تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     11-07-2025

مینگو ریپبلک

اگر کچھ طاقت‘ سکت ہوتی اور موقع نصیب ہوتا تو میں ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھتا جو نہ صرف پہلے سے موجود ایک سو سے زیادہ سیاسی جماعتوں میں ایک قیمتی اضافہ ہوتا بلکہ میرا نام کم از کم اُس پارٹی کے بانی کے طور پر آنے والی کئی نسلوں تک یاد رکھا جاتا۔ خواہش‘ خواہش ہی ہوتی ہے اور یہ بس اسی طرح رہے تو ہم خوش ہیں کہ باقیوں کا جو حشر دیکھ رہے ہیں‘ اور جہاں وہ صرف وہ ہی بن سکے جو ہیں‘ تو ہم نے کیا کر لینا تھا۔ امریکی کہتے ہیں کہ اگر خواہشیں گھوڑے ہوتیں تو ہم ان پر سواری کرتے۔ میری اس خلائی پارٹی کا نام 'آم پارٹی‘ ہوتا اور میں بھی بحیثیت محرومِ اقتدار پہلا اور آخری یہ نعرہ لگاتا کہ 'آم کو عزت دو!‘۔ آپ بھی سوچیں گے کہ یہ کیسی دیوانگی ہے کہ یہاں 25کروڑ عوام‘ جن کی تعداد میں اس مضمون کی اشاعت تک کئی لاکھ کا باضابطہ اضافہ ہو چکا ہو گا‘ کو تو عزت مل نہ سکی اور یہاں 'آم کو عزت دو‘ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ میری گزارش ہے کہ آپ نے مختلف رنگوں‘ ذائقوں‘ سائزوں اور قسموں کے آم تو ضرور کھائے ہوں گے مگر کبھی آپ نے ہمارے جیسے درویش کسانوں کے بارے میں نہیں سوچا کہ وہ کس لگن‘ خون پسینے اور سرمایہ کاری سے پھلوںکا بادشاہ آپ کی پلیٹ میں رکھتے ہیں۔ ہماری خوشی اسی میں ہے کہ آم صرف ہماری آنکھوں کو ہی ٹھنڈک نہ پہنچائیں بلکہ آ پ کو بھی نصیب ہوں۔ یہ ایک پوری کہانی ہے جو اس درویش کی زندگی کا سرمایہ ہے۔ یہ اب آپ کے سامنے عاجزی کے ساتھ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ بھی 'مینگو ریپبلک‘ کے شہری بنیں۔ لیکن اس سے پہلے ایک اور پھل سے منسوب ریپبلک کا ذکر کروں تو یہ گمان نہ کیجیے گا کہ آموں کی بات کرکے آپ کو سیاست کی طرف دھکیل رہا ہوں‘ جیسے زمانۂ قدیم سے سیاستدان سبز باغ دکھا کر کالا باغ کی منزل پر لاکھڑا کرتے ہیں۔
آپ سے اب یہ راز کیا چھپانا کہ 'مینگو ریپبلک‘ کا خیال مجھے بھی 'بنانا ریپبلک‘ سے آیا ہے۔ جو میرے دیہاتی بھائی میری طرح انگریزی زبان سے دور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں رکھتے‘ ان کی آسانی کے لیے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ 'بنانا‘ کا مطلب کیلا ہے جو ہمارے ہاں تولنے کے بجائے گنتی سے درجنوں کے حساب سے بکتا ہے۔ آخر یہ چیز انفرادیت تو رکھتی ہے۔ مینگو ریپبلک کے منشور اور نظریاتی تعارف سے پہلے ضروری ہے کہ 'بنانا ریپبلک‘ کا مطلب آپ کے گوش گزار کر دیا جائے۔ مبادا آپ یہ مفہوم میری اختراع سمجھ کر اعلیٰ حکام کو مطلع کریں اور مجھ پرکوئی جائز ناجائز مقدمہ بنوا دیں‘ تو عرض ہے کہ یہ عالمی سیاسی لغت میں سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ ٹوٹا پھوٹا ترجمہ البتہ میرا اپنا ہے۔ 'بنانا رپبلک ایک ایسا ملک جس میں غربت اور کرپشن عام ہو اور جس کی گورننس بدترین ہو، ایک ایسی ریاست جس کی معیشت پر حکومت اور اس کے حامی سرمایہ داروں کا غلبہ ہو اور وہ نظام فقط حکمران طبقات کے مفاد میں چلایا جارہا ہو، ایک کمزور اور غریب ملک جسے بدعنوان حکومت چلائے اور جس کا انحصار مانگے تانگے کے باہر کے سرمائے پر ہو‘۔ یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسی خرابیاں کسی اور ملک میں ہوں گی‘ ہمارا ان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے حکمران اول درجے کے صاف ستھرے‘ نہایت ہی دیانت دار‘ فرض شناس اور سب سے بڑھ کر عوام اور دھرتی سے پیار کرنے والے ہیں۔ اس لیے تو ہم عوام اور ہمارے درویشوں کے آم تک ان کی محبت کے جذبے میں اس قدر گرفتار ہیں کہ بار بار منتخب کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہمارے سر فخر سے پوری دنیا میں اتنے بلند ہیں کہ دیگر براعظموں کے رہنے والے بھی دور سے دیکھ سکتے ہیں۔
اس لیے اگر آموں کے ساتھ ریپبلک کا لاحقہ جوڑ دیا جائے تو گزارش ہے کہ اس کا غلط مطلب نہ لیا جائے۔ ہم یہاں مینگو ریپبلک بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے آپ کا تعاون درکار ہے۔ ایسی ریپبلک کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ آموں کو نہ صرف عزت دی جائے بلکہ انہیں عام بھی کیا جائے۔ دل چاہتا ہے کہ جدھر نظر پڑے‘ آموں کے باغات ہوں۔ ہماری سرزمین کا کوئی ٹکرا‘ جہاں ان کے لیے موسم سازگار ہے‘ درختوں سے خالی نہ ہو اور نہروں اور سڑکوں کے کنارے‘ اور سرکاری جنگلات میں دوسرے درختوں کو عزت دینے کے ساتھ آم کو بھی عزت دے کر اسے اُگنے اور پھولنے پھلنے کا موقع دیا جائے تاکہ عوام کو مفت میں آم کھانے کے مواقع میسر آ سکیں۔ دل تو اور بھی بہت کچھ چاہتا ہے کہ ہمارے دل کی سرزمین میں خواہشات کی ایسی چنگاری رکھ دی گئی ہے جو کبھی کبھار جنگل کی آگ کی طرح بھڑک اٹھتی ہے۔ آج ایسا ہی دن ہے‘ نہ جانے کیوں ملک کو مینگو ریپبلک دیکھنے کی تڑپ شعلہ بار ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آم کو عزت دینا مشکل کام ہے یا یہ ریپبلک دیوانے کا خواب ہے تو ایسا ہرگز نہیں۔ جو اس سفرِ شوق کے مسافر بنے ہیں‘ انہیں ہم نے آموں کی بہشت میں زندگی کا لطف اٹھاتے دیکھا ہے۔ یہ درویش بھی ان خوش قسمت کسانوں میں سے ہے جنہوں نے آموں کو عزت دینے کی وعظ و نصیحت نہیں کی بلکہ زندگی کا ایک حصہ ان کے لیے وقف کردیا۔ اس سے بڑی خوشی اور سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ آم کا بیج زمین میں دبا کر مٹی ڈال دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے چار خوبصورت ہلکے گلابی اور سبز رنگوں کے پتے نمودار ہوں اور آپ کی آنکھوں میں تراوت اور اطمینان کی شبنم اُتر آئے۔
آموں سے محبت کی کہانی ہماری دیگر محبتوں سے کچھ مختلف نہیں‘ اسی طرح کی ایک پوری ہزار داستان ہے جو دل کے صفحات پر رقم ہے۔ بس کبھی موج میں ایک آدھ صفحے کی گرد جھاڑ کر کسی کو سنا دیتے ہیں۔ سننے والوں کو کہانیوں میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے‘ اگر ہے تو آموں میں ہے‘ کچے‘ پکے‘ دیسی‘ تخمی اور مشہورِ زمانہ قلمی آموں میں۔ اس وقت مقصد چونکہ مینگو ریپبلک کی رکنیت سازی ہے اس لیے کچھ ماضی اور حال کی آموں کی خوشبو میں بسی یادیں آپ کی نذر کرتا ہوں۔ شعور کی آنکھ اپنے قدیمی گاؤں نما قصبے میں کھولی جو اَب ہر طرف پھیلتا جارہا ہے تو پھلوں کے صرف دو درخت دیکھے۔ کھجور کے سینکڑوں درختوں کے جھنڈ اور کچھ فاصلے پر کسی شخص کے گھر میں آم کا صرف ایک درخت‘ جس کی زیارت کے لیے اس موسم میں دیگر بچوں کی آوارہ ٹولی کے ساتھ ادھر جا نکلتے۔ باقی پھلوں کی تصویریں صرف اردو کے الف انار‘ ب بکری کے قاعدے میں دیکھی تھیں۔ دل میں خیال اٹھتا کہ آخر ہر گھر کے صحن میں ایک یا اس سے زیادہ آموں کے درخت کیوں نہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ کوشش ضرور کی مگر سوائے ایک بیری اور پانچ کھجوروں کے درختوں کے دوکنال جگہ میں کامیابی نہ ہو سکی۔ وہ بھی والدہ محترمہ کی کاوش تھی کہ بیر اور کھجوریں موسم میں ہمسایوں اور عزیزوں میں تقسیم ہوتی رہتیں۔ والدہ محترمہ رخصت ہوئیں‘ زمانے نے پلٹا کھایا تو آہستہ آہستہ سب نشان مٹتے چلے گئے۔ کیلیفورنیا کے ساحلوں کی آب و ہوا کے زیر اثر امریکہ میں تعلیم کے دوران زراعت اور باغبانی کا شوق پیدا ہوا اور اس نے ایسی جڑ پکڑ لی کہ اس تناور درخت کو شاید ہمارا آخری وقت ہی کاٹ سکے گا۔ تین دہائیوں قبل آموں کے باغوں کا خواب ہمارے مرحوم دوست سردار قدرت عزیز مزاری کے شوق نے تازہ کر دیا۔ ہم بھی ان کی محبت اور تقلید میں مینگو ریپبلک کے باسیوں میں شمار ہو گئے۔ آج آم کے بلند و بالا ہزاروں پیڑوں کو دیکھتا ہوں تو مزاری صاحب کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ آپ جو ہیں‘ جہاں ہیں آم کا ایک پیڑ اپنی زندگی میں لگا کر فردوسِ بریں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اس کارِ خیر میں دیر نہ کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved