سانحۂ کربلا اور شہادتِ حسینؓ تاریخ اسلامی کے اُن اہم ترین واقعات میں سے ہے‘ جسے اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کا مؤقف مبنی برحق تھا کہ انہوں نے ملوکیت کا راستہ روکنے اور احیائے خلافت کیلئے آواز بلند کی تھی۔ اسلام کو اس کی صحیح روح کے ساتھ سمجھا جائے تو اس امر میں ذرّہ برابر شک نہیں رہ جاتا کہ اسلام نے انسانیت کو ملوکیت کے بجائے خلافت کا نظام عطا کیا۔ اسلام کی روح آمرانہ فیصلوں کے مقابلے میں مشاورت کا نہ صرف تقاضا کرتی ہے بلکہ اسے اہلِ اسلام اور اسلامی ریاست کا بنیادی تشخص قرار دیتی ہے۔ نبی مہربانﷺ نے صحابہ کرامؓ کی تربیت اس انداز سے کی تھی کہ آمریت و ملوکیت کا کوئی تصور بھی ان کے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا۔ آپﷺ نے واضح طور پر فرما دیا تھا کہ آپؐ پر سلسلۂ نبوت مکمل ہو چکا ہے‘ اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپﷺ کے ارشاد کے مطابق دورِ نبوت کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور تھا۔ خلیفہ کا تقرر اس کی اہلیت‘ صلاحیت‘ صالحیت‘ علم اور تقویٰ کی بنیاد پر امت کو کرنا ہوتا ہے۔ آپﷺ نے ایک خاص حکمت کے تحت واضح الفاظ میں اپنے بعد اپنے جانشین کو تقرر نہیں کیا۔ وہ حکمت غالباً یہی تھی کہ آپﷺ کی امت کے ذمے انتخابِ خلیفہ کا جو عظیم کام ہے وہ باہمی مشاورت سے انجام پائے۔
آنحضورﷺ کے وصال کے بعد آپﷺ کے جانشین کا تقرر ایک اہم اور فوری نوعیت کا مسئلہ تھا۔ اسی وجہ سے صحابہؓ نے کسی تاخیر کے بغیر فوری طور پر اس کو حل کرنے کی طرف توجہ دی۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں صحابہؓ نے مشاورت سے آپﷺ کے جانشین کا فیصلہ کیا اور پوری جماعتِ صحابہ کا اس پر اجماع ہو گیا کہ حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے۔ پھر عامۃ الناس نے بھی ان کبار صحابہؓ کی تقلید کی۔ تمام مستند تواریخ میں یہ واقعہ محفوظ ہے۔ (البدایۃ والنھایۃجلد 5، صفحہ: 248)
حضرت ابو بکر صدیقؓ تقریباً اڑھائی سال خلافت کی ذمہ داری کو بطریقِ احسن نبھانے کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو مرض الموت میں انہوں نے اہلِ شوریٰ کو طلب کیا۔ شوریٰ کے ارکان میں حضرت عبد الرحمن بن عوف‘ حضرت عمر بن خطاب‘ حضرت عثمان بن عفان‘ حضرت علی بن ابی طالب‘ حضرت سعید بن زید‘ حضرت اسید بن حضیر اور حضرت ابو الاعور رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ اول الذکر پانچ صحابہ تو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ان کا تعلق مہاجرین سے ہے جبکہ آخری دو صحابہ انصار میں سے ہیں اور ان کی بھی بڑی فضیلت آنحضورﷺ کی زبان مبارک سے بیان ہوئی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اہلِ مشاورت نے حضرت ابو بکرؓ سے پوچھا کہ ان کے ذہن میں کس کا نام ہے تو آپؓ نے حضرت عمرؓ کا نام بتایا۔ امام طبری کے مطابق تمام صحابہ نے نہ صرف اس تجویز سے اتفاق کیا بلکہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ نے تو واضح الفاظ میں کہا کہ امت عمر بن خطابؓ کے سوا کسی اور شخص پر متفق نہیں ہو گی۔ یہ واقعہ ابن اثیر نے بھی لکھا ہے۔ (الکامل فی التاریخ ج: 4، ص: 51 تا 52، اسد الغابۃ ج: 4، ص: 70)
حضرت عمرؓاپنے دس سالہ دورِ خلافت کے بعد ایک بدبخت پارسی ابو لولو فیروز کے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے۔ آپؓ نے مستقبل کے خلیفہ کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک چھ رکنی کمیٹی مقرر کی۔ یہ سب ارکان عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ ان میں حضرت عبد الرحمن بن عوف‘ حضرت سعد بن ابی وقاص‘ حضرت عثمان بن عفان‘ حضرت علی بن ابی طالب‘ حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی ملتے ہیں۔ شوریٰ نے اس اہم موضوع پر اپنے اجلاس میں بحث و تمحیص کے بعد طے کیا کہ عبدالرحمن بن عوفؓ عوام الناس سے استصواب کرائیں اور پھر مجلس میں اپنی رپورٹ پیش کریں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے تین دن انتہائی محنت و مشقت سے اس اہم اور نازک ترین ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا حق ادا کیا۔ جاور پھر تیسرے دن کے اختتام پر سب کی موجودگی میں مسجد نبوی میں اعلان فرمایا کہ امت کی اکثریت نے عثمان بن عفانؓ کو یہ ذمہ داری اٹھانے کا مکلف بنایا ہے۔ یہ اعلان ہوتے ہی تمام لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ (اسد الغابۃ ج: 4، ص: 75، البدایۃ والنھایۃ، ج: 7، ص: 145 تا 146)
حضرت عثمانؓ نے تقریباً بارہ سال خلافت کی‘ آخری دور میں کچھ فتنے سر اٹھانے لگے‘ جن کے نتیجے میں وہ فساد رونما ہوا جس میں آپؓ کو مدینہ کے اندر شہید کر دیا گیا۔ خلیفۂ سوم کی مظلومانہ شہادت کے بعد امتِ مسلمہ پر ایک بہت ہی مشکل اور کڑا وقت آگیا۔ اس موقع پر مدینہ کے سب لوگوں نے حضرت علیؓ سے درخواست کی کہ وہی اس نازک گھڑی میں امت کی قیادت کا فریضہ ادا کر سکتے ہیں۔ امام طبری کے بقول حضرت علیؓ نے فرمایا کہ کسی دوسرے پر یہ ذمہ داری ڈالو‘ مگر لوگ کسی اور کے بارے میں سوچنے پر بھی تیار نہ تھے۔ شدید اصرار پر انہوں نے فرمایا کہ خلافت پوری امت کی امانت ہے‘ یہ خفیہ طریقے سے اور چند لوگوں کے درمیان طے نہیں پا سکتی۔ اس پر لوگوں نے انہیں کہا کہ وہ مسجد میں تشریف لائیں اور خود اپنی آنکھوں سے پورا منظر دیکھ لیں۔ جب وہ مسجد میں تشریف لائے تو جم غفیر والہانہ ان کی طرف لپکا اور سب نے بلا اختلاف و استثنا ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔
حضرت معاویہؓ نے شام میں اپنی الگ حکومت تشکیل دی جس کے بارے میں کئی صحابہ نے انہیں بتایا کہ وہ خلیفہ نہیں بلکہ بادشاہ ہیں۔ سیدنا معاویہؓ خود بھی یہ تسلیم کرتے تھے۔ اس معاملے میں انہوں نے غلط تعبیرات کا سہارا نہیں لیا۔ چوتھے خلیفۂ راشد سیدنا علیؓ نے تقریباً پونے پانچ سال تک حکومت کی۔ پھر انہیں ایک خارجی عبد الرحمن ابن ملجم نے شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے حضرت حسنؓ کی بیعت کی گئی مگر انہوں نے چھ ماہ بعد امت کو افتراق سے بچانے کی خاطر حضرت معاویہؓ کے ساتھ مصالحت کرکے ان کی بیعت کر لی۔ نبی اکرمﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا: میرے بعد خلافت 30 سال تک رہے گی‘ پھر ملوکیت کا دور ہو گا۔ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت سفینہؓ سے سعید بن جمہانؓ نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے چاروں خلفائے راشدین کے دورِ خلافت کو الگ الگ بیان کیا اور فرمایا یہ 30سال پورے بنتے ہیں۔ سعید نے کہا: مگر بنو امیہ تو سمجھتے ہیں کہ وہ بھی خلفا ہیں۔ حضرت سفینہؓ نے کہا: وہ غلط کہتے ہیں‘ وہ ملوک ہیں۔ (سنن ترمذی) علامہ علقمیؒ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے شیخ نے فرمایا کہ ان 30سالوں میں چاروں خلفائے راشدین کے دورِ خلافت کے ساتھ سیدنا حسنؓ بن علی کے دور کو بھی شامل کیا جائے تو پورے 30سال بن جاتے ہیں۔ (عون المعبود جلد دہم‘ ص: 164)
حضرت معاویہؓ صحابیِ رسول تھے۔ ان کی بادشاہت کو صحابہؓ نے عمومی طور پر قبول کیا تاہم جب انہوں نے اپنی ملوکیت کو موروثی بنانا چاہا تو صحابہؓ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ تمام معروف صحابہ نے یزید کو حکمران تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ انصار و مہاجرین کی اکثریت نے یزید کی حکمرانی پر نکیر کی۔ان میں حضرت عبد اللہ بن زبیر‘ حضرت عبد اللہ بن عمر‘ حضرت عبد اللہ بن عباس‘ حضرت حسین بن علی‘ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر‘ حضرت احنف بن قیس اور حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یزید اپنی ذاتی حیثیت اور کردار کے لحاظ سے بھی خلافت کا کسی صورت اہل نہ تھا اور پھر اس کے تقرر اور نامزدگی کا طریقہ بھی موروثی بادشاہت کا اثبات اور مشاورت و اہلیت کا انکار تھا۔ اس وجہ سے سیدنا امام حسینؓ نے فیصلہ کیا کہ نظامِ اسلام کے ایک اہم ترین رکن کے خاتمے پر خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے جدوجہد کا راستہ اپنایا جائے۔ آپؓ نے بہت بڑی قربانی دی مگر یہ اصول کہ اسلام میں نظامِ حکومت شورائی اور مبنی براہلیت ہے‘ زندہ کر دیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved