میرے والد نے مجھے بچپن میں جو پہلی پہلی کتابیں تحفے میں دی تھیں‘ وہ واقعہ کربلا‘ امہات المومنین اور نشان حیدر پانے والے شہدا کی سوانح عمری پر مبنی تھیں۔ میں ان کتابوں کے مطالعہ میں اپنے والد اور والدہ سے مدد لیتی کہ وہ مجھے مشکل الفاظ کا مطلب بتائیں اور ان واقعات کو سمجھنے میں میری مدد کریں۔ میرے والدین خاص طور پر ایسی کتابیں ڈھونڈ کر لاتے جو بچوں کے لیے لکھی گئیں۔ جب واقعہ کربلا پر کتاب پڑھنا شروع کی تو پڑھ کر بہت حیرت ہوئی کہ ایک ظالم بادشاہ نے اپنے غرور وتکبر اور طاقت کے نشے میں چور ہوکر خانوادہ رسولﷺ پر مظالم ڈھائے اور نواسہ رسول سیدنا امام حسینؓ کو شہید کر دیا۔ بچپن میں بار بار سوچتی تھی کہ کسی شخص میں اتنی جرأت کیسے آ گئی کہ اس نے نواسہ رسول اور ان کے اہلِ خانہ پر ظلم کیا۔ نواسہ رسول حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ جب وہ پیدا ہوئے تو نبیﷺ نے خود ان کا نام رکھا اور فرمایا: ان کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد شبر‘ شبیر اور مبشر کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی پیدائش کے ساتویں دن بکریاں عقیقہ میں ذبح کیں۔حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ عشاء کی نماز ادا فرما رہے تھے کہ جنت کے شہزادے حسنین کریمینؓ آپﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہو کر کھیلنے لگے۔ نبی کریمﷺ نے سجدہ طویل کردیا۔ ہمیں لگا شاید کوئی واقعہ پیش آ گیا یا وحی کا نزول ہو رہا ہے لیکن نبی پاکﷺ نے اپنے نواسوں کے پشت پر ہونے کی وجہ سے سجدہ طویل کیا۔ نبیﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت وانسیت کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ ان کو گود میں اٹھاتے‘ ان کو پیار کرتے اور سینے سے لگاتے۔ اس دور میں لوگ بچوں سے اس طرح محبت اور شفقت نہیں کیا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اپنی اولاد اور آگے ان کی اولاد سے بھی شفقت فرما کر ایک ایسی مثال قائم کی جو قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کی اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ اہلِ بیت کے ساتھ محبت اصل میں نبی کریمﷺ کے ساتھ محبت ہے۔ پھر ظالم حکمرانوں نے کیونکر یہ جرأت کی کہ خانوادہ رسولﷺ پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے کہ مسلمان آج بھی اس سانحے پر نوحہ کناں ہیں‘ غم مناتے ہیں۔
آہستہ آہستہ جب وقت گزرتا گیا اور میں شعور کے مدراج طے کرتی رہی تو مجھے یہ بات سمجھ آنے لگی کہ ظالم وفاسق افراد پر ایک وقت کے بعد ہدایت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ وہ شیطان کے راستے پر چلتے چلتے اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ واپسی کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ یزید نے بھی یہی کیا۔ اپنے وقتی اقتدار کو طول دینے کے لیے ظلم وجبر کا سہارا لیا۔ امام عالی مقامؓ کسی تخت وتاج کے خواہشمند نہیں تھے۔ ان کو تو دنیا ہی میں جنت کے شہزادے ہونے کی بشارت مل گئی تھی۔ یہ معرکہ ایک جابر وفاسق حکمران کو انکار سے شروع ہوا۔ یزید نے حکومت سنبھالنے کے بعد امام حسینؓ سے بیعت لینا چاہی مگر انہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کیا۔ یزید باہم مشورے یا عوام کی مرضی سے حکمران نہیں بنا تھا۔ اس کو موروثی طور پر عوام پر مسلط کیا گیا تھا۔ وہ ظالم تھا‘ دھونس اور جبر سے حکومت چلارہا تھا۔ جو اس کی اطاعت سے انکار کرتا‘ اس قتل کروا دیا کرتا تھا۔ یزید نے اسلامی احکامات کو پس پشت ڈالا۔ اس نے صحابہ کرام کو قتل کرایا۔ تارک الصلاۃتھا اور علانیہ بدکاری کا مرتکب ؟ جبکہ مسلمانوں کا حکمران ایک باحیا‘ باوقار اور دیندار شخص ہی ہو سکتا ہے۔
یزید نے اپنے پہلے سال میں حضرت حسین ابن علیؓ کو خاندان سمیت شہید کیا۔ پھر مدینہ کی حرمت کو پامال کیا۔ واقعہ حرہ میں لوگوں کا قتل عام کیا۔ پھر حرم پاک کی حرمت کو پامال کیا گیا۔ مکہ میں قتل عام ہوا۔ اس کا اقتدار بہت مختصر تھا‘ چند سالوں میں وہ ختم ہو گیا مگر اس کی سفاکی اور درندگی لوگوں کو ہمیشہ یاد رہے گی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین ہوا تو اس نے تھوڑے عرصے بعد ہی اقتدار چھوڑ کر کہا کہ میں اس کا حقدار نہیں۔
معرکہ کربلا تمام انسانوں کے لیے بہت سے اسباق چھوڑ کر گیا ہے۔ ایک طرف امام حسینؓ اپنے اہل وعیال اور کچھ جانثاروں کے ساتھ میدانِ کربلا میں تھے تو دوسری طرف یزید کا جابر لشکر تھا۔ حق وباطل کا معرکہ! گرمی‘ صحرا‘ بھوک‘ پیاس کے ساتھ چھوٹے بچے‘ خواتین اور جوان صرف اسلام کی سربلندی کی خاطر وہاں موجود تھے۔ اہلِ ایمان پر یہ فرض ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی جبری حکمرانی‘ ملوکیت‘ آمریت‘ شہنشاہیت اور باطل طرزِ حکمرانی کو قبول نہ کریں۔ امام عالی مقام حسین ابن علیؓ نے اپنے مقدس لہو سے حق وباطل کے مابین ایسی لکیر کھینچ دی کہ جو بھی حسینی ہوگا وہ حق سچ کے راستے پر چلے گا اور جو بھی یزیدی ہوگا وہ فاسق‘ جابر اور ظالم کا ساتھی ہوگا۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے:
جب بھی ضمیر و ظرف کا سودا ہو دوستو
قائم رہو حسینؓ کے انکار کی طرح
آج امتِ مسلمہ کی نااتفاقی دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ زیادہ تر ممالک میں شہنشاہیت اور آمریت قائم ہے۔ غزہ‘ کشمیر‘ میانمار اور دیگر جگہوں پر ہونے والے مظالم پر سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ سب اپنے اپنے مفادات کے اسیر اور مصلحتوں کا شکار ہیں۔ آج زیادہ تر مسلمان موجودہ دور کے یزیدوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور حسینی بننے سے کتراتے ہیں۔ غزہ کو اسرائیل نے ان دو سالوں میں تباہ کر دیا لیکن مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کر لیتے‘ تیل کی ترسیل روک دیتے‘ سب مل کر اسرائیل پر سفارتی دبائو ڈالتے تو شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ آج اہلِ غزہ کربلا کے وارثان کی مانند ہیں اور امتِ مسلمہ کوفہ والوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ محسن احسان نے کیا خوب کہا:
تنہا کھڑا ہوں میں بھی سرِ کربلائے عصر
اور سوچتا ہوں میرے طرفدار کیا ہوئے
امام حسینؓ چاہتے تو وہ بھی آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے لیکن اس کے لیے ان کو یزید کی بیعت کرنا پڑتی۔ وہ ان کے اور دینِ اسلام کے اصولوں کے خلاف تھا۔ انہوں نے بہادری کے ساتھ شہادت کا جام پینے کو ترجیح دی۔ معرکہ کربلا ہمیں سبق دیتا ہے آزادی کا‘ حریت پسندی کا‘ ظالم سلطان کے آگے کلمہ حق بلند کرنے کا اور ظلم کے آگے ڈٹ جانے کا کہ ہم نے حق کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اس معرکے میں حضرت حسینؓ کے ساتھ بزرگ‘ بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ حضرت زینبؓ، حضرت کلثومؓ، حضرت سکینہؓ اور دیگر اہلِ بیت خواتین نے اہم کردار ادا کیا۔ حضرت زینبؓ نے یزید کو اس کے دربار میں للکارا اور آپؓ کے خطبات کی بدولت سانحہ کربلا کی داستان آگے آنے والی نسلوں تک پہنچی۔ انہوں نے اہلِ کوفہ کو بھی آئینہ دکھایا اور یزید کی سفاکیت کا پردہ چاک کیا۔ ہماری وفاداری اللہ اور رسول کے ساتھ ہونی چاہیے۔ کوئی فردِ واحد اگر اپنی اطاعت کے لیے اسلامی شعائر سے دور کرے اور خود فاسق وجابر ہو تو مسلمانوں کو ایسی صورتحال میں حضرت حسینؓ کی قربانی کو یاد کر لینا چاہیے۔ اگر امت محمدی اپنے حق کے لیے کھڑی نہیں ہو گی تو نئے نئے فتنے‘ جنگ وجدل اس کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھیں گے۔ یزیدیت کے سامنے انکار کی جرأت کریں اور حق کی بات کریں‘ تبھی آپ حسینی کہلائیں گے۔ یزید اور طاغوت ہر دور میں شکلیں اور نام بدل کر سامنے آئیں گے۔ یہ بات حسینیوں پر فرض ہے کہ ظلم ونا انصافی اور جبر وریاکاری کا مقابلہ کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved