غیر قانونی ریاستِ اسرائیل کو ماضی میں ایک بار مصر کے کمیونسٹ انقلابی رہنما صدر جمال عبدالناصر مرحوم نے اس کی اصل اوقات یاد کرائی تھی‘ تب سے لے کر 2025ء تک اسرائیل فاتح‘ ناقابلِ تسخیر اور آہنی ریاست کہلاتا آیا ہے۔ ایران پر اسرائیلی اور پھر امریکی فضائی حملوں نے اسرائیل کی جنگی جادوگری کے غبارے سے تمام تر ہوا نکال دی۔ جس طرح 1929ء سے1948ء تک ساری دنیا کے صہیونی یہودی آباد کار ہجرت کرکے بیت المقدس پہنچے تھے‘ آج ایک بار پھر عین اسی طرح سے اسرائیل سے تاریخ کی سب سے بڑی ریورس ہجرت شروع ہو چکی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں کچھ ایفرو عرب ملکوں سے اسرائیل کو بطور جائز ریاست تسلیم کرانے کیلئے ''کامن گراؤنڈ‘‘ تخلیق کی گئی جس کے تحت متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیل نے امن معاہدہ 13 اگست 2020ء دستخط کیا‘ جسے صہیونی لیڈروں نے ابراہم اکارڈکا نام دے کر برانڈ کر دیا۔ ایک تاریخی حقیقت یہ بھی کہ 1971ء کے آغاز تک‘ جس سال متحدہ عرب امارات ایک آزاد ملک بنا تھا‘ اس کے پہلے صدر شیخ زاید بن سلطان النہیان نے اسرائیل کو دشمن کہا۔ نومبر 2015ء میں اسرائیل نے پہلی بار خلیج فارس میں باضابطہ طور پر رسائی حاصل کر لی۔ پھر اگست 2019ء میں اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران متحدہ عرب امارات کے ساتھ فوری تعاون کا اعلان کیا۔ ابراہم اکارڈ کے نتیجے میں اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان معاہدوں کا ایک تسلسل شروع ہوا جس میں بحرین اور مراکش بھی شامل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ اپنے تئیں اسرائیل نے مسلم ملکوں کو امریکہ کے سفارتی دباؤ میں لاکر اپنا وجود تسلیم کرانے کیلئے بنائے گئے منصوبے کا نام ابراہم اکارڈ رکھا‘ مگرصدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اسرائیل کی علاقائی نمبرداری کے اس پروجیکٹ پر مسلم ممالک میں برائے نام پذیرائی اور کامیابی مل سکی ہے۔ اسی عرصے میں اسرائیل نے بے صبری سے ابراہم اکارڈ کو اَکھنڈ اسرائیل میں تبدیل کرنے کا نقشہ تک جاری کر ڈالا جس میں حجاز کی سرزمینِ مقدس کے کچھ علاقوں سمیت آدھا درجن سے زائد عرب ملکوں پر خطِ تنسیخ کھینچ کر اسے اسرائیل میں شامل کرنے کا برملا اظہار کر دیا۔ اس پس منظر کو موجودہ غیرقانونی کابینہ کے ایک وفاقی وزیر‘ ایک مشیر اور ایک سابق وفاقی سیکرٹری برائے امورِ خارجہ پاکستان کے بیانات کے روشنی میں دیکھنا ضروری ہے۔
پہلا بیان: وفاقی وزارتِ خارجہ کے اہم سابق عہدیدار‘ جو اس وقت ایک چینل پر پروگرام بھی کرتے ہیں‘ نے دو بار دعویٰ کیا کہ موجودہ پاکستانی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے راستے پر چل پڑی ہے۔ انہوں نے ویسٹرن اسرائیلی میڈیا میں کچھ رپورٹ شدہ حقائق کو اس تجزیے کی بنیاد بنایا اور اسلام آباد میں ایک میٹنگ کا بھی حوالہ دیا جس میں وہ خود شریک تھے۔ قارئینِ وکالت نامہ کو اچھی طرح سے یاد ہو گا۔ پچھلے تین سال میں کئی مرتبہ پاکستانی وفود کے دورۂ تل ابیب اور دورۂ بیت المقدس کی خبریں اور تصاویر لیک ہوتی آئی ہیں‘ جو اَب بھی سوشل میڈیا سائٹس پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ سابق سفیر کے اس انکشافاتی بیان کی نہ تو دفترِ خارجہ نے تردید کی اور نہ ہی حکومتِ پاکستا ن کے کسی اور ذمہ دار نے اس پر پوزیشن لی۔
دوسرا بیان: کابینہ کے ایک سینئر رکن نے ٹی وی کیمروں کے سامنے بیٹھ کر جاری کیا۔ فرمایا: پاکستان کو ابراہم اکارڈ کے حوالے سے عرب ممالک کے فیصلے کی پیروی کرنا ہو گی۔ اس بیان سے کئی حقائق سامنے آئے۔ پہلی حقیقت یہ کہ جو کچھ سابق سفیر کہہ رہے تھے وہ بے بنیاد اور بلاجواز لفاظی ہرگز نہ تھی کیونکہ وفاقی کابینہ کے دوسرے رُکن نے ان کے بیان کی تردید کرنے کے بجائے اشارتاً اس کی تصدیق کر دی ہے۔ دوسرا یہ کہ ابراہم اکارڈ کا پاکستان کے ساتھ کیا لینا دینا ہو سکتاہے؟ یا کسی عرب ملک کی خارجہ پالیسی کے ساتھ پاکستان کا کیا تعلق ہے؟ تیسری حقیقت یہ کہ پرویز مشرف سے شروع کر کے آج کے فارن اکاؤنٹ ہولڈر حکمرانوں تک‘ سبھی اپنے نظریے‘ خود مختاری اور حقیقی آزادی کو چند روپوں کے لیے گروی رکھنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ آئین کے مطابق کابینہ کا رکن اکیلے نہیں بولتا‘ پوری کابینہ اس کے حرف و صوت اور پالیسی سٹیٹمنٹ میں شامل ہوتی ہے۔ اس بیان کا آخری اہم پہلو یہ ہے کہ کیا پاکستان کسی عرب ملک کی کالونی ہے یا پاکستان جزیرۂ عرب اور عربین گلف میں واقع ہے؟ آپ جس پہلو سے بھی دیکھیں گے اس بیان میں سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے دباؤ کی ناقابلِ برداشت بُو محسوس ہو رہی ہے۔
تیسرا بیان: یہ بیان رجیم فارم47 کے ایک مشیر صاحب کا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا براہِ راست اسرائیل سے کوئی جھگڑا نہیں۔ اس پہ مختصر ترین اور سادہ ترین تبصرہ یہی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کے قبضے میں وہ قبلۂ اول ہے جس کی جانب رُخِ انور کر کے نبی آخر زمان حضرت محمدﷺ نے نمازیں ادا فرمائیں۔ شبِ اِسراء ومعراج آپﷺ کی پہلی منزل بھی بیت المقدس تھا‘ جہاں انبیاء کرام علیہم السلام نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا فرمائی۔ اسرائیل سے صرف پاکستانی نہیں پوری مسلم اُمّہ کا جھگڑا تھا اور چلتا رہے گا۔ قبلۂ اول کی آزادی تک!
ان دنوں اسرائیل نواز مغربی میڈیا اور اسرائیلی میڈیا میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان مشترکات کا بڑا چرچہ ہے۔ ان مباحث میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ پاکستان اور اسرائیل دو ایسے ملک ہیں جن کی کابینہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام دینے کیلئے باقاعدہ اپنا اُمیدوار نامزد کیا ہے۔ آزاد مغربی ذرائع نے صدر ٹرمپ کے ایران پر حملے کے بعد موصوف کو ''وار میکر‘‘ کا خطاب دیا۔ ویسے یہ کوئی حیران کُن بات بھی نہیں۔ ایران پر بغیر کسی اشتعال انگیزی کے امریکہ بہادرکی بمباری قدیم امریکی بمباریوں کی تاریخ کا نیا باب ہے۔ چین سے ان ممالک کی فہرست سامنے آئی ہے‘ دوسری عالمی جنگ میں جاپان پر چھ اور نو اگست 1945ء کو ایٹم بم گرانے کے بعد جن پر امریکہ نے بمباری کی۔ کوریا اور چین 1950ء تا1953ء جنگِ کوریا‘ گوئٹے مالا 1954ء‘ 1960ء‘ 1967ء تا 1970ء امریکی بمباری کی زد میں آئے۔ انڈونیشیا 1958ء‘ کیوبا 1959ء تا1961ء تک‘ کانگو 1964ء‘ لاؤس 1964ء تا 1973ء‘ ویتنام 1961ء تا 1973ء‘ کمبوڈیا 1969ء تا 1970ء امریکی بمباری کی زد میں رہے۔ پھر1983ء میں گریناڈا‘ 1983ء تا 1984ء لبنان اور شام میں بمباری۔ لیبیا پر 1986ء‘ 2011ء اور 2015ء میں امریکہ نے بمباری کی جبکہ ایل سلواڈور اور نکارا گوا پر 1980ء میں‘ ایران1987ء‘ پاناما 1989ء‘ عراق 1991ء۔ 2003ء خلیجی جنگ‘ جس کے بعد 2003ء تا 2015ء تک عراق پر امریکی بمباری۔ امریکی بمباری سے مستفید ہونے والے ممالک کی تفصیل ایک کالم میں نہیں سما سکتی۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ دور دیس کے ملکوں پر بمباری آخر کرتا کیوں ہے؟ نیو ورلڈ آرڈر کی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ دنیا کے بزدل حکمرانوں کو خوفزدہ کرکے کرائے کے ٹٹو بناتا ہے۔ امریکہ سے سہمے ہوئے حکمرانوں کیلئے اسرائیل تسلیم کروانے کا نسخہ بظاہر نادر اور خوش کُن ہے۔ پاکستان کی قوم قبلۂ اول کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے حق میں شروع دن سے ہم آواز ہے۔ یہاں کوئی مغرور ملک یا بہت مغرور حکمران قبلۂ اول کی آزادی کے معاملے میں نہ لوگوں کو ڈرا سکتا ہے‘ نہ امریکہ کی بمباری کا ہَوّا دکھا کر مایوس کر سکتا ہے۔ الہام و افکار میں جوش ملیح آبادی کہہ گئے:وہاں پنپ نہ سکے گا غرورِ چتر و کُلاہ؍ کبھی جدھر سے ترا انکسار گزرے گا؍ دل فضا میں پُرافشاں ہے آرزوئے غبار؍ ضرور ادھر سے کوئی شہسوار گزرے گا؍
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved