سوشل میڈیا پر ہر وقت بڑی دلچسپ بحث چھڑی رہتی ہے۔ گوگل سرچ پرانی ہوگئی اب نیا دور Grok کا ہے جو ٹویٹر (ایکس) پر گوگل ٹائپ ٹول ہے لیکن اس کے فنکشن مختلف ہیں۔
جیسے پچھلے ادوار میں ہر گائوں‘ ہر محلے کے بزرگوں اور خواتین کو گھر کے کام کاج سے فراغت کے بعد گپ شپ کیلئے کوئی نہ کوئی موضوع چاہیے ہوتا تھا‘ اس طرح اب سوشل میڈیا ویسا ہی چوپال بن چکا ہے۔ اسے ڈیرہ کہیں یا تھڑا یا حجام کی دکان‘ جہاں ہر قسمی لنگر گپ چلتی رہتی ہے اور بعض دفعہ تو اتنی سنجیدگی سے چلتی ہے کہ بڑے بڑے صحافی اور اینکرز اس لنگر گپ کو سنجیدہ لے کر اس پر پروگرام تک کر گزرتے ہیں اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ سب تو لنگر گپ تھی۔سوشل میڈیا کو روزانہ کوئی نہ کوئی چسکا اور ڈرامہ درکار ہوتا ہے جس پر سارا دن ہم پانی میں مدھانی مارتے رہیں مگر اندر سے نہ مکھن نکلے اور نہ ہی لسی۔ بس مدھانی گھمائی جائو۔ آج کل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ خیر‘ یہ کام تو بڑے سالوں سے ہو رہا لیکن اب جب سب ''کھوچل میڈیا‘‘... اوہ سوری! میرا مطلب ہے سوشل میڈیا کا استعمال سیکھ گئے ہیں‘ بقول ایلون مسک‘ اب دنیا میں جو چار ارب افراد سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فورمز استعمال کرتے ہیں وہ سب ''شہری صحافی‘‘ ہیں‘ تو وہ سب خود کو نیوز بریکرز سمجھ کر فیس بک‘ ٹویٹر‘ یوٹیوب‘ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔
آج کل دو کام سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ جا رہے ہیں۔ ایک تو ایکس پر Grok‘ جس سے آپ کسی بندے‘ ملک یا ایشو پر کچھ بھی پوچھ لیں وہ چند سکینڈز میں آپ کو مختصر معلومات دیدے گا۔ اب گوگل سے زیادہ لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ کام وہی گوگل والا ہے لیکن بدلتے دور میں مصنوعی ذہانت کی وجہ سے اس میں بہت بہتری اور جدت آ گئی ہے لہٰذا یہ نوجوان نسل کو زیادہ بھاتا ہے۔ ایک دوست نے کہا کہ جناب! یہ بہت بڑی ایجاد ہے‘ اس سے فلاں سوال پوچھ کر دیکھیں۔ میں نے پوچھا: آپ کو علم ہے کہ یہ کیسے آپریٹ کرتا ہے؟ وہ سمجھے شاید مجھے اس کے استعمال کا طریقہ نہیں آتا لہٰذا وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ مجھے سمجھانے لگ گئے۔ میں نے کہا: سر جی! میرا سوال کچھ اور ہے۔ میں بھی یہ استعمال کرتا ہوں‘ میں آپ سے کچھ اور پوچھ رہا ہوں۔ میں یہ پوچھ رہا کہ یہ نیا ٹول کسی بھی ایشو کے بارے میں جو تمام معلومات آپ کو چند سکینڈز میں لا کر دیتا ہے اور جس سے آپ نتائج اخذ کر لیتے ہیں‘ یہ کہاں سے اکٹھی کرتا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرنا کہ فلاں ایشو پر یہی بات حقیقت ہے؟ وہ سمجھدار انسان ہیں‘ فوراً میری بات سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ وہ سب کچھ جو پہلے سے انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر موجود ہے یہ ٹول وہیں سے ساری انفارمیشن لے کر چند سطروں میں ایک نتیجہ اخذ کر کے دے دیتا ہے۔ میں نے کہا: اللہ بھلا کرے آپ کا۔ آپ نے میرا کام آسان کر دیا۔
کبھی کسی ایشو یا بندے پر مواد اکٹھا کرنے کیلئے کتابوں‘ رسائل یا پرانی لائبریریوں کی ضرورت پڑتی تھی یا پھر لوگوں سے اس بارے پوچھنا پڑتا تھا۔ اس کام میں کئی دن لگتے تھے۔ پھر اخبارات کی فائلوں کا دور آیا تو ان کو کھنگالا جاتا یا پھر اس موضوع پر کتابیں ڈھونڈی جاتی تھیں اور پھر کئی دن تک اس پر لکھا جاتا تھا۔ اس دوران ریسرچ کرنے والا اس عمل کے دوران بہت کچھ پڑھ کر خود بھی ذہنی طور پر میچور ہو جاتا تھا اور یوں بعض لوگوں نے شخصیات پر ایم فل یا پی ایچ ڈی بھی کر لی اور ڈاکٹر کہلائے۔
اخبارات کے بعد ٹی وی کا دور آیا اور پھر انٹرنیٹ اور گوگل آگئے اور اطلاعات تک رسائی تیز سے تیز ہوتی چلی گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ریسرچ کا مواد‘ معیار اور محنت گرتی چلی گئی۔ بس ایک کلک کیا اور آپ کے مطلوبہ موضوع پر درجنوں لنکس آپ کی آنکھوں کے سامنے اُبھر آئے۔ اب ان پر کلک کرتے جائیں اور پڑھتے جائیں اور کاپی پیسٹ کر کے ڈاکٹریٹ کا تھیسس لکھتے جائیں۔ اب نئی ٹیکنالوجی نے اس کام کو مزید تیز تر کر دیا ہے۔ یعنی آپ کو مزید نکما اور نالائق کر دیا ہے۔ گوگل آپ کو پھر دس بیس نیوز یا آرٹیکلز پڑھنے کو دیتا تھا۔ ان کو پڑھ کر آپ کوئی نہ کوئی رائے بنا لیتے تھے یا آپ کو سب کا مؤقف یا مدعا پتا چل جاتا تھا کہ کیا سچ اور کیا جھوٹ ہے۔ اب تو یہ سلسلہ بھی ختم ہوا۔ اب آپ کو اس نئے ٹول نے کسی بھی ایشو پر چند سطروں میں بتا دینا ہے اور ایسے ظاہر کرنا ہے جیسے یہ سب کچھ اس نے خود کہا ہے اور جو وہ کہہ رہا ہے وہی حتمی سچ ہے۔ اس پر نوجوان ایمان لے آتے ہیں اور اس رائے کو دھڑا دھڑ شیئر کرنے لگتے ہیں اپنے مخالفین کی بھد اڑانے کیلئے۔
میں نے کہا: مزے کی بات یہ ہے کہ یہ نیا ٹول کچھ نیا نہیں دے رہا۔ جس ایشو بارے آپ پوچھ رہے ہیں وہ سب مواد برسوں سے گوگل کے پاس پڑا ہے۔ وہ سب لوگوں کی رائے‘ کمنٹس یا پوسٹوں اور سٹیٹس کی شکل میں پہلے سے ویب سائٹس پر موجود ہے۔ آپ کے دوستوں یا دشمنوں نے جو کچھ آپ کے بارے یا آپ کے ملک‘ قبیلے یا افراد بارے لکھا ہے وہ سب بھی موجود ہے۔ یہ ٹول چند سکینڈز میں ان تمام معلومات کا جائزہ لے کر ایک سمری کی شکل میں آپ کے ساتھ شیئر کر دیتا ہے اور آپ اسے اپنے مخالفوں کے خلاف چارج شیٹ سمجھ کر پھیلا دیتے ہیں کہ دیکھو! نئے ٹول نے تو یہ کہہ دیا ہے۔
ہمارے خطے میں نئی ٹیکنالوجی ہمیشہ باہر سے آئی ہے۔ ہم نے کبھی ٹیکنالوجی خود سے ایجاد کرنے کی کوشش نہیں کی یا ہمارا مائنڈ سیٹ ایسا نہیں رہا۔ ہاں! ٹیکنالوجی کو کاپی کرنا ہو تو ہم بہت ماہر ہیں۔ ہر چیز کی کاپی ہمارے پاس دستیاب ہے۔ چاہے وہ کھانے پینے یا استعمال کی اشیا ہوں یا دو نمبر قیادت‘ یہاں سب کچھ مل جاتا ہے لہٰذا جو بھی ٹیکنالوجی ہمارے ہاں پہنچتی ہے اور کچھ عرصے بعد عوامی سطح پر استعمال میں آتی ہے‘ اس کے دو اثرات ہوتے ہیں۔ پہلے لوگ نئی چیزوں کو کافروں کی ایجاد قرار دے کر ان کو مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دے کر مسترد کر دیتے اور ان سے ڈر جاتے یا پھر ان کا غلط استعمال شروع کر دیتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک پرانی کتاب پڑھ رہا تھا جو کسی انگریز نے ہندوستان میں ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے بارے لکھی تھی۔ جب دور دراز گائوں میں ریلوے ٹریک پر پہلی دفعہ کالا انجن دھواں چھوڑتا اور گرجدار آواز نکالتا‘ سیٹی بجاتا تیزی سے دوڑتا دیکھا گیا تو لوگ خوف کے مارے گائوں کے گائوں چھوڑ کر بھاگ گئے کہ کوئی بہت بڑی آسمانی مخلوق ان پر حملہ کرنے آ رہی ہے۔ مصنف نے لکھا کہ کافی محنت اور بہت دیر بعد وہ ہندوستانیوں میں انجن کا خوف دور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اب کم از کم یہ فرق پڑا ہے کہ ہم نئی ٹیکنالوجی کو حرام قرار دے کر ڈرنے کے بجائے اس کو اپنے مخالفین کی کردار کشی کیلئے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ پہلے سوشل میڈیا فورمز کو کسی کے بارے میں جی بھر کر گالی گلوچ اور الزامات سے بھر دو اور پھر ان ایپس سے پوچھو کہ ذرا فلاں کے بارے میں بتانا کہ وہ کیسا بندہ ہے؟ اس ٹول نے تو سوشل میڈیا پر موجود مواد ہی کی سمری بنا کر آپ کو دینی ہے اور آپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔
ہماری بھی کیا چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں۔ پہلے فیس بک اور ٹویٹر پر اپنے مخالفین اور ناپسندیدہ لوگوں کو خود گالیاں دیتے تھے‘ جس پر مقدمے بھی ہو جاتے تھے یا ایف آئی اے والے اٹھا لے جاتے تھے۔ اب وہی گالیاں ہم ''گروک‘‘ سے دلواتے ہیں۔ خدا سلامت رکھے ان کمبخت گوروں کو جو ہر سال کوئی نئی ٹیکنالوجی ایجاد کر کے ہمیں گالی گلوچ اور بدزبانی کے شغل میں مصروف رکھتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved