پاکستان کے حالات اور معاملات کا دوسرے ملکوں سے موازنہ ہم جیسے خاک نشینوں اور عام تام لوگوں کا کام ہے کہ وہ اس استحصالی نظام میں براہِ راست پِس رہے ہیں۔ ظاہر ہے جو اس استحصالی نظام سے بہرہ مند ہو رہے ہیں‘ فوائد حاصل کر رہے ہیں بھلا وہ کیوں اس بوسیدہ اور گلے سڑے نظام کو بدلنے کی کوشش کریں گے؟ جس چیز سے آپ کو فائدہ ہو رہا ہو آپ اس میں تبدیلی کیوں کریں گے؟ اگر اس نظام سے عام آدمی کو نقصان ہو رہا ہے‘ اس کا استحصال ہو رہا ہے اور وہ لُٹ رہا ہے تو بھلا اس ملک کی اشرافیہ کو اس سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ حکمران‘ سیاستدان‘ سول و ملٹری بیورو کریسی‘ کاروباری مافیا اور اس نظام کے دیگر حصہ دار اس نظام سے نہ صرف خوش ہیں بلکہ اسے جوں کا توں جاری و ساری رکھنے پر متفق ہیں۔ اس ملک کے درج بالا طبقات کو اپنے اور عام آدمی کے درمیان فرق ہی معلوم نہیں اور انہیں اس فرق کو معلوم کرنے کا نہ کوئی شوق ہے اور نہ ہی کوئی ضرورت ہے۔
ملک سے باہر جانے والی اشرافیہ کئی اقسام میں بٹی ہوئی ہے۔ پہلی قسم وہ ہے جنہوں نے بیرونِ ملک جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ اب بھلا ایسے لوگوں کو اس بات سے کیا غرض ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں لوگ کن حالات سے دوچار ہیں اور دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ ان کا دل جب موج میلہ کرنے کو کرتا ہے وہ ٹکٹ کٹا کر باہر اپنے اپارٹمنٹ‘ فلیٹ یا وِلا میں جا کر آرام کرتے ہیں اور عوام سے بٹورے اور لوٹے گئے پیسے سے موج میلہ کرتے ہیں۔ وہ بھلا قوم کی حالت بدلنے کے لیے کیوں فکرمند ہوں گے؟ انہیں‘ یہ سارا نظام اسی طرح چلتا رہے تو وارے کھاتا ہے اور وہ کسی قسم کے تقابلی جائزے کے چکر میں پڑنے کے بجائے ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ پر عمل پیرا ہیں۔
اشرافیہ کا دوسرا گروہ وہ ہے جو وقتی طور پر باہر جاتا ہے‘ اور ان میں مزید دو سب کیٹیگریز ہیں۔ ایک وہ جو سرکاری خرچے پر بیرونِ ملک جاتے ہیں۔ انہیں یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ہوٹل فائیو سٹارز ہے مگر انہیں یہ معلوم کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ ہزار ڈالر (کم ازکم) روزانہ والا یہ ہوٹل قوم کو مبلغ دو لاکھ پچاسی ہزار روپے روزانہ پر پڑ رہا ہے۔ لیموزین فی کلو میٹر کس بھاؤ پڑ رہی ہے اور دیگر اخراجات کو پاکستانی روپوں میں تبدیل کریں تو ان کا دورہ قوم کو فی یوم کتنے میں پڑ رہا ہے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بیرونِ ملک خریداری پر مہنگائی اور پاکستانی روپے کی بے قدری کا اندازہ اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کو خریداری کروانے اور تحفے دینے والے انہیں جیب سے خریداری کا موقع ہی نہیں دیتے۔
چند سال پہلے ایک علاقائی ٹی وی پر ایک ٹاک شو کے دوران ڈیرہ غازیخان سے ایک عوامی نمائندہ میرے ساتھ اس بات پر اُلجھ پڑا کہ میں نے لاہور‘ اسلام آباد اور ملتان کی میٹرو پر دی جانے والی سبسڈی کو سرکار پر بوجھ اور ملکی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے پبلک ٹرانسپورٹ کو خود انحصاری کی بنیاد پر چلانے کی بات کیوں کی ہے۔ بجلی‘ کھاد‘ گندم‘ تنور کی روٹی اور میٹرو ٹائپ چیزوں پر سبسڈی‘ آخر یہ سبسڈی کا معاملہ کہاں جا کر ختم ہوگا؟ وہ صاحب کہنے لگے: تو غریب آدمی کہاں جائے؟ میں نے کہا: غریب آدمی کی آمدنی میں اضافے کی تدبیر کی جائے۔ اس کی قوتِ خرید بڑھائی جائے اور اس کے معاوضے میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی ضروریاتِ زندگی مارکیٹ کی قیمت کے مطابق خریدنے کے قابل ہو سکے۔ بجائے اس کے کہ وہ رعایتی ٹکٹ پر سفر کرے‘ اس کی جیب میں اتنے پیسے ہونے چاہئیں کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی حقیقی قیمت والی ٹکٹ خریدنے کے قابل ہو۔ یہ نہیں کہ وہ رعایتی اور سبسڈی والا ٹکٹ لے کر اس سارے ٹرانسپورٹ سسٹم کو ملکی معیشت پر بوجھ بنا دے اور ایک روز یہ سارا نظام اپنے بوجھ سے خود زمین بوس ہو جائے۔
وہ صاحب کہنے لگے: دنیا بھر میں ٹرانسپورٹ کا نظام سبسڈی اور رعایتی نرخوں پر چل رہا ہے۔ ترقی یافتہ اور امیر ملکوں میں بھی ٹرینوں اور بسوں کا کرایہ سرکاری سبسڈی سے جڑا ہوا ہے۔ امریکہ میں ٹرین کا ٹکٹ ایک ڈالر کا اور برطانیہ میں ایک پاؤنڈ کا ہے۔ آپ یقین کریں میری تو ہنسی نکل گئی۔ میں نے طنزاً کہا کہ آپ نے یہ ایک ڈالر یا ایک پاؤنڈ بھی بھلا اپنے پلے سے کب دیا ہوگا؟ آپ کے میزبان نے آپ کی ٹکٹ لی ہو گی تبھی تو آپ اس کو درست قیمت کا علم نہیں ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں ٹرین کا کرایہ بعض اوقات جہاز کی ٹکٹ سے بھی مہنگا پڑتا ہے۔ لندن انڈر گراؤنڈ کی ایک روزہ ٹکٹ کی قیمت ساڑھے بارہ پاؤنڈ( آج کل ساڑھے سولہ پاؤنڈ) جو مبلغ انیس سو روپے (تب پاؤنڈ ایک سو پچاس روپے کا تھا) کے لگ بھگ ہے۔ لیکن وہاں لوگ یہ رقم افورڈ کر لیتے ہیں کہ روزانہ کا دیہاڑی دار بھی بارہ پاؤنڈ فی گھنٹہ کے حساب سے آٹھ گھنٹوں میں چھیانوے پاؤنڈ کما لیتا ہے۔ اگر آپ ادھر پاکستان میں مزدور کی مزدوری اسی نسبت سے بڑھا دیں تو وہ بس یا ٹرین کا حقیقی کرایہ ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ ملکوں کی معیشت سبسڈی اور رعایتی ٹکٹوں سے نہیں بلکہ فی کس آمدنی بڑھانے سے بہتر ہوتی ہے۔
اس ملک میں معاشی تفاوت کی اصل وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے عام خاک نشینوں کو جو سہولتیں مہیا کرنی ہے انہیں خود ان چیزوں کی اصل قیمت کا اندازہ نہیں ہے۔ مثلاً عام آدمی کو گھر کے کرائے سے مسئلہ ہے۔ اعلیٰ سرکاری ملازموں اور حکمرانوں کو یہ سہولت سرکار نے مفت فراہم کر رکھی ہے۔ یہ لوگ بجلی کے بلوں سے نا آشنا ہیں کہ ان کے بل سرکاری کھاتے سے ادا ہوتے ہیں۔ یہ جہاز کے کرایوں اور پٹرول کی قیمت سے لاتعلق ہیں کہ یہ سہولتیں انہیں مفت میسر ہیں۔ وہ ٹیلی فون‘ گاڑی کے خرچے اور نوکر کی تنخواہ سے لاعلم ہیں کہ ان کے یہ سب خرچے سرکار کرتی ہے۔ آپ بتائیں کہ انہیں عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ کیسے ہوگا؟ قومی اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں انہیں لوازماتِ خورونوش جس بھاؤ ملتے ہیں اس کے پیش نظر وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک میں مہنگائی نام کی کوئی چیز نہیں اور ہر شے کوڑیوں کے بھاؤ میسر ہے۔
اگلے روز علی پور میں غربت سے تنگ آکر شوہر نے بیوی سمیت سات بچوں کو کلہاڑیوں کے وار کرکے قتل کر دیا۔ بچوں کی عمریں چھ ماہ سے آٹھ سال کے درمیان تھیں۔ ایک طرف یہ عالم ہے کہ زندہ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور دوسری طرف شاہ خرچی کا یہ عالم ہے کہ عید قربان کے بعد پنجاب کی سڑکیں اور عرس پر مزار عرقِ گلاب سے دھوئے جا رہے ہیں۔ واللہ عالم! لیکن شنید ہے کہ صرف عرقِ گلاب پر اس سال ہونے والا خرچہ دو ارب روپے سے زیادہ تھا۔ ممکن ہے اس رقم میں یار لوگوں نے مبالغہ آرائی کی ہو مگر کچھ تو ہوتا ہے جس کا فسانہ بنتا ہے۔ اس کا حساب ہوگا کہ ایک طرف خلقِ خدا بھوک سے خود کشیاں کر رہی تھی اور دوسری طرف حکمران گلاب کے عرق سے سڑکیں اور مزار دھلوا رہے تھے۔ ویسے ایمانداری کی بات ہے کہ عید کے چوتھے دن جب ملتان کی سڑکیں عرق گلاب سے دھوئی جا چکی تھیں یہ عاجز حسبِ عادت آوارہ گردی کرنے نکلا تو کسی طرف سے بھی عرقِ گلاب کی خوشبو سے بسے ہوا کے جھونکے سے واسطہ نہ پڑا۔ عرقِ گلاب کمائی کا ایسا سائنسی طریقہ ہے جس کی ہیکی پھینکی پکڑنا نہ آڈیٹر جنرل کے بس کی بات ہے اور نہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی اوقات ہے۔ غریبوں کا خون اور ان کے خون پسینے کی کمائی بصورت عرقِ گلاب‘ دونوں مٹی میں مل کر مٹی ہو رہے ہیں۔ Cosmetic Effectکے دلدادہ حکمرانوں نے ہر مسئلے کا حل میک اَپ میں نکال لیا ہے حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ میک اَپ تھوڑی دیر بعد دھل کر نالی میں بہہ جاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved