تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     10-07-2025

ایک آرزو

''ایک آرزو‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبال کی ایک نظم ہے۔ اس کی صحیح وجدانی کیفیت کا ادراک تو وہ لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے پہاڑی علاقوں میں بہنے والے دریائوں اور ندی نالوں کا منظر دیکھا ہو کہ جہاں جھاڑیاں ہوتی ہیں اور دریا میں بہنے والے پانی کے دونوں اطراف سبزہ بچھا ہوتا ہے اور ماحول پُرسکون ہوتاہے۔ چھوٹی چھوٹی آبشاروں اور آبریزوں کی نغمگی سے معمور آوازیں آ رہی ہوتی ہیں‘ چڑیاں چہچہا رہی ہوتی ہیں اور ہر سُو سکوت طاری ہوتا ہے۔ ایسے میں آدمی اپنے ہاتھ کا سرہانہ بنائے سبزے پہ لیٹا ہو اور قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔ ہم نے سکول کے زمانے میں یہ نظم پڑھی تھی اور اس کے مناظر بھی دیکھے تھے‘ اس لیے یہ کبھی ذہن سے محو نہ ہو سکی۔ آج جبکہ شور وشرر‘ ہائو ہُو‘ چیخ پکار‘ ٹریفک اور کارخانوں کا شور اور ماحول کی آلودگی قدرتی فضا کو زہر آلود کر رہی ہے تو چشمِ تصور میں اس نظم کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
''دُنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب؍ کیا لُطف انجمن کا‘ جب دل ہی بُجھ گیا ہو ٭شورش سے بھاگتا ہوں‘ دل ڈھونڈتا ہے میرا؍ ایسا سکُوت جس پر تقریر بھی فدا ہو ٭مرتا ہوں خامشی پر‘ یہ آرزو ہے میری؍ دامن میں کوہ کے اک‘ چھوٹا سا جھونپڑا ہو‘‘
مفہوم: اے پروردگار! دنیا کی محفلوں سے طبیعت اُکتا گئی ہے‘ جب دل پر مایوسی کی کیفیت طاری ہو تو مجلسی زندگی میں کیا لطف آئے گا۔ اس لیے شورش سے طبیعت متنفر ہو رہی ہے اوردل ایسے سکوت کا متلاشی ہے کہ جس پر خطاب اور تکلُّم بھی فدا ہونا پسند کرے۔ خاموشی میری تمنا ہے‘ کاش کہ پہاڑ کے دامن میں میرے رہنے کیلئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہو اور چاروں طرف سکوت طاری ہو۔
''آزاد فکر سے ہوں‘ عُزلت میں دن گزاروں؍ دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو ٭لذّت سُرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں؍ چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو ٭گُل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا؍ ساغَر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو‘‘
مفہوم: ایسا ماحول چاہیے کہ دنیا کی ہر فکر سے آزاد ہوکر تنہائی میں وقت گزاروں اور دل میں کسی چیز کا غم نہ رہے۔ جب چڑیاں چہچہا رہی ہوں تو ایسے پُرسکون ماحول میں نغمگی کا سرور محسوس ہو اور پہاڑی چشموں سے پانی بہنے کی آواز ایسی لگے جیسے کوئی دلکش اور سَمع نواز ساز بج رہا ہے۔ اتنا سکوت ہو کہ پھول کی کلی کے چٹکنے کی آواز بھی محسوس ہو اور قدرتی پانی کا جام میرے لیے جامِ جَم سے زیادہ قیمتی ہو۔ افسانوی روایات کے مطابق جامِ جم فارس کے بادشاہ جمشید کی طرف منسوب ہے‘ اُس پر ایسے نقوش بنے ہوئے تھے جن سے مستقبل کا حال معلوم کیا جا سکتا تھا۔
''ہو ہاتھ کا سَرھانا‘ سبزے کا ہو بچھونا؍ شرمائے جس سے جَلوت‘ خَلوت میں وہ ادا ہو ٭مانوس اس قدر ہو‘ صورت سے میری بُلبل؍ ننھّے سے دل میں اُس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو‘‘
مفہوم: ہاتھ کا سرہانا بناکر قدرتی بچھے ہوئے سبزے پہ لیٹ جائوں اور ایسی تنہائی ہو کہ جس کے سامنے پُررونق محفلیں بھی شرما جائیں۔ پہاڑی بلبل میری صورت سے اس قدر مانوس ہو جائے کہ وہ مجھ سے چھیڑ چھاڑ اورمعصومانہ شرارتیں کرے اور اُسے مجھ سے ذرا بھی خطرہ محسوس نہ ہو۔
''صف باندھے دونوں جانب بُوٹے ہرے ہرے ہوں؍ ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو ٭ہو دل فریب ایسا کُہسار کا نظارہ؍ پانی بھی موج بن کر‘ اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو ٭آغوش میں زمیں کی‘سویا ہُوا ہو سبزہ؍ پھِر پھِر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو‘‘
مفہوم: ندی کے دونوں جانب ہرے بھرے درختوں کی قطاریں ہوں اور جب ندی کے صاف پانی میں اُن کا عکس نظر آئے تو لگے کہ یہ پانی اُن کی تصویر لے رہا ہے۔ ندی کے دونوں جانب پہاڑوں کا نظارہ انتہائی دلفریب ہو‘ ایسا لگے کہ ندی کا پانی اچھل اچھل کر ان مناظر کو دیکھ رہا ہے۔ پہاڑ کی آغوش میں پُرسکون سبزہ ایسے بچھا ہو کہ جیسے سو رہا ہے اور بل کھاتی ہوئی جھاڑیوں کے درمیان سے ندی کا ہر آلودگی سے پاک شفاف پانی چمک رہا ہے۔
''پانی کو چھو رہی ہو جھُک جھُک کے گُل کی ٹہنی؍ جیسے حَسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو ٭مہندی لگائے سورج جب شام کی دُلھن کو؍ سُرخی لیے سنہری ہر پھول کی قَبا ہو ٭راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم؍ اُمید اُن کی میرا ٹُوٹا ہوا دِیا ہو‘‘
مفہوم: ندی کے دونوں طرف درختوں کی ٹہنیاں اس طرح جھک کر پانی کو چھو رہی ہوں جیسے کوئی حسین آئینہ دیکھتا ہے۔ سورج غروب ہونے کا منظر ایسا لگے کہ جیسے شام کی دُلہن کو مہندی لگائی گئی ہے اور اُس کی سرخی ہر پھول پر منعکس ہو رہی ہے۔ جنگل کے مسافر جب چلتے چلتے تھک کر آرام کی تلاش میں ہوں تو میرا ٹوٹا ہوا دیا اُن کے لیے امید کی کرن ہو۔
''بجلی چمک کے اُن کو کُٹیا مری دکھا دے؍ جب آسماں پہ ہر سُو بادل گھِرا ہوا ہو ٭پچھلے پہر کی کوئل‘ وہ صبح کی مُؤذِّن؍ میں اُس کا ہم نوا ہوں‘ وہ میری ہم نوا ہو ٭کانوں پہ ہو نہ میرے دَیر و حرم کا اِحساں؍ روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو‘‘
مفہوم: جب آسمان پہ ہر سُو بادلوں کی اندھیریاں چھائی ہوئی ہوں اور بجلی چمکے تو اُس کی روشنی میں مسافروں کو میری جھونپڑی نظر آئے۔ رات کے پچھلے پہر جب کوئل کُوکُو کرے تو لگے کہ وہ صبح کی اذان دیتے ہوئے میری ہمنوا بن رہی ہے۔ کسی عبادت گاہ کا‘ جہاں سے عبادت کیلئے بلایا جاتا ہے‘ میرے کانوں پر کوئی احسان نہ ہو‘ بلکہ میری جھونپڑی کا روشن دان نما سوراخ ہی مجھے صبح کا پتا دے۔
''پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے؍ رونا مرا وضو ہو‘ نالہ مری دُعا ہو ٭اس خامُشی میں جائیں اتنے بلند نالے؍ تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو ٭ہر درد مند دل کو رونا مرا رُلا دے؍ بے ہوش جو پڑے ہیں‘ شاید انہیں جگا دے‘‘
مفہوم: جب رات کودرختوں کے پھولوں اور پتوں پر شبنم کے قطرات نمودار ہوں تو لگے کہ وہ پھولوں کو وضو کرا رہی ہے‘ جبکہ تنہائی میں میرا رونا میرا وضو ہو اور میری فریاد میری دعا ہو۔ اس خاموش ماحول میں مَیں اتنی اونچی آواز سے فریادیں کروں کہ آسمان کے تارے میری آواز سن کر متوجہ ہو جائیں۔ مجھے ایسی حضوری کی کیفیت نصیب ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میرا رونا ہردرد مند دل کو رُلا دے اور جو ذاتِ باری تعالیٰ سے غافل ہو کر مدہوش پڑے ہیں‘ انہیں بھی جگا دے۔ شاید مرزا غالب بھی دنیا کی محفلوں‘ مکر وفریب اور نمود ونمائش سے اکتا گئے تھے اور پھر ایسی ہی خَلوت کی تمنا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے جذبات کو منظوم کیا ہو گا:
''رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو؍ ہم سُخَن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو ٭بے در ودیوار سا اک گھر بنایا چاہیے؍ کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو ٭پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار؍ اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو‘‘
مفہوم: غالب! اب ایسی جگہ چل کر ٹھکانا بنائو‘ جہاں نہ کوئی رازدار ہو اور نہ کوئی آپ کی زبان کو سمجھنے والا ہو۔ بس ایک ایسا گھر چاہیے کہ جس میں سائبان تو ہو‘ لیکن کوئی درو دیوار ہو‘ نہ کوئی ہمسایہ اور نہ کوئی پاسبان ہو۔ اگر خدا نخواستہ بیمار پڑ جائوں تو کوئی تیماردار نہ ہو اور مر جائوں تو کوئی نوحہ کرنے والا نہ ہو‘ الغرض اپنے ہر دکھ درد کو خود ہی بھگتوں اور ہر غم کو خود ہی سمیٹوں‘ کسی کے رحم کا آسرا نہ ہو۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غالب کی اس فکر کی تائید کر رہے ہیں‘ آپ کو اُن کی کیفیت سے آگاہ کر رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved