آٹھ فروری 2024ء کو عام انتخابات کے انعقاد کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا معاملہ منظرعام پر آیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ تحریک انصاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قواعد و ضوابط کے مطابق بروقت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی‘ اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی بارہا یاد دہانیوں کو مسلسل نظرانداز کیا گیا۔ اس کوتاہی کے نتیجے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 208اور 209کے تحت پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان ''بلا‘‘واپس لے لیا۔ اور آٹھ فروری کے عام انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کے امیداواروں کو کوئی ایک انتخابی نشان الاٹ نہ ہو سکا۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے مختلف انتخابی نشانات پر الیکشن میں حصہ لیا‘ اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد آئین کے آرٹیکل 51‘ 106 اور 224کے تحت سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس مرحلے پر اس آئینی اور قانونی سوال نے جنم لیا کہ کیا پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ آزاد امیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے بعد یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو الاٹ کی جا سکتی ہیں یا نہیں؟ یہ معاملہ الیکشن کمیشن سے ہوتا ہوا اعلیٰ عدالتوں تک پہنچا۔ الیکشن کمیشن کے انکار کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کونہ دینے کا فیصلہ کیا ۔ جس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 12جولائی 2024ء کو ان نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کا آئینی حق تسلیم کر لیا۔ تاہم‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان اور متعدد سیاسی جماعتوں نے نظرثانی کی اپیلیں دائر کر دیں اس لیے 12جولائی کے فیصلے پر فوری عملدرآمد نہ ہو سکا۔ اسی دوران پارلیمنٹ نے 26ویں آئینی ترمیم بھی منظور کر لی۔اب طویل سماعتوں کے بعد‘ 27جون کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پانچ کے مقابلے میں سات ججوں کی اکثریت سے نظرثانی کی درخواست منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بحال کر دیا ہے‘ یعنی مخصوص نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کا کوئی حق نہیں۔
اس فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن تبدیل ہو گئی ہے۔ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے سے قبل 336رکنی ایوان میں حکمران اتحاد کے پاس 214نشستیں تھیں‘ جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی 110‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی 70‘ ایم کیو ایم کی 22 اور چند دیگر چھوٹی جماعتوں کی نشستیں شامل تھیں۔ لیکن سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق حالیہ فیصلے کی روشنی میں حکمران اتحاد کو مزید 22مخصوص نشستیں مل گئی ہیں‘ یوں قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ ان کی مجموعی نشستوں کی تعداد 236ہو گئی ہے‘ جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے 224نشستیں درکار ہوتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ایک طبقے کی یہ رائے ہے کہ مخصوص نشستوں کے متعلق حالیہ فیصلے میں سات ججوں نے 12 جولائی 2024ء کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیلیں منظور کی ہیں جبکہ 12جولائی کے فیصلے میں آٹھ ججوں نے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔ یعنی اُن کی رائے میں 12جولائی کا فیصلہ زیادہ مستند تھا جس میں ججوں کی زیادہ تعداد نے ایک مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ حالیہ فیصلے سے پانچ ججوں نے اختلاف کیا جبکہ سات نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ تحریک انصاف اس وقت پارلیمانی پارٹی نہیں ہے‘ اس لیے وہ مخصوص نشستوں کی حقدار بھی نہیں۔ آئین کے مطابق ان مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کا حق تھا لیکن 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تحریک انصاف کا یہ آئینی حق ختم کر دیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کی پوزیشن بہت مضبوط ہو گئی ہے اور اب اسے کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے اپوزیشن کی حمایت کی ضرورت نہیں رہی۔
عالمی سطح پر اس وقت‘ جب روس‘ یوکرین اور غزہ‘ اسرائیل جنگ کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں‘ ایسے میں ایک مستحکم فیڈریشن‘ باوقار ریاست اور عالمی شہرت یافتہ قیادت کا ہونا ناگزیر ہے۔ اب جبکہ آئینی بنچ کے فیصلے کے بعد حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے تو آئین کے آرٹیکل (1)63 میں ترمیم کرتے ہوئے دو سالہ نااہلی کی شرط کو ختم کیا جانا چاہیے۔ بھارت اور کئی دیگر ممالک کے آئین میں ایسی کوئی قدغن موجود نہیں‘ لہٰذا اس شرط کو حذف کرنا ریاست کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 243میں ایک نئی شق کا اضافہ کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کا عہدہ شامل کیا جائے تاکہ اس منصب کو آئینی تحفظ حاصل ہو سکے۔ مزید برآں آرمی ایکٹ کی شق 51میں بھی ترمیم کے ذریعے فیلڈ مارشل کو اس قانون کا حصہ بنایا جائے۔ ان اقدامات سے ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے اور بین الاقوامی تناظر میں ایسی ترامیم ریاست کے مفاد میں مفید ثابت ہوں گی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے مطالبے کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل 140(اے) میں ترمیم کر کے مقامی حکومتوں کو وسیع تر آئینی اختیارات دیے جانے چاہئیں۔ بھارت میں بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ حاصل ہے‘ وہاں مقامی حکومتیں باقاعدگی سے انتخابات کے ذریعے وجود میں آتی ہیں اور اختیارات سے لیس ہوتی ہیں۔ پاکستان میں چونکہ لوکل باڈیز آئینی تحفظ سے محروم ہیں‘ اس لیے صوبائی حکومتیں ان انتخابات میں مسلسل تاخیر کرتی ہیں جس سے جمہوری نظام نامکمل اور غیر مؤثر ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایم کیو ایم نے 26ویں ترمیم کی حمایت اسی بنیاد پر کی تھی کہ بلدیاتی اداروں کو آئین کے آرٹیکل 140(اے) کے تحت بااختیار بنایا جائے گا۔ شنید ہے کہ مجوزہ 27ویں ترمیم کے ذریعے وزیراعلیٰ کے انتظامی و مالیاتی اختیارات میئرز کو منتقل کیے جائیں گے۔
حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہونے کے بعد وہ آئین میں مزید ترامیم کے لیے لازماً پر تولے گی۔ تاہم فی الحال ایک انتہائی حساس مسئلہ یہ ہے کہ ایک مخصوص ٹولہ ''اکیڈمی آف لیٹرز‘‘ اور ''ادارۂ فروغِ قومی زبان‘‘ جیسے اداروں کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ اس میں بعض ایسے مفکرین اور دانشور بھی شامل ہیں جن کا کردار مشکوک ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ 1988ء میں بھارتی وزیراعظم نے بھارت کی پارلیمنٹ میں اُن پاکستانی صحافیوں‘ دانشوروں اور شاعروں کا ذکر کیا تھا جو مبینہ طور پر امریکی سی آئی اے کے لیے کام کرتے رہے۔ تب ایک اخبار نے اُن افراد کے نام بھی شائع کیے تھے۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے اس وقت کے سیکرٹری ڈاکٹر مجیب الرحمن نے ان افراد کی گرفتاری کے لیے صدر ضیاء الحق کو باقاعدہ سمری بھیجی مگر چند دنوں بعد جنرل ضیا الحق کی حادثاتی طور پر وفات ہو گئی اور بعد ازاں بینظیر بھٹو حکومت نے اس سمری کو مسترد کر دیا۔
یہ درست ہے کہ دہائیوں ان اداروں پر چند مخصوص افراد کی اجارہ داری قائم رہی مگر اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اداروں کو ختم کرنے کی۔ اکیڈمی آف لیٹرز کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی جس کے پہلے سربراہ معروف شاعر احمد فراز تھے۔ اسی طرح ادارۂ فروغِ قومی زبان جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1973ء کے آئین کی روشنی میں قائم کیا گیا‘ جس کا مقصد اردو زبان کا فروغ تھا۔ میری دو کتابیں اسی ادارے کے زیر اہتمام شائع ہوئیں جو ذرائع ابلاغ‘ تحقیقی طریقہ کار اور تعلقاتِ عامہ جیسے اہم موضوعات پر ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved