تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     11-07-2025

عمران خان نئی بازی کھیلنے کو تیار ہیں؟

جو بات ایک طعنے سے شروع ہوئی تھی وہ دھیرے دھیرے اب حقیقت کا روپ دھارتی دکھائی دیتی ہے۔ مریم نواز صاحبہ نے کچھ عرصہ قبل پاکستان تحریک انصاف کی ایک احتجاجی تحریک کے دوران کہا تھا کہ عمران خان دوسروں کے بچوں کو سڑکوں پر مروانے کے بجائے لندن سے اپنے بچوں کو بلائیں اور ان سے احتجاجی تحریک لیڈ کرائیں۔ اب علیمہ خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دونوں بیٹے پاکستان آکر احتجاجی تحریک کو لیڈ کر سکتے ہیں‘ جس پر پورے ملک میں نئی بحث چھڑ گئی ہے اور بیانات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام رانا ثناء اللہ نے کیا ہے جنہوں نے اس بات کو اتنی اہمیت دی کہ سرخیاں بن گئیں کہ اگر عمران خان کے بیٹے پاکستان آئے تو انہیں مشکلات ہوں گی۔مشکلات سے مراد شاید ان کی گرفتاری ہے۔ کچھ وزیر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ انہیں پاکستان آنے کی اجازت ہی نہیں دی جائے گی۔ رہی سہی کسر جمائمہ خان نے ایک ٹویٹ سے پوری کر دی ہے کہ ایک عرصے سے ان کے بچوں کی اپنے والد سے بات نہیں کرائی جا رہی بلکہ اب دھمکی ملی ہے کہ میرے بیٹے اپنے والد سے ملنے پاکستان گئے تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوری ملکوں میں تو ایسا نہیں ہوتا‘ یہ تو ذاتی انتقام ہے۔
یوں پاکستان آئے بغیر ہی قاسم اور سلیمان نے یہاں کا سیاسی ماحول گرم کر دیا ہے اور شاید وہ پاکستان نہ آئیں لیکن ایک بڑا مقصد وقتی طور پر حاصل کر لیا گیا ہے۔ رانا ثناء اللہ کے بارے مشہور ہے کہ وہ نواز لیگ کے لیے کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہتے ہیں جس سے ان کے سیاسی مخالفوں یا میڈیا کا کام چلتا رہتا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو رانا صاحب نے 2023ء میں میاں نواز شریف کی لندن واپسی سے پہلے ایک ٹی وی شو میں ایک ایسا بیان دیا تھا جو نواز لیگ کے گلے پڑ گیا تھا۔ ایک ٹی وی شو میں ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی کے لیے ڈیل ہو گئی ہے۔ جب پوچھا گیا کہ کس سے ڈیل ہوئی ہے تو ان کا کہنا تھا جن کا آپ سمجھ رہے ہیں ان سے بھی بات ہو گئی ہے۔ یوں عمران خان اور دیگر نے اس بیان کو بہت اچھالا کہ دیکھ لیں مقتدرہ اور نواز شریف کے درمیان ڈیل ہو گئی ہے لہٰذا نئے الیکشن غیرجانبدار نہیں ہوں گے اور دھاندلی کے ذریعے نواز لیگ کو اقتدار میں لایا جائے گا۔ اور یہ تاثر ہر گزرے دن کے ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا کہ اگر رانا ثناء اللہ خود کہہ رہا ہے کہ 'ساڈی گل ہو گئی اے‘ تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ مطلب سب کچھ پہلے سے طے ہو چکا ہے اور الیکشن محض ڈھکوسلہ ہیں کیونکہ نتیجہ سب کو معلوم ہے۔ اس بیان کی وجہ سے نواز لیگ کا ورکر اور ووٹر بھی تسلی سے گھر بیٹھ گیا کہ جب ان کے لیڈروں کی بات ہو گئی ہے تو انہیں الیکشن میں محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خود میاں نواز شریف نے بھی اس بات کو سیریس لے لیا کہ جب بات ہو گئی ہے تو مجھے الیکشن مہم کو جارحانہ انداز میں چلانے کی کیا ضرورت ہے‘ ہم بھی بس گزارہ کرتے ہیں۔ یوں آپ دیکھ لیں کہ میاں نواز شریف انتخابی مہم کے دوران پنجاب تو چھوڑیں وسطی پنجاب سے بھی باہر نہیں نکلے۔ وہ لاہور کے اردگرد ہی جلسے کرتے رہے۔ نہ شمالی پنجاب میں جلسے کیے نہ ہی سرائیکی علاقوں میں کوئی جلسہ کیا۔ وہ ملتان تک نہیں گئے کیونکہ وہی بات کہ رانا ثناء اللہ نے کہہ جو دیا تھا کہ ہماری بات ہو گئی ہے۔ ہم نے ہی جیتنا ہے یا ہمیں ہی جتوانا ہے تو کیا محنت کریں۔ نتیجہ سامنے ہے کہ میاں نواز شریف کو الیکشن کی رات وکٹری سپیچ کیے بغیر گھر واپس جانا پڑا۔ الیکشن کے بعد دو‘ تین روز تک محنت ہوئی تو انہوں نے تقریر کی۔
اس طرح کا کام بھٹو صاحب نے بھی کیا تھا جب انہوں نے خود کو لاڑکانہ سے بلامقابلہ منتخب کرا لیا تھا۔ ان کو دیکھ کر ان کے دو تین وزرا بھی اسی ڈگر پر چل پڑے اور باقی اہم رہنماؤں نے بھی خود کو بلامقابلہ منتخب کرا لیا۔ یوں اپوزیشن کو موقع مل گیا کہ وہ سارے الیکشن پر سوال اٹھا کر بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلا سکے۔ لہٰذا بعض دفعہ حد سے بڑھا اعتماد بھی آپ کو موت اور پھانسی کے پھندے تک لے جاتا ہے یا سیاسی مسائل پیدا کرتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمائمہ خان اپنے بچوں کو پاکستان آنے دیں گی کیونکہ جمائمہ خان خود سیاست کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر گئی تھیں۔ اگرچہ عمران خان نے اپنی کتاب ''مائی پاکستان‘‘ میں اپنا گھر نہ بسنے کی وجہ میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کو ٹھہرایا تھا کہ انہوں نے خان کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی تھی جس کے بعد ان کا گھر نہ بس سکا تھا۔ ان کی کردار کشی کی گئی۔ سیتا وائٹ سکینڈل سے لے کر دیگر ایشوز سے انہیں پریشان کیا گیا۔ اگرچہ جمائمہ کے بارے کہا جاتا تھا کہ انہیں شکایت تھی کہ عمران خان کے پاس ان کیلئے وقت نہ تھا‘ وہ گھر پر کئی کئی دن اکیلی رہتی تھیں اور عمران خان سیاسی دوروں پر ہوتے تھے۔ لہٰذا وہ لندن واپس چلی گئیں‘ تاہم جمائمہ کو خود بھی کردار کشی کا سامنا رہا۔ ہم سب کو علم ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی کسی کے ساتھ رعایت نہیں رکھتا۔ اگر شریفوں نے بینظیر بھٹو‘ نصرت بھٹو‘ جمائمہ اور بشریٰ صاحبہ کے ساتھ رعایت نہیں کی تو عمران خان نے بھی مریم نواز کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی۔ یوں ایک دوسرے پر ذاتی حملے کیے گئے۔ اس سے بھی بڑھ کر‘ پاکستان میں اقتدار اور پاور کیلئے آپ کو جان دینی بھی پڑتی ہے اور لینی بھی پڑتی ہے۔ ایک وزیراعظم گولی سے مارا گیا‘ دوسرا پھانسی لگا اور تیسری وزیراعظم بم دھماکے میں قتل کر دی گئی‘ نواز شریف اور باقیوں کو جیلوں کی سزا ہوئی۔
اس کھیل میں کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے۔ لہٰذا اگر آج رانا ثناء اللہ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے دونوں بیٹوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا تو ایسا ہی ہو گا اور یہ کوئی انہونی نہیں ہو گی۔ ہاں اس سے پارٹی کا اندازِ سیاست بدل جائے گا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ دونوں بیٹے باپ کو چھڑانے یا اس سے ملنے کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں لیکن باپ خود جب وزیراعظم پاکستان بنا تو ساڑھے تین سال تک برطانیہ کا دورہ نہیں کیا تھا۔ عمران خان پہلے وزیراعظم تھے جو ایک بار بھی لندن دورے پر نہیں گئے۔ عمران خان کے مخالفین کہتے تھے کہ یہ بھی کسی روحانی شخصیت کے حساب کتاب کا نتیجہ تھا کہ عمران خان لندن نہیں گئے تاکہ بچوں سے نہ مل لیں۔ آج ان کے بچے ان سے ملنے کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں۔
میں تو ذاتی طور پر اس حق میں ہوں کہ بچوں کو باپ سے فون پر بات چیت یا ملنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ مان لیا‘ نواز لیگ کہتی ہے کہ نواز شریف کو جیل سے لندن میں بسترِ مرگ پر کلثوم نواز صاحبہ سے فون پر بات کرنے کی اجازت نہ دی گئی تھی لیکن اگر عمران خان دور میں غلط ہوا تو ضروری نہیں کہ آج شہباز شریف کے دور میں بھی وہ غلطی دہرائی جائے۔ بہر حال سیاسی لڑائی اب دلچسپ مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ عمران خان کا ابھی تک اس حوالے سے ردعمل سامنے نہیں آیا کہ کیا وہ پاکستانی سیاست کے خطرناک الاؤ میں اپنے بچوں کو بھی لانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ یہ راستہ تخت یا تختے کی طرف جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو کی طرح آپ کے بچے بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں‘ مریم نواز کی طرح وزیراعلیٰ بھی بن سکتے ہیں یا پھر بینظیر بھٹو کی طرح جان بھی دے سکتے ہیں۔ سیاست بے رحم لوگوں کا کھیل ہے جس میں کوئی کسی کا سگا نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا انجام سب کے سامنے ہے اور اب عمران خان اور نواز شریف اپنی جان داؤ پر لگا کر یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ لیکن کیا اب ذولفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے بعد عمران خان بھی اپنے بچوں کو اس کھیل کا حصہ بنانے کے لیے تیار ہیں جس میں جان دینی بھی پڑتی ہے اور لینی بھی پڑتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved