تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     09-07-2025

سیاستدانوں کے ہاتھوں جمہوریت کا خاتمہ؟

جو بندہ تازہ تازہ امریکہ سے واپس آیا ہو اسے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ جمہوریت کیا ہے۔ جمہوریت میں انتخابات آزادانہ ہوتے ہیں‘ عدلیہ پابہ زنجیر نہیں ہوتی‘ مقامی حکومتیں‘ ریاستی حکومتیں اور وفاقی حکومت‘ سب اپنے اپنے دائرے میں کام کرتی ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرتا۔ ڈیپ سٹیٹ ہوتی تو ہے مگر وہ بہت ڈیپ ہوتی ہے۔
2018ء کے عام انتخابات کیسے تھے اور پھر 2024ء کے انتخابات میں کیا کچھ ہوا‘ سب کے سامنے ہے۔ الیکشن کمیشن کو قوت دستور اور دستور سازوں سے ملتی ہے‘ اس کے علاوہ اگر عدلیہ سو فیصد آزاد ہو اور حق اور سچ کیلئے ڈٹ جانے والی ہو تو اس سے بھی الیکشن کمیشن کو سپورٹ ملتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر چیف الیکشن کمشنر کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لانے والا ہو تو اس کیلئے صرف آئین کی قوت ہی کافی ہوتی ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر صاحب کے بارے میں کچھ ذاتی معلومات کی بنا پر اس خاکسار کا تاثر یہ تھا کہ وہ انگریزی محاورے کے مطابق Go by the book جائیں گے‘ مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ کالم کی تنگ دامانی تفصیلات میں جانے سے مانع ہے۔ یہ خاکسار اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ اگر سیاستدان ذاتی مفادات سے بلند و بالا ہو جائیں اور ایک دوسرے کو مقتدرہ کے ساتھ مل کر نیچا دکھانے اور اپنے اقتدار کو لازوال بنانے کا خیال دل سے نکال دیں اور آئین کے تحفظ و تقدس پر حق الیقین رکھیں تو پھر یہاں جمہوریت بھی نشوونما پا سکتی ہے اور معیشت میں بھی مستقل بنیادوں پر خوشحالی آ سکتی ہے۔
ان دنوں ملی جلی خبریں گردش میں ہیں۔ بعض خبریں حوصلہ افزا اور بعض مایوس کن ہیں۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ حکومت اگر سنجیدگی سے مذاکرات کیلئے آگے بڑھے تو ہم اس کیلئے تیار ہیں۔ پی ٹی آئی کے سیاسی فورم سے شاید پہلی مرتبہ یہ نہیں کہا گیا کہ ہم صرف اُن سے مذاکرات کریں گے جن کے ہاتھ میں اختیار ہے۔ ''بے اختیار‘‘ لوگوں سے بات نہیں کریں گے۔ دوسری اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ اسیروں نے حکومت سے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اپنی جماعت کی زنداں سے باہر قیادت کو ہدایات دیں۔ اس کے علاوہ ایک اور اچھی خبر یہ سننے میں آ رہی ہے‘ اگرچہ اس کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی کہ میاں نواز شریف پسِ دیوار زنداں عمران خان سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ میاں صاحب کی بالغ نظری کی دلیل ہو گی۔ تاہم سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کے مطابق میاں صاحب ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔اگر حکومت واقعی تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو پھر اسے تحمل‘ برداشت اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کے کلچر کو پروان چڑھانا چاہیے۔
پنجاب اسمبلی کے سپیکر ملک محمد احمد خان کو جتنا تھوڑا بہت یہ خاکسار جانتا ہے اس کے مطابق تو وہ ایک معتدل اور معقول شخصیت تھے‘ مگر اب وہ اپوزیشن کے 26ارکانِ پنجاب اسمبلی کو جس طرح تہ تیغ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور آرٹیکل 62اور 63کو وہ کسی آمر کی باقیات کے طعنے دے رہے ہیں‘ ملک صاحب یہ بات بھول گئے ہیں کہ سابق آمروں کو طعنے دینے سے بات ان کے آنگن تک آ پہنچے گی۔ شاید ملک صاحب مغلوب الغضب ہو رہے ہیں۔ اکثریتی جماعت سے تعلق رکھنے کے باوجود سپیکر سب کا ہوتا ہے۔ خود مسلم لیگ (ن) بھی سابقہ اسمبلیوں میں اس طرح کے احتجاج کرتی رہی ہے۔ ہم اُس پروفیسر اور ایڈمنسٹریٹر کو ناکام سمجھتے تھے جو بات بات پر طلبہ کی شکایات لے کر پرنسپل یا وائس چانسلر کے پاس چلا جایا کرتا تھا۔ اچھا سپیکر اپنی وسیع النظری اور وسیع القلبی سے ہاؤس خود سنبھالتا ہے۔ ملک صاحب انہی صفات سے کام لیتے ہوئے خود الیکشن کمیشن سے 26 ارکانِ اسمبلی کے خلاف ریفرنس واپس لیں اور ایک اچھی مثال قائم کریں۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ صاحب بھی ایک معقول شخصیت کا تاثر رکھتے تھے مگر وہ بھی سپیکر کے لامحدود اختیارات کی دھمکیاں دے کر جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔
اب آئیے کچھ تشویشناک افواہوں یا خبروں کی طرف۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سنا جا رہا ہے کہ کوئی 27ویں آئینی ترمیم بھی لائی جا رہی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم سو سو جتن کرکے آزاد عدلیہ کو پابہ جولاں کرنے کیلئے لائی گئی تھی۔ پہلے چیف جسٹس سنیارٹی کی بنیاد پر از خود اس منصب جلیلہ پر فائز ہو جاتا تھا مگر اس ترمیم کے بعد ایک پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ترین ججوں میں سے ایک کو منتخب کر کے اس کی تعیناتی کی سفارش وزیراعظم کو بھیجے گی جو اس کی تعیناتی کے احکامات جاری کریں گے۔ اس ترمیم کے بعد چیف جسٹس کا سوموموٹو اختیار ختم ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس تین سال تک اپنے عہدے پر برقرار رہے گا۔ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ میں الگ الگ آئینی بینچز بنائے جائیں گے۔ اس ترمیم کی روشنی میں یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ ترمیم میں بعض ''سٹرکچرل‘‘ تبدیلیاں بھی کی جائیں گی۔ دراصل اس مجوزہ ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ اور عدالت کی طرف سے ''ستے خیراں‘‘ کا انتظام مطلوب ہے۔ ایک افواہ یہ بھی سننے میں آ رہی ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو ہٹایا جا رہا ہے اور اُن کی جگہ کوئی ''بندوبستِ دوامی‘‘ لایا جا رہا ہے۔
سیاستدانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اپنے دورِ اقتدار میں اپوزیشن کو دبانے کیلئے آئین اور عدلیہ میں وہ جو تبدیلیاں لاتے ہیں مستقبل میں وہی اُن کے راستے کا کوہِ گراں بن جاتی ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی کیلئے بالخصوص اور باقی سیاسی جماعتوں کیلئے بالعموم باہمی مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت مذاکرات پر یقین رکھتی ہے مگر عمران خان کو جیل میں بعض سمجھانے والے یہ سمجھاتے ہیں کہ آپ تاریخ کی درست جانب کھڑے ہیں۔ آپ اس وقت استقامت‘ مزاحمت اور ہمت کا استعارہ ہیں۔ کچھ انہیں یہ بتاتے ہیں کہ آپ نے اگر مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کیا تو آپ کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے آ جائے گا۔پی ٹی آئی کے بعض جوشیلے حضرات قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے اور خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت چھوڑنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی پہلے ہی قومی اسمبلی سے باہر آنے‘ اپنی صوبائی حکومتوں کو توڑنے کی کوہ ہمالیہ جتنی بڑی غلطیاں کر چکی ہے۔ اب اس طرح کا کوئی قدم اپنے پاؤں پر آخری کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔
لاہور سے پی ٹی آئی کے جن اسیروں نے مذاکرات کیلئے اپنے بانی کو خط لکھا ہے اُن میں ڈاکٹر یاسمین راشد‘ شاہ محمود قریشی‘ اعجاز چودھری‘ میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ شامل ہیں۔ یہ سبھی اسیران مصائب سے گھبرانے والے نہیں۔ انہوں نے بانی کو بلاتاخیر حکومت سے مذاکرات کا مشورہ دیا ہے‘ جو نہایت صائب ہے۔ سیاست نام ہی حکمت و تدبر سے کام لینے کا ہے۔ یہ اَنا پرستی اور شدت پسندی کا نام نہیں۔ سیاست ایوانوں اور زندانوں کے درمیان آمد و رفت کا نام ہے۔ سیاست کبھی اقتدار اور کبھی اختلاف کا نام ہے۔ سیاست کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی کا نام ہے۔ تیسری دنیا میں تو سیاست پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا نام ہے کیونکہ چھوٹی سی غلطی نہ صرف آپ کو محرومِ اقتدار کر سکتی ہے بلکہ خود سیاست و جمہوریت کا بوریا بستر بھی گول کرا سکتی ہے۔
بیرونِ ملک پی ٹی آئی والوں کی ایک بڑی اکثریت بھی مذاکرات کے حق میں ہے۔ ملکی حالات ایک بار پھر اہم موڑ پر آ چکے ہیں۔ حکومت کو مزید کوئی آئینی ترمیم نہیں لانی چاہیے۔ پی ٹی آئی بھی لاحاصل احتجاج کا راستہ چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر کھلے دل و دماغ کے ساتھ آ بیٹھے۔ حکمران جماعتوں اور پی ٹی آئی کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ تاریخ کی درست سمت میں وہی کھڑا ہو گا جو جمہوریت کے خاتمے کا نہیں اس کے تسلسل کا باعث بنے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved