوئے انہوں نے ایک طرف تو حالیہ جنگ میں بھارتی طیاروں کے گرنے کے اعتراف کے باوجود طیاروں کی تعداد بتانے سے گریز کیا‘ دوسری طرف انہوں نے کہا کہ حکومت نے سختی سے منع کیا تھا کہ پاکستانی ملٹری تنصیبات اور فضائی دفاعی نظام کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ چونکہ بھارتی فوج اور فضائیہ حکومت کی تابع ہے اس لیے اس نے احکامات کی پابندی کی اور یہ طیارے اسی وجہ سے گرے۔ اس مؤقف کے درست یا غلط ہونے پر تبصرہ بعد میں کرتے ہیں‘ پہلے بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف انیل چوہان کا اسی قبیل کا ایک ماہ پہلے سنگا پور میں انٹرویو یاد کر لیجیے جس کے کچھ جملے بہت معنی خیز تھے۔ کتنے بھارتی طیارے گرے؟ اس سوال پر انہوں نے کہا تھا ''تعداد اہم نہیں ہے۔ یہ اہم ہے کہ یہ کیوں گرے تھے؟‘‘ یہ نقصانات کے اعتراف کے ساتھ اس مسئلے کی صاف نشاندہی ہے جس کا اس وقت بھارتی افواج اور فضائیہ کو سامنا ہے۔ چار روزہ پاک بھارت لڑائی کے دوران پریس بریفنگ میں بھارتی فضائیہ کے ایئر مارشل اے کے بھارتی نے نقصانات کا گول مول اعتراف کیا تھا لیکن تعداد پر بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان سب اعترافات پر بھارت میں مسلسل ہنگامہ برپا ہے۔ وجہ یہ کہ حکومت میں وزیراعظم مودی سے وزیر دفاع وغیرہ تک کسی نے بھی کوئی طیارہ گرنے کا اعتراف نہیں کیا۔ یہ تینوں اعتراف بھارتی فضائیہ کی طرف سے ہوئے ہیں۔ سیاستدانوں نے تو ہنکارا تک نہیں بھرا۔
جو تصویر ابھر رہی ہے‘ یہ ہے کہ بھارتی فوج اور فضائیہ وہی کوشش کر رہی ہے جو بھارتی حکومت نے کی تھی۔ یعنی خود کو بچا کر ساری ذمہ داری سیاسی فیصلہ سازوں پر ڈال دی جائے‘ اور بتایا جائے کہ نقصان ہماری وجہ سے نہیں ہوا بلکہ حکومت کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ کر منجدھار میں ڈال دیا جائے تو ذمہ داری ڈوبنے والے کی کیسے ہو گی؟ چھ اور سات مئی سے پہلے جب یہ جنگ باقاعدہ شروع نہیں ہوئی تھی‘ بھارتی حکومت کے بیانات سامنے آئے تھے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے تمام تر معاملات بھارتی فوجوں کو دے دیے ہیں۔ یعنی کیا کرنا ہے‘ کب کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے‘ یہ سب ذمہ داری فوج کی ہو گی۔ کہنے والوں نے اسی وقت کہنا شروع کر دیا تھا کہ مودی نے ممکنہ خراب نتائج سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اچھا ہو جائے گا تو وہ اس کا کریڈٹ لے کر انتخابی مہم میں فائدہ اٹھائیں گے۔ اگر کچھ غلط ہو گیا تو کہہ دیں گے کہ فوج نے کیا تھا‘ وہی ذمہ دار ہیں۔ یہ کام مودی 2014ء سے مسلسل کرتا آیا ہے۔ فروری 2019ء میں بھارتی فضائیہ کی بہت سبکی ہوئی تھی جب ان کے دو طیارے گرا لیے گئے اور ابھینندن کو پاکستان نے قیدی بنا لیا۔ اس روز افراتفری میں بھارت نے خود ہی اپنے ایک ہیلی کاپٹر کو بھی نشانہ بنا دیا جس میں چھ فضائی اہلکار مارے گئے۔ یہ سب بھارتی فضائیہ کی سبکی کیلئے بہت تھا۔ بھارتی فضائیہ شرمندگی میں وضاحتیں کرتی پھری‘ اسی کا داغ مٹانے کیلئے یہ جھوٹ بھی بولا کہ ہم نے ایک ایف 16گرایا ہے اور پھر ابھینندن کو اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ یہ جھوٹ رد کر دیا گیا‘ سو وہ الگ۔ لیکن اصل بات یہ کہ سیاستدان اس شرمندگی سے صاف بچ نکلے۔ پائلٹ کو واپس لانے کا سہرا بھی اپنے سر سجا لیا اور الیکشن بھی اسی مہم کے باعث جیت گئے۔ بالآخر سارا ملبہ فوج پر آ پڑا۔ چند سال پہلے کی یہ بات فوج کے دل میں ہے؛ چنانچہ اب جب چھ اور سات مئی کی درمیانی رات چھ طیاروں ایک کومبیٹ ڈرون کا نقصان ہوا‘ جو بڑا نقصان تھا‘ اس کا اعتراف بھی آسان نہیں ‘ لہٰذا فوج کی کوشش یہی ہے کہ خود ملبے تلے دب جانے کے بجائے یہ سیاستدانوں پر ڈالا جائے جو فیصلوں کے ذمہ دار ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں‘ جس میں جنگ کے بعد کا زمانہ بھی شامل ہے‘ بھارتی فضائیہ کے سربراہ پبلک تقریروں میں مسلسل کہتے چلے آرہے ہیں کہ فضائیہ کو تیجاس طیاروں کی تعداد‘ جدید طیاروں کی خریداری‘ دستیاب پائلٹوں کی تعداد اور بہت سے دیگر مسائل کا سامنا ہے اور ہم سے کیے جانے والے وعدے کبھی پورے نہیں ہوئے۔ اس سے قبل پوری بھارتی تاریخ میں فضائیہ کی طرف سے کبھی ایسے بیانات پبلک نہیں ہوئے تھے۔ یہ تمام کوششیں دفاعی افواج کی اس سوچ کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اپنے سیاسی استعمال اور اس کے خمیازے سے ممکنہ حد تک بچا جائے۔ ایک اہم بات جس کی بھارتی دفاعی تجزیہ کار تکرار کرتے چلے آئے ہیں‘ فوج کے اہم افسروں کا سیاسی ہو جانا ہے۔ پراوین سواہنی جو سابقہ فوجی افسر اور ایک نامور دفاعی تجزیہ کار ہیں‘ نام لے لے کر بھارتی فضائیہ اور بری فوج کے ان افسروں کی نشاندہی کرتے آئے ہیں جو دورانِ ملازمت پیشہ ورانہ نہیں بلکہ سیاسی فیصلے کرتے رہے اور ریٹائر منٹ کے بعد یا تو بی جے پی میں شامل ہو گئے یا انہیں بی جے پی کے اہم اداروں کی سربراہی سونپ دی گئی۔ اگر فوج سے باہر لوگوں کو یہ باتیں نظر آ رہی ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ فوج کے اندر معلوم نہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ سب افسر سیاسی ہونا پسند نہیں کرتے‘ بہت سے افسر پیشہ ورانہ معاملات کے سختی سے پابند ہوتے ہیں۔ ایسے میں بے چینی پھیلنا لازمی ہے اور یہ کوشش بھی فطری امر ہے کہ فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ بھارتی افواج میں پہلی بار یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ ایک طبقہ وزیراعظم اور وزیر دفاع کے ہر حکم کی پیروی اور اپنے فوائد کیلئے خوشامدیں کرتا ہے‘ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو اس سے دور ہے اور فوج کو بھی اس سے دور دیکھنا چاہتا ہے۔ فوج میں پہلی بار یہ احساس شدت سے ہے کہ سیاستدان سیاسی مفاد پر مبنی فیصلے سے فوج کی تذلیل کراتے ہیں اور یہ سلسلہ مودی حکومت کے بعد سے مسلسل ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی فوج اس گرداب سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے اور حکومت پر واضح کرنا چاہتی ہے کہ اگر آپ فوج کی مرضی کے بغیر سیاسی فائدوں کیلئے فیصلے کریں گے تو پھر ذمہ داری بھی آپ خود اٹھائیں۔ بھارت میں شائع ہونے والے مضامین‘ دفاعی ماہرین کے تجزیوں اور سابقہ فوجی افسران کے تبصروں سے جو مجموعی تاثر ملتا ہے‘ یہ ہے کہ مئی کی کشمکش میں بھارتی فوج سمجھتی تھی کہ یہ سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔ بظاہر بھارتی فوج کی کوشش تھی کہ حکومت ایسے کسی اقدام سے باز رہے جس کا نقصان فوج کو اٹھانا پڑے۔ لیکن حکومت نے فوج‘ خصوصاً فضائیہ کو اس پر مجبور کیا۔ اب جو نتیجہ نکلا اس کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے حکومت غائب ہے اور فوجی افسران کو اس کی وضاحتیں دینا پڑ رہی ہیں۔ یہ وضاحتیں بھی اتنی غیرتسلی بخش ہیں کہ ناکافی رہتی ہیں۔
اب آجائیں اس مؤقف کی طرف جو اُن افسران نے پیش کیا ہے‘ یعنی یہ کہ حکومت نے فوج کو پابند کیا تھا کہ پاکستانی فوجی تنصیبات اور جنگی طیاروں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مضحکہ خیز حکمت عملی بھارتی فضائیہ نے مانی ہی کیوں؟ یہ مؤقف دفاعی ماہرین تو کیا‘ ایک عام آدمی بھی بیوقوفی ہی سمجھے گا۔ یہ سمجھا ہی کیوں گیا کہ پاکستان‘ جو مسلسل بھارت کو متنبہ کر رہا تھا کہ اگر کوئی ایسا قدم اٹھایا گیا تو جوابی کارروائی لازمی ہو گی‘ اتنے شہروں پر حملوں اور اپنے شہریوں کی شہادتوں پر خاموش رہے گا۔ فروری 2019ء میں کیا پاکستان نے جوابی کارروائی نہیں کی تھی؟ تو یہ کہنا کہ بھارتی فضائیہ سیاسی فیصلوں کے تحت پابند تھی‘ خود فضائیہ کی پیشہ ورانہ مہارت پر سوال اٹھا دیتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اتنے بڑے نقصانات کے بعد بھارتی فضائیہ کے پاس اور کوئی مؤقف بچتا ہی نہیں۔ رافیل کے ہوتے ہوئے پرانے طیاروں کا جواز پیش نہیں کر سکتے تھے۔ باقی یہی رہ جاتا تھا سو انہوں نے کردیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بھارتی فوج اور حکومت کی اندرونی دراڑوں کی تصویر بھی واضح ہو گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved