مالی سال 2025ء ختم ہوچکا۔ یہ سال کئی اعتبار سے ملک کیلئے بہتر رہا اور کچھ معاملات پریشانی کا باعث بھی بنے۔ اس دوران ڈالر کی قیمت قدرے مستحکم رہی۔ گیارہ مہینوں تک ڈالر کی قیمت نہیں بڑھی‘ صرف جون میں تقریباً پانچ روپے قیمت بڑھی جس کی ممکنہ وجہ ایران اسرائیل کشیدگی ہو سکتی ہے۔ مگر ڈالر کی قیمت کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے ملک کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ سٹیٹ بینک نے تقریباً سات ارب سے زائد ڈالرز مارکیٹ سے خریدے۔ یہ رقم آئی ایم ایف سے کیے گئے قرض معاہدے کے تقریباً برابر ہے۔ مالی سال 2025ء میں ترسیلاتِ زر میں بھی اضافہ دیکھا گیا جو 38ارب ڈالرز سے بھی بڑھ گئیں۔ مالی سال 2024ء میں تقریباً 36 ارب ڈالرز ترسیلات موصول ہوئی تھیں۔ مارچ 2025ء میں چار ارب 10کروڑ ڈالرز کی ترسیلاتِ زر حاصل ہوئیں جو ملکی تاریخ میں ایک ماہ میں موصول ہونے والی سب سے زیادہ ترسیلات ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں مہنگائی میں ڈرامائی کمی دیکھی گئی۔ جون 2024ء میں مہنگائی کی شرح تقریباً 12.6فیصد تھی جبکہ جون 2025ء میں یہ مرحلہ وار کم ہو کر تقریباً 3.2فیصد رہ گئی۔ ناقدین کے مطابق مہنگائی میں تقریباً تین گنا کمی صرف اعداد و شمار میں ہیر پھیر سے ممکن ہوئی جبکہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔ زمینی سطح پر اشیائے خور و نوش سے لے کر ضرورت کی ہر شے پچھلے مالی سال سے مہنگی ہوئی ہے۔ مالی سال 2025ء میں شرحِ سود میں واضح کمی دیکھی گئی۔ جون 2024ء میں شرح سود تقریباً 20فیصد تھی جو جون 2025ء میں کم ہو کر تقریباً 11فیصد ہو چکی ہے۔ شرحِ سود میں کمی سے سرکار کو مقامی بینکوں کے قرضوں پر کم سود کی ادائیگی کرنا پڑی۔ اگرچہ گزشتہ مالی میں برآمدات میں مالی سال 2024ء کی نسبت اضافہ ہوا لیکن یہ مالی سال 2025ء کے طے شدہ ہدف سے کم رہیں۔ مالی سال 2025ء کیلئے برآمدات کا ہدف 32 ارب 34 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھا جبکہ یہ 32 ارب 10 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تک رہیں۔ گو کہ یہ فرق زیادہ نہیں ہے لیکن یہ ہدف مالی سال 2024ء سے دانستہ طور پر کم رکھا گیا تھا اور خیال کیا جا رہا تھاکہ اس بار بہ آسانی ہدف سے زیادہ برآمدات کر لی جائیں گی جس کا حکومت کو سیاسی فائدہ بھی ہو گا کہ لوگ کہیں گے(ن) لیگ صرف تاجروں ہی نہیں بلکہ برآمد کنندگان کی بھی نمائندہ جماعت ہے لیکن برآمدکنندگان حکومت سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے۔
پاکستان بزنس کونسل نے چند روز قبل حکومت کو اعتراضات سے بھرپور ایک خط لکھا ہے کہ کونسل کی مشاورت کے بغیر نئی صنعتی پالیسی کیسے جاری کر دی گئی۔ کونسل میں تقریباً 100 سے زیادہ مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہیں جو ملکی برآمدات کا تقریباً 40 فیصد فراہم کرتی ہیں اور روزگار کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح ملک کے تقریباً تمام چیمبرز بھی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ حکومت درآمدات اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف بھی حاصل نہیں کر سکی۔ درآمدات کا ہدف 57 ارب 27 کروڑ ڈالر رکھا گیا تھا جبکہ مالی سال کے اختتام پر درآمدات 58 ارب 30 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔ اسی طرح تجارتی خسارے کا ہدف تقریباً 24 ارب 94 کروڑ ڈالر تھا جبکہ مالی سال کے اختتام پر تجارتی خسارہ تقریباً 26 ارب ڈالرز سے بڑھ گیا۔ بیرونی سرمایہ کاری کے اہداف بھی حاصل نہیں ہو سکے۔
دوسری جانب سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکسچینج کمپنیوں کو پاکستان ریمیٹنس انیشی ایٹو (پی آر آئی) کے دائرہ کار میں شامل کر لیا ہے۔ اس سے ملکی معیشت کو کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں‘ اس بارے کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا لیکن ایکسچینج کمپنیوں کا منافع دو فیصد سے بڑھ کر 22 فیصد تک جا سکتا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایکسچینج کمپنیوں کو پی آر آئی میں شامل کرنے سے ملک میں ترسیلاتِ زر بڑھ سکتی ہیں۔ لیکن عملاً یہ کیسے ہو گا اس بارے میں لائحہ عمل واضح نہیں ہو سکا ہے۔ پی آر آئی کے تحت بیرونِ ملک منی ٹرانسفر آپریٹر (ایم ٹی اوز) اور بینک مل کر ملک میں ڈالرز لاتے ہیں۔ سعودی عرب سے رقم بھیجنے پر بینک ایم ٹی اوز کو تقریباً 20سے 25ریال فی ٹرانزیکشن بچت دیتے ہیں اور بینک یہ بچت حکومتِ پاکستان سے سبسڈی کی مد میں وصول کرتے ہیں۔ یعنی یہ رقم بھی پاکستانیوں کی جیب سے دی جاتی ہے۔ یہ منافع بھارتی کمپنیوں کی جیب میں جاتا ہے کیونکہ گلف اور یورپ میں نوے فیصد سے زیادہ ایم ٹی اوز بھارتی ہیں۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں نے ملک میں اپنے گھروں میں پیسہ بھیجنا ہوتا ہے‘ وہ ہر صورت بھیجیں گے چاہے ایم ٹی او کوئی بھی ہو۔ اس صورتحال میں ایم ٹی اوز کو 20سے 25ریال دینے کی کیا وجہ ہے‘ اس بارے میں ملک کے تمام سرکاری ادارے خاموش ہیں۔ ایکسچینج کمپنیوں کو اس میں شامل کرنے کے بجائے بینکوں کو بھی اس میں سے نکالے جانے کی ضرورت ہے۔ جو فائدہ بھارتی کمپنیوں کو مل رہا ہے وہی اگر ترسیلات بھیجنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو دیا جائے تو ملکی ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بھی چند سال قبل یہ تجویز دی تھی۔ حکومتِ پاکستان نے یہ تجویز قبول نہیں کی لیکن بنگلہ دیش نے اس تجویز پر عمل کر کے اپنی ترسیلات میں اضافہ کر لیا تھا۔ اس وقت پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بیرونِ ملک سے ترسیلات بھیجنے والی کمپنیوں کو سروس چارجز کے علاوہ سبسڈی بھی دی جاتی ہے۔ ہر سال تقریباً دو سو ارب روپیہ اس سبسڈی کی نذر ہو جاتا ہے۔ بینک‘ بیوروکریٹس اور بھارتی کمپنیاں اسکے اصل بینی فشری ہو سکتے ہیں۔ یہ سلسلہ صدر ضیاالحق کے دور میں شروع ہوا تھا جب سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے صدر کے سعودی دورے پر شکایت کی کہ ملک میں رقم بھیجنے کے بھاری چارجز لیے جاتے ہیں۔ صدر نے قانون بنایا کہ یہ چارجز سرکار ادا کرے گی۔ 40 برسوں میں انٹرنیٹ کا انقلاب آنے کے بعد چارجز نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں لیکن حکومت نے یہ قانون ابھی تک تبدیل نہیں کیا بلکہ ہزار ڈالر کی ٹرانزیکشن کو دس حصوں میں تقسیم کرکے ملک میں بھیجے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس طرح سعودی عرب سے ایک ٹرانزیکشن پر 20 ریال کے بجائے 200 ریال تک کمائے جا سکتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے آڈٹ میں بھی یہ واضح ہو چکا لیکن ابھی تک اس ضمن میں کوئی مضبوط ایکشن نہیں لیا جا سکا۔ ملک میں برآمد کنندگان کو بھاری مراعات دی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً سو روپے فی ڈالر کے برابر سبسڈیاں اور مراعات ایکسپورٹرز کو ملتی ہیں لیکن برآمدات میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہو رہا۔ اگر برآمدکنندگان کو فوائد دینے کے بجائے یہ سبسڈی ترسیلات بھیجنے والے پاکستانیوں کو منتقل کی جائے تو زیادہ بہتر نتائج کی امید کی جا سکتی ہے۔
اُدھر امریکہ نے پاکستان کو نو جولائی تک مہلت دی تھی کہ برآمدات پر 29 فیصد ٹیرف بحال ہونے سے پہلے نیا ٹیرف معاہدہ کر لیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق اس معاہدے کے معاملات طے ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک باقاعدہ معاہدہ سامنے نہیں آ سکا اور نہ ہی باضابطہ طور پر معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ جب تک معاہدے پر دستخط نہیں ہو جاتے اور امریکہ کی جانب سے کنفرم نہیں کیا جاتا‘ کامیابی کا دعویٰ کرنا مشکل ہے۔ امریکہ پاکستان تعلقات کے پیشِ نظر یہ بہترین وقت ہے کہ پاکستان امریکہ سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کرے۔ پاکستان اور امریکہ کا تجارتی حجم تقریباً سات ارب ڈالر ہے جس میں تقریباً چھ ارب ڈالر پاکستان کی برآمدات اور تقریباً ایک ارب ڈالر سے زیادہ درآمدات ہیں۔ فری ٹریڈ ایگریمنٹ سے پاکستان کی تقریباً پندرہ سے بیس کروڑ ٹیکس آمدن کم ہو سکتی ہے لیکن برآمدات تقریباً دس سے بارہ ارب ڈالرز تک بڑھ سکتی ہیں۔ اس وقت پاک امریکہ تعلقات بہتر ہیں۔ ٹرمپ کے بیٹے اور پاکستانی حکومت میں کرپٹو کے حوالے سے معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ اگر اس وقت مطلوبہ فوائد حاصل نہ کیے جا سکے تو شاید دوبارہ یہ موقع نہ مل سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved